مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9193
تاریخ اجراء:26 جمادی الاولی1446ھ/29 نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ بیٹے کو سات سال کی عمر میں نماز،روزے کا حکم دینا چاہیے،تو سوال یہ ہے کہ بیٹی کو بھی سات سال کی عمر میں نماز، روزے کا حکم دینا چاہیے یابیٹی کے لیے شریعت نے کوئی الگ عمر بیان کی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی اعتبار سےبیٹے اور بیٹی دونوں کا حکم ایک ہے کہ جس کی عمر سات سال مکمل ہوجائے اور آٹھواں سال شروع ہوجائے،تو اس کے ولی(جیسے والد وغیرہ)پرلازم ہے کہ اسے نماز،روزہ کا حکم دیں۔
حدیث مبارک میں جہاں بچوں کو نماز کا حکم دیا گیا،تو وہاں لفظ”اَوْلاد“ ہے،اور”اَوْلاد“ کا لفظ بیٹوں،بیٹیوں دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
سنن ابوداؤد کی حدیث مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مُرُوْا اَولادکم بالصلوٰۃ وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر“ ترجمہ:اپنے بچوں کو نمازکاحکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں مارکر نماز پڑھنے کا حکم دو۔(سنن ابی داؤد، جلد1، صفحہ133، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ، بیروت)
مذكوره حديث کی شرح میں علامہ ابن رُسلان شہاب الدین مقدسی رملی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ(سالِ وفات:844ھ /1440ء)لکھتے ہیں:”اولادکم“ یشمل الذكور والإناث“یعنی”اولادکم“ مذکر ومؤنث یعنی بیٹے اور بیٹیوں دونوں کو شامل ہوتا ہے۔(شرح سنن ابی داود لابن رُسلان، جلد3، صفحہ363، مطبوعہ دار الفلاح للبحث العلمی، مصر)
علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں:’’تؤمر بها الأولاد إذا وصلوا فی السن لسبع سنين وتضرب عليها لعشر بيد لا بخشبة۔۔۔ ولا يزيد على ثلاث ضربا“ ترجمہ: جب بچےسات سال کی عمر کے ہوجائیں،تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے اور دس سال کی عمر میں(نماز نہ پڑھنے پر)پر ہاتھ سےمارا جائے، لکڑی سے نہیں، اور تین مرتبہ سے زیادہ نہ مارا جائے۔
’’تؤمر بها الأولاد “ کے تحت علامہ طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1231ھ/ 1815ء)لکھتے ہیں:’’ذكورا وإناثا والصوم كالصلاة كما فی صوم القهستانی“ یعنی سات سال کی عمر میں بیٹے اور بیٹی دونوں کو نماز پڑھنے کا حکم د یا جائے گا اور روزہ کا حکم بھی نماز کی طرح ہے(یعنی جس طرح سات سال کی عمر میں بیٹے اور بیٹی کو نماز کا حکم دیا جائے گا، اسی طرح سات سال کی عمر میں ان دونوں کو روزے کا حکم دیا جائے گا) جیساکہ ’’قہستانی“کی’’کتاب الصوم“ میں ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ173، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
فتاوی رضویہ میں ہے:’’بچّہ جیسے آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد10،صفحہ345، رضافاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم
عورت کو روزہ کی حالت میں حیض یا نفاس آجائے تو کیا وہ کھا پی سکتی ہے ؟
کانچ کی چوڑیاں پہننا
محرم کے بغیر عمرے پر جانا
وضو کے بعد ناخن پالش لگانے اور آرٹیفیشل جیولری پہن کر نماز پڑھنے کا حکم
میک اَپ والے اسٹیکرز لگے ہوں تو وضو غسل کا حکم
اسلامی بہنیں سرکا مسح کیسے کریں؟
دودھ پلانے والی ماؤں کیلئے رمضان کے روزے کا حکم