Haiz Aur Roze se Mutaliq ek Aham Masla

حیض اور روزے سے متعلق ایک مسئلہ

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

مصدق: ابومحمد محمد سرفراز اخترعطاری

فتوی  نمبر: 93

تاریخ  اجراء: 07رمضان المبارک4214ھ/20اپریل2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ 2 رمضان کو عورت کو عادت کے مطابق حیض آیا اور عادت کے مطابق  7 رمضان کو ختم بھی  ہوگیا ، پھر دوبارہ 14 رمضان کو خون آ گیا تو کیا یہ حیض شمار ہوگا؟اور اس سے روزہ ٹوٹ گیا؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   دو حیضوں کے درمیان کم از کم پندرہ دن فاصلہ ضروری ہوتا ہے،پندرہ دن سے پہلے آنے والا خون حیض نہیں بلکہ استحاضہ یعنی بیماری کا خون ہوتا ہے،لہذا چودہ رمضان کو جو خون آیا وہ حیض نہیں،بلکہ استحاضہ ہے اور استحاضہ چونکہ نماز و روزہ کے منافی نہیں ہوتا،لہذا عورت کا روزہ بھی نہ ٹوٹا۔

   تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:’’(وأقل الطھر)بین الحیضتین أوالنفاس والحیض(خمسۃ عشر یوماً ) ولیالیھا اجماعا‘‘ترجمہ : دو حیضوں یا حیض و نفاس کے درمیان کم سے کم فاصلہ بالاتفاق پندرہ دن رات ہے۔ (تنویر الابصار ودرمختارمع ردالمحتار،ج1،ص524،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’دو حیضوں کے درمیان کم سے کم پورے پندرہ دن کا فاصلہ ضرور ہے۔یوہیں نفاس و حیض کے درمیان بھی پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے تو اگر نفاس ختم ہونے کے بعد پندرہ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ خون آیا تو یہ استحاضہ ہے۔‘‘(بھار شریعت،ج1،ص373،مطبوعہ مکتبہ المدینہ ، کراچی)

   استحاضہ کا حکم بیان کرتے ہوئے عالمگیری میں ہے : ’’ دم الاستحاضۃ لا یمنع الصلاۃ ولا الصوم ولا الوطئ ‘‘ ترجمہ : استحاضہ کا خون نماز،روزہ اور وطی کو منع نہیں کرتا۔(عالمگیری،ج1،ص39،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم