Bacha Paida hone Ke Baad Nifas Na Aaye Tou Namaz Aur Jima ka Hukum

بچہ پیدا ہونے کے بعد نفاس نہ آئے تو  نماز و جماع وغیرہ کے متعلق احکام

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3059

تاریخ اجراء:04ربیع الاول1446ھ/07ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بچہ ہونے کے بعد نفاس نہ آئے ،تو ہمبستری کرنا اور نمازو قرآن شریف پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صحیح قول کے مطابق جب عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد بالکل خون نہ آئے ،تب بھی وہ حکماً نفاس والی شمار ہوگی اور اس پر بھی غسل کرنا لازم ہوگا۔لہٰذا پوچھی گئی صورت میں  جبکہ عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد بالکل خون نہیں آیا ،تو اس پر لازم ہے کہ  غسل کرکےنمازیں شروع کردے اور غسل کرکے تلاوتِ قرآن وغیرہ بھی کرسکتی ہے۔ البتہ ہمبستری کرنے کے حکم کی مختلف صورتیں ہیں:

   (1)اگر یہ پہلی ولادت ہو ،یا اس سے پہلے بھی ولادت ہوچکی ہو اور اس وقت بھی اسی طرح بالکل نفاس کا خون نہ آیا ہو،تو اس صورت میں ہمبستری حلال ہونے کے لیے دو چیزوں میں سے ایک کا پایا جانا ضروری ہے:

   (الف)یا تو عورت غسل کرلے (اور اگربیماری یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے غسل ممکن نہیں، تو تیمم کر کے نماز پڑھ لے،یعنی تیمم والی صورت میں تیمم کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری ہے۔)

   (ب)اوراگر عورت غسل نہ کرے، تو اتنا ہو کہ اس پر کوئی فرض نمازقضاہوجائے یعنی  کسی فرض نماز کا آخری وقت میں سے اتنا وقت مل جائے کہ  جس میں کم از کم نہا کر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھ کر ”اللہ اکبر“ کہہ سکتی تھی (یعنی اگر ایسا ہو گیا، تو اس کے بعد غسل کے بغیر بھی شوہر صحبت کر سکتا ہے) اور اگر تب نماز کا وقت اس سے کم تھا (یعنی اتنا وقت  نہیں تھا کہ غسل کر کے ”اللہ اکبر“ کہہ لیتی)، تو ایسی صور ت میں جب اگلی نماز کا وقت ختم ہوجائے یا غسل کرلے ،تو اس کے بعد شوہر صحبت کر سکتا ہے۔

  (2)اگر پہلے بھی کسی بچے کی ولادت ہوچکی تھی ،لیکن پچھلی مرتبہ کچھ دن خون آیا تھا اور اِس بار بالکل نہیں آیا ،تو جب تک پچھلی عادت پوری نہ ہوجائے ،ہمبستری کرنا ،جائز نہیں اگرچہ غسل بھی کرلے(یعنی اس دوران وہ نمازیں تو پڑھے گی ،لیکن ہمبستری کی اجازت نہیں)۔

   چنانچہ پیدائش کے بعد خون نہ آنے کی صورت میں بھی عورت کے نفاس والی ہونے کے متعلق در مختار میں ہے”فلو لم تره هل تكون نفساء؟ المعتمد نعم ترجمہ:اگر (بچے کی پیدائش کے بعد)عورت نے خون نہ دیکھا ،تو کیا وہ نفاس والی ہوگی ،تو معتمد قول کے مطابق وہ نفاس والی ہی ہوگی۔

   در مختار کی مذکورہ عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے: ”وعليه فيعمم في الدم، فيقال دم حقيقة أو حكما“ترجمہ:اس بنیاد پر خون میں عمومیت رکھی جائے گی اور کہا جائے گا کہ چاہے خون حقیقتاً ہو یا حکماً(بہر صورت وہ نفاس والی کہلائے گی)۔ (رد المحتار علی الدرالمختار،ج 1،ص  299 ، دارالفکر ،بیروت)

   حیض ونفاس والی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی تفصیل کے بارے میں بحر الرائق میں ہے”اعلم أن هذه المسألة على ثلاثة أوجه؛ لأن الدم إما ينقطع لتمام العشرة أو دونها لتمام العادة أو دونهما ففيما إذا انقطع لتمام العشرة يحل وطؤها بمجرد الانقطاع ويستحب له أن لا يطأها حتى تغتسل، وفيما إذا انقطع لما دون العشرة دون عادتها لا يقربها وإن اغتسلت ما لم تمض عادتها، وفيما إذا انقطع للأقل لتمام عادتها إن اغتسلت أو مضى عليها وقت صلاة حل وإلا لا وكذا النفاس إذا انقطع لما دون الأربعين لتمام عادتها، فإن اغتسلت أو مضى الوقت حل وإلا لا“ترجمہ:جان لو کہ اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں،وہ اس طرح کہ خون یا تو (حیض کے)دس دنوں کے پورے ہونےپر ختم ہوگا یا عادت کے دن پورے ہونے کے بعداور دس دنوں سے پہلے ختم ہوگا یا دس دنوں اور عادت کے دنوں ،دونوں سے پہلے ختم ہوگا۔(پہلی صورت یہ کہ)اگر خون دس دن پورے ہونے پر ختم ہوا ،تو خون ختم ہوتے ہی (بغیر غسل کیے)وطی کرنا حلال ہے اگرچہ غسل کرکے وطی کرنا مستحب ہے ۔( دوسری صورت یہ کہ)جب خون دس دن اور عادت کے دنوں (دونوں )سے پہلے ختم ہوجائے ،تو جب تک عادت کے دن پورے نہ ہوجائیں اگرچہ وہ غسل کرلے ،تب بھی اس سے قربت نہیں کرسکتا ۔(اور تیسری صورت یہ کہ)خون دس دن سے پہلے لیکن عادت کے دن پورے ہونے پر ختم ہوا،تو اس صورت میں اگر عورت نے غسل کرلیا یا اُس پر نماز کا وقت گزر گیا ،تو وطی جائز ہے ،اس سے پہلے نہیں۔ اور یہی حکم نفاس کا ہے کہ اگر خون چالیس دن سے پہلے،لیکن عادت کے دن پورے ہونے کے بعد ختم ہوا ،تو غسل کرنے یا نماز کا وقت گزرجانے کی صورت میں وطی حلال ہے ،اس سے پہلے نہیں۔(البحر الرائق،کتاب الطھارۃ،ج 1 ،ص 213 ، دارالکتاب الاسلامی)

   فتاوی رضویہ میں ہے”جو حیض اپنی پُوری مدّت یعنی دس دن کامل سے کم میں ختم ہوجائے اس میں دوصورتیں ہیں یاتو عورت کی عادت سے بھی کم میں ختم ہوا یعنی اس سے پہلے مہینے میں جتنے دنوں آ یا تھا اُتنے دن بھی ابھی نہ گزرے اور خُون بند ہوگیا، جب تو اس سے صحبت ابھی جائز نہیں اگرچہ نہالے اور اگر عادت سے کم نہیں مثلاً پہلے مہینے سات دن آ یا تھا، اب بھی سات  یا آٹھ روز آکر ختم ہُوا  یا یہ پہلا ہی حیض ہے جو اس عورت کو آ یا اور دس دن سے کم میں ختم ہوا ،تو اُس سے صحبت جائز ہونے کےلئے دو باتوں سے ایک  بات ضرور ہے  ،یا تو عورت نہالے اور اگر بوجہ مرض  یا پانی نہ ہونے کے تیمم کرنا ہو تو تیمم کرکے نماز بھی پڑھ لے خالی تیمم کافی نہیں  یا طہارت نہ کرے تو اتنا ہوکہ اس پر کوئی نمازِفرض فرض ہوجائے یعنی نماز پنجگانہ سے کسی نماز کا وقت گزر جائے جس میں کم سے کم اس نے اتنا وقت پا یا ہو جس میں نہاکر سر سے پاؤں تک ایک  چادر اوڑھ کر تکبیر تحریمہ کہہ سکتی تھی ،اس صورت میں بے طہارت کے بھی اُس سے صحبت جائز ہوجائے گی ورنہ نہیں۔“(فتاوی رضویہ ،ج 4 ،ص 352 ، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم