Bewah Aurat Ka Apne Dewar Ya Jeth Se Baat Karna Kaisa ?

بیوہ عورت کا اپنے دیور یا جیٹھ سے بات کرنا کیسا؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1234

تاریخ اجراء: 14جمادی الثانی1445 ھ/28دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا بیوہ عورت اپنے دیور یا جیٹھ سے بات کرسکتی ہے؟ جیسے کوئی ضروری کام ہو، اسے ڈائریکٹ دیور یا جیٹھ سے بات کرنی ہو، تو بات کر سکتی ہے یا ان کی کسی محرم عورت کے ذریعے ان کو بات پہنچائی جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بھابھی بیوہ ہو یا اس کا شوہر زندہ ہو ، بھابھی کا اپنے دیور و جیٹھ سے بلا تکلف گفتگو کرنا ، ہنسی مذاق کرنا سخت ناجائز و حرام ہے ۔ اگر کوئی ضروری بات ہو یا ان کو کوئی پیغام پہنچانا ہو، تو ان کی محرم عورتوں کو ذریعہ بنایا جائے، ہاں اگر خود بات کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ ہو اورڈائریکٹ بات کرنے میں  فتنے کا بھی اندیشہ نہ ہو، تو لوچ دار انداز،  نرم آواز اور نزاکت والا لہجہ اپنائے بغیر انتہائی سادہ انداز میں مختصر بات کرنے کی اجازت ہے، البتہ بات کرنے کے لئے دونوں کا تنہائی  اختیار کرنا،  جائز نہیں ۔

   نامحرموں سے گفتگو کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ۚ)۳۲)ترجمۂ کنزالایمان: اے نبی کی بیبیو!تم اَور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھی بات کہو۔ (سورۃ الاحزاب،آیت:32)

   اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”آیت کے اس حصے میں ازواجِ مُطَہّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو ایک ادب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی اوررسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کی رضا کی مخالفت کرنے سے ڈرتی ہو تو جب کسی ضرورت کی بنا پر غیر مرد سے پسِ پردہ گفتگو کرنی پڑ جائے تواس وقت ایسا انداز اختیار کرو جس سے لہجہ میں نزاکت نہ آنے پائے اور بات میں نرمی نہ ہو بلکہ انتہائی سادگی سے بات کی جائے اور اگر دین و اسلام کی اور نیکی کی تعلیم اور وعظ و نصیحت کی بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو بھی نرم اور نازک لہجے میں نہ ہو۔

   علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن امت کی مائیں ہیں اور کوئی شخص اپنی ماں کے بارے میں بری اور شہوانی سوچ رکھنے کا تصور تک نہیں  کر سکتا، اس کے باوجود ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا گیا تاکہ جو لوگ منافق ہیں وہ کوئی لالچ نہ کر سکیں کیونکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا جس کی بنا پر ان کی طرف سے کسی برے لالچ کا اندیشہ تھا ا س لئے نرم لہجہ اپنانے سے منع کر کے یہ ذریعہ ہی بند کردیا گیا۔“اس سے واضح ہوا کہ جب ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کیلئے یہ حکم ہے تو بقیہ کیلئے یہ حکم کس قدر زیادہ ہوگا کہ دوسروں  کیلئے تو فتنوں  کے مَواقع اور زیادہ ہیں ۔

   اس آیت سے معلوم ہو اکہ اپنی عفت اور پارسائی کی حفاظت کرنے والی خواتین کی شان کے لائق یہی ہے کہ جب انہیں  کسی ضرورت، مجبوری اور حاجت کی وجہ سے کسی غیر مرد کے ساتھ بات کرنی پڑ جائے تو ان کے لہجے میں نزاکت نہ ہو اور آواز میں بھی نرمی اور لچک نہ ہو بلکہ ان کے لہجے میں اَجنبیت ہو اور آواز میں بیگانگی ظاہر ہو، تاکہ سامنے والا کوئی بُرا لالچ نہ کر سکے اور اس کے دل میں شہوت پیدا نہ ہو اورجب سیّد المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زیرِ سایہ زندگی گزارنے والی امت کی ماؤں اور عفت و عصمت کی سب سے زیادہ محافظ مقدس خواتین کو یہ حکم ہے کہ  وہ نازک لہجے اور نرم انداز سے بات نہ کریں  تاکہ شہوت پرستوں کو لالچ کا کوئی موقع نہ ملے تو دیگر عورتوں  کے لئے جو حکم ہو گااس کا اندازہ ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ لگا سکتا ہے۔ “(تفسیرصراط الجنان ،جلد 8، صفحہ16۔17، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   صحیح بخاری شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں قریبی نامحرم  سے پردے کی تاکید کچھ یوں مذکور ہے:”و النظم للاول ”عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال " إياكم والدخول على النساء" فقال رجل من الأنصار يا رسول الله أفرأيت الحمو ؟ قال  "الحمو الموت"۔“ یعنی حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ انصار میں سے ایک شخص  نے عرض کی: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم دیور کے متعلق ارشاد فرمایئے تو فرمایا :دیور تو موت ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل الخ، جلد 05، صفحہ2005، دار ابن كثير، بيروت)

   مذکورہ بالا حدیث کے متعلق مراۃ المناجیح میں ہے:”یعنی بھاوج کا دیور سے بے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ہلاکت ہے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حمو سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے جیسے خاوند کا چچا ماموں پھوپھا وغیرہ ۔ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی بھانجی وغیرہ سب کا یہ ہی حکم ہے۔خیال رہے کہ دیور کو موت اس لیے فرمایا کہ عادتًا بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے دل لگی،مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق دل لگی کسی قدر فتنہ کا باعث ہے۔ اب بھی زیادہ فتنے دیور بھاوج اورسالی بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔(مرآۃ المناجیح، جلد05، صفحہ 14، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،  لاہور)

   اجنبی کے مقابلے میں نامحرم رشتہ داروں سے پردے کی تاکید بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے  ہیں:”جیٹھ، دیور، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد پھپی زاد ، خالہ زاد بھائی سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کاضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃً میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتاہے۔ لہٰذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: الحموا الموت، رواہ الحمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالی عنہ جیٹھ دیور تو موت ہیں۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 22، صفحہ 217، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

   عورت کو مرد کے ساتھ بقدرِضرورت گفتگو کی اجازت ہے،نہ کہ بے تکلفی کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کی ۔چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”نجيز الكلام مع النّساء للأجانب ومحاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم  ومن ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ“ ترجمہ:ہم وقت ضرورت اجنبی عورتوں سے کلام کوجائز سمجھتے ہیں،البتہ یہ جائز قرار نہیں دیتےکہ وہ اپنی آوازیں بلندکریں، گفتگو کو بڑھائیں، نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں،کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کوابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔(رد المحتار علی الدرالمختار، جلد 2 ،صفحہ،97،مطبوعہ کوئٹہ )

   اندیشہ فتنہ وخلوت نہ ہونے کی صورت میں نامحرم رشتہ دارسے بضرورت بات کرنے کی اجازت سے متعلق اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(عورت)تمام محارم اور حاجت ہو اور اندیشہ فتنہ نہ ہو، نہ خلوت ہو تو پردہ کے اندر سے بعض نامحرم سے بھی(گفتگو کر سکتی ہے )۔(فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ243، رضا فاؤنڈیشن،لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم