Hamla Aurat Ke Pistan Se Baghair Dard Ke Nikalne Wale Saaf Pani Ka Hukum

حاملہ عورت کے پستان سے بغیر کسی درد کے نکلنے والے صاف پانی کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12923

تاریخ اجراء: 02 محرم  الحرام1445 ھ/21جولائی 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک حاملہ عورت  کے حمل کا آخری مہینا ہے ، اس عورت کے پستان سے کبھی کبھار  بغیر کسی بیماری اور درد کے صاف پانی آرہا ہے تو کیا یہ پانی ناپاک  ہوگا؟ کیا اس پانی کے نکلنے کے بعد پاک کیے بغیر وہ عورت نماز پڑھ سکتی ہے یا پھر اسے نماز سے پہلے غسل کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ کسی بیماری یا زخم کی وجہ سے خون یا  پیپ یا زردپانی جسم کے کسی بھی حصے سے بہہ کر ایسی جگہ پہنچ جائے  جس جگہ کو وُضو یا غسل میں دھونا فرض ہو تو اس صورت میں وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے اور نکلنے والی وہ رطوبت بھی ناپاک شمار ہوتی ہے۔

   اب جبکہ پوچھی گئی صورت میں حاملہ عورت کے پستان سے بغیر کسی درد کے صاف پانی نکل رہا ہے اور واقعی کسی  بیماری کی وجہ سے نہیں نکل رہا تو یہ پانی پاک ہے ، اس پانی کے نکلنے کے سبب اس عورت کا وضو نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اس پر غسل فرض ہوگا۔ اس صورت میں وہ عورت حسبِ معمول نماز ادا کرے ۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاکٹر سے مشورہ لے لیا جائے کہ یہ پانی بیماری کا تو نہیں ہے ۔

   درد یا  مرض  کی وجہ سے یا خون کی آمیزش کا اثر  لئے بہنے والی رطوبت ناپاک اور ناقضِ وضو ہے۔ جیسا کہ رد المحتار، مراقی الفلاح، فتح القدیر وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ و الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة وماء البثرة والثدي والعين والأذن لعلة سواء على الأصح۔۔۔۔۔۔ وظاهره أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع، تأمل۔ “ترجمہ: اصح قول کے مطابق خون ، پیپ، صدید (کچ لہو )اور زخم، پھڑیا ، پھنسی، پستان ، آنکھ یا کان  سے بیماری کی وجہ سے نکلنے والا پانی ایک حکم  میں ہیں ۔اس کا ظاہر یہ ہے کہ دار ومدار اس بات پر ہے کہ یہ پانی وغیرہ  بیماری کی وجہ سے ہو اگرچہ اس کے ساتھ درد نہ ہو، تو تم غور کر لو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج01، ص148، مطبوعہ بیروت، ملتقطاً)

   غنیہ میں اس حوالے سے مذکور ہے: ”کل  ما یخرج من  علۃ من ای موضع کان کالاذن  والثدی والسرۃ ونحوھا فانہ ناقض علی الاصح لانہ صدید“ترجمہ: ہر وہ  رطوبت جو بیماری کی وجہ سے خارج ہو ، چاہے کسی بھی مقام سے نکلے جیسے کان ، پستان یا ناف وغیرہ ، وہ اصح قول کے مطابق ناقض وضو ہے  کیونکہ یہ صدید (کچ لہو ) ہے۔ ( غنیۃ المستملی ، فصل فی نواقض الوضوء، ص133،مطبوعہ ترکی)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ” بالجملہ اُن کے کلمات قاطبہ ناطق ہیں کہ حکمِ نقض، احتمال وظنِ خون وریم کے ساتھ دائر ہے،نہ کہ زکام سے ناک بہی اور وضو گیا،بحران میں پسینہ آیا اور وضو گیا،پستان کی قوتِ ماسکہ ضعیف ہونے سے دودھ بہا اور وضو گیا ، ہرگز نہ اس کا کوئی قائل ، نہ قواعدِ مذہب اس پر مائل۔(فتاوٰی رضویہ،ج01(الف)،ص364،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   جسم سے پاک چیز کے خارج ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جیسا کہ خزانۃ المفتین میں ہے :”الخارج من البدن علی ضربین طاھر ونجس فبخروج الطاھر لاینقض الطہارۃ کالدمع والعرق والبزاق والمخاط ولبن بنی اٰدم “یعنی بدن سے نکلنے والی چیز دو قسم کی ہے: پاک اور ناپاک ، پاک چیز کے نکلنے سے طہارت نہیں جاتی ۔جیسے آنسو ، پسینہ ، تھوک ، رینٹھ ،انسان کا دودھ ۔(خزانۃ المفتین،کتاب الطہارۃ،فصل فی انواقض الوضوء، ج 01، ص 04، مخطوطہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”جو رطوبت بدنِ انسان سے نکلے اور وُضو نہ توڑے وہ نجس نہیں مثلاً خون کہ بہ کر نہ نکلے یا تھوڑی قے کہ مونھ بھر نہ ہو پاک ہے۔“(بہار شریعت، ج 01، ص 309، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم