Auraton Ka Upper Lips Banwane Ka Hukum

خواتین کے لیے Upper  Lips(ہونٹوں کے اوپر کے بال) بنانے کاحکم

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3136

تاریخ اجراء:26ربیع الاوّل1446ھ/01اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا  خواتین کے لیے اپر لِپس بنانا جائز ہے؟یعنی لِپس کے اوپر کے بال ریموو کر سکتی(اتارسکتی)  ہیں  ، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں ! خواتین کے لیے اَپر لِپس بنانا،جائز ہے کیونکہ خواتین کے چہرے پر اگر  غیر معتاد بال مثلاً داڑھی، مونچھ (ہونٹ کے اوپر)،  پیشانی وغیرہ کے بال آ گئے ہوں، تو عام حالت میں ان  کے لئے یہ بال صاف کرنا،جائز ومباح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام اگر شوہر کے لئے زینت کی نیت سے ہوں، تو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مستحب بھی ہیں، کیونکہ عورت کو شوہر کے لئے زینت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چہرے پر بالوں کا ہونا شوہر کے لئے باعث نفرت و وحشت اور خلاف زینت ہے۔

   نوٹ :یہ بھی  یا د رہے کہ عورتوں کا   ابروبنوانا اس حکم سے مستثنیٰ ہےکہ صرف خوبصورتی و زینت کے لئے ابرو کے بال نوچنا اوراسے بنوانا،ناجائز ہے، حدیث پاک میں ابرو بنوانے والی عورت کے بارے میں لعنت آئی ہے، لہٰذا آجکل عورتوں میں ابرو بنوانے کا جو رواج  چل پڑا ہے، یہ ناجائز ہے،اس سے ان کو باز آنا چاہیے، ہاں اس میں جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ ابرو کے بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں، بھدے(برے) معلوم ہوتے ہوں توصرف ان بڑھے ہوئے بالوں کو تراش کر اتنا چھوٹا کرسکتے ہیں کہ بھدا پن دور ہوجائے۔

   صحیح مسلم میں ہے’’عن عبداللہ قال:لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ‘‘ترجمہ:حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا :اللہ تبارک و تعالی کی لعنت ہے گودنے والیوں پر اور گودوانے والیوں پر اور بال اکھیڑنےوالیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور حسن کے لئے کھڑکیاں کرانے والیوں پر جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والیاں ہیں۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث 2125،ج 3،ص 1678، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے الفاظ"بال اکھیڑنے والیاں"کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’یعنی جو عورت بھووں کےبال نوچ کر ابرو کو خوبصورت بناتی ہے اس پر لعنت (ہے)۔‘‘(بہار شریعت،ج3،حصہ 16،ص595، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   بہار شریعت میں ہے” گودنے والی اور گودوانے والی یا ریتی سے دانت ریت کر خوبصورت کرنے والی یا دوسری عورت کے دانت ریتنے والی یا موچنے (بال اکھاڑنے کے آلہ)سے ابرو کے بالوں کو نوچ کر خوبصورت بنانے والی اور جس نے دوسری کے بال نوچے ان سب پر حدیث میں لعنت آئی ہے۔‘‘(بہار شریعت،ج 3،حصہ 16،ص 596،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   رد المحتار میں ہے:’’فلو کان فی وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسببہ ففی تحریم ازالتہ بعد لأن الزینۃ للنساء مطلوبۃ للتحسین۔۔۔اذا نبت للمرأۃ لحیۃ أو شوارب فلا تحرم ازالتہ بل تستحب .و فی التتارخانیۃعن المضمرات:ولا بأس بأخذ الحاجبین و شعر وجھہ ما لم یشبہ المخنث اھ  ملخصا‘‘ترجمہ :اگر عورت کےچہرے پر بال ہوں تو اس کے سبب سے شوہر کو بیوی سے نفرت ہوگی، لہذا  ان بالوں کے دور کرنے کو حرام قرار دینے میں دوری ہے کیونکہ عورتوں کے لئے زینت ،خوبصورتی کےلئے مطلوب (طلب کی گئی) ہے،جب عورت کی داڑھی یا مونچھیں نکل آئیں تو ان کو دور کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اور تتارخانیہ میں مضمرات سے ہے:اور دونوں ابرو اور چہرے کے بال لینے (کاٹنے)میں کوئی حرج نہیں جب تک ہیجڑے سے مشابہت نہ ہو۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 6،ص 373،دار الفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’عورت کو داڑھی یا مونچھ کے بال نکل آئیں تو ان کا نوچنا جائز بلکہ مستحب ہے کہ کہیں اس کے شوہر کو اس سے نفرت نہ پیدا ہو۔(بہار شریعت،ج3،حصہ 16،ص449، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم