Haiz Ki Halat Mein Surah Ikhlas Ka Wazifa Parhna

حیض کی حالت میں سورہ اخلاص کا وظیفہ

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2485

تاریخ اجراء: 05شعبان المعظم1445 ھ/16فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ  اسلامی بہن مخصوص ایام میں سورہ اخلاص وظیفے کی نیت  سے  پڑھ سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مخصوص ایام میں جس طرح  قرآن کریم کی تلاوت کرنا،جائز نہیں اسی طرح   اپنے مقصد کے حصول  کیلئےوظیفے کی نیت سے   قرآنی آیات پڑھنا بھی جائز نہیں اگرچہ یہ وظیفہ ان آیات کا ہو   جو دعا و ثناء  پر مشتمل ہوں۔لہذا اسلامی بہنیں  مخصوص ایام میں سورہ اخلاص وظیفے کی نیت  سے  نہیں پڑھ سکتی ہیں ۔ہاں البتہ قرآنِ کریم کی وہ آیات جو دعا و ثناء وغیرہ پر مشتمل ہیں   ، انہیں دعا اور ثنا ء کی نیت سے پڑھ سکتی ہیں ، بطور عمل اور حصول مقصد کیلئے نہیں ،اور اس میں بھی  یہ  لحاظ ضروری ہے کہ دعا و ثنا ء پر مشتمل وہ قرآنی آیات جو لفظ "قل " سے شروع ہوتی ہیں ، انہیں دعا و ثنا ء کے ارادے سے پڑھتے وقت لفظ "قل " ہٹا کر پڑھنا ہوگا ۔

   اسی طرح جن آیات میں متکلم کے صیغے کے ساتھ حمدوثناہے ،حیض  ونفاس والی وہ  آیات بھی   حمدوثناکی نیت سے نہیں پڑھ سکتی کہ  ان کاقرآن ہونامتعین ہے ۔جیسے (وانی لغفارلمن تاب)وغیرہ۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” اقول ہماری اُس تقریر سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ جن آیات میں بندہ دعا وثنا کی نیت نہیں کرسکتا بحال جنابت وحیض انہیں بطور عمل بھی نہیں پڑھ سکتا مثلاً تفریق اعدا کے لئے سورہ تبت نہ کہ سورہ کوثر کہ بوجہ ضمائر متکلم انا اعطینا قرآنیت کے لئے متعین ہے، عمل میں تین نیتیں ہوتی ہیں یا تو دعا جیسے حزب البحر، حرزیمانی یا اللہ عزوجل کے نام وکلام سے کسی مطلب خاص میں استعانت جیسے عمل سورہ یٰس وسورہ مزمل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا اعداد معینہ خواہ ایام مقدرہ تک اس غرض سے اس کی تکرار کہ عمل میں آجائے حاکم ہوجائے اُس کے موکلات تابع ہوجائیں اس تیسری نیت والے تو بحال جنابت کیا معنے بے وضو پڑھنا بھی روا نہیں رکھتے اور اگر بالفرض کوئی جرأت کرے بھی تو اس نیت سے وہ آیت وسورت بھی جائز نہیں ہوسکتی،جس میں صرف معنی دعا وثنا ہی ہے کہ اولا یہ نیت نیت دعا وثنا نہیں، ثانیا اس میں خود آیت وسورت ہی کہ تکرار مقصود ہوتی ہے کہ اس کے خدام مطیع ہوں تو نیت قرآنیت اُس میں لازم ہے۔ رہیں پہلی دو نیتیں جب وہ آیات معنی دعا سے خالی ہیں تو نیت اولٰی ناممکن اور نیت ثانیہ عین نیت قرآن ہے اور بقصد قرآن اُسے ایک حرف روا نہیں۔ (فتاوی رضویہ،ج 1(ب)،ص 1114،1115،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   بہارشریعت میں ہے:”اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرک کے لیے جیسے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یا خبرِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا بہ نیتِ ثنا پوری سورہ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورہ حشر کی پچھلی تین آیتیں ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَسے آخر سورۃتک پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن کی نیت نہ ہو توکچھ حَرَج نہیں۔ یوہیں تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے نیت کو کچھ دخل نہیں۔(بہارِ شریعت ، ج1،حصہ 02، ص 326، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم