Kya Aurat Ko Shalwar Qameez Dupatta Underwear Seena Band Pehen Kar Namaz Parhna Zaroori Hai?

 

کیا عورت کو شلوار، قمیص، دوپٹہ، انڈرویئراور سینہ بند پہن کر نماز پڑھنا ضروری ہے؟

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3304

تاریخ اجراء: 27جمادی الاولیٰ 1446ھ/30نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا عورت کو پانچ کپڑے( شلوار، قمیص ، دوپٹہ ، انڈر ویئر،سینہ بند) پہن کر نماز پڑھنا ضروری ہے؟اگر پانچ کپڑوں سے کم میں نماز پڑھی تو کیا عورت کی  نماز نہیں ہوگی؟ رہنمائی فرما دیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز کے لیےکپڑوں کی کسی خاص تعداد کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لیے  اصل یہ ہےکہ  عورت کی نماز کے لیے جو شرعی پردہ ضروری ہے،اس کا مکمل لحاظ  کیا جائے (یعنی عورت  کو جن اعضاء کے ڈھانپنے کا حکم ہے ، ان کو قابلِ ستر  کپڑوں  سے    مکمل طور پر چھپائے )، اور نماز میں  عورت کے لیے شرعی پردہ یہ ہےکہ:

                                                                                                                       " منہ کی ٹکلی ،ہتھیلیاں اور پاؤں کے تلووں کے علاوہ  سارا بدن چھپا نا ضروری ہے،یہاں تک کہ  سر کے لٹکے ہوئے بال چھپانا بھی ضروری ہے ۔البتہ اگردونوں ہاتھ(گٹوں تک)،پاؤں(ٹخنوں سمیت) مکمل (اوپرنیچے سے)ظاہرہوں  توایک مفتی بہ قول پرنمازدرست ہے ۔

                                                                                                              اور مزید یہ کہ   جس کپڑے وغیرہ سے سترکیاجائے وہ اتنے باریک بھی نہ ہوں ،کہ جس سے جسم اور بالوں کی رنگت ظاہر ہو،ورنہ نماز نہیں ہوگی ۔لہذا اگر عورت نے پانچ  سے کم کپڑوں مثلا ً تین   سے بھی  اپنے جسم کا ستر مکمل  صحیح طریقے سے ڈھانپ لیا اور نماز کے دوران کوئی حصہ کھلا نہیں رہا، تو اس کی نماز درست   ہو جائے گی ۔

   عورت کا تمام جسم ہی ستر عورت ہے سوائے چند اعضا کے ۔چنانچہ تنوير الابصار مع در مختار میں ہے:(الرابع (ستر عورتہ وھی للرجل ماتحت سرتہ الی ماتحت رکبتہ۔۔۔ وللحرۃجمیع بدنھاحتی شعرھا النازل فی الاصح خلا الوجہ والکفین والقدمین  ملتقطاً“ ترجمہ : چوتھی شرط اس کے ستر کا چھپا ہوناہے۔اور مرد کا سترعورت ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک ہے اور آزاد عورت کا تمام جسم ہی ستر عورت ہے حتی کہ اصح قول کے مطابق  سر سے لٹکتےہوئےبال بھی ، سِوائے چہرے اور کلائیوں تک ہاتھوں اور ٹخنے سے نیچے تک پاؤں کے ۔( تنویر الابصار مع درمختار  و رد المحتار،جلد1،صفحہ 404،405،دار الفکر،بیروت)

   ردالمحتارمیں ہتھیلی کی پشت کے متعلق ہے "وفي مختلفات قاضي خان وغيرها أنه ليس بعورة، وأيده في شرح المنية بثلاثة أوجه. وقال: فكان هو الأصح وإن كان غير ظاهر الرواية، وكذا أيده في الحلية، وقال: مشى عليه في المحيط وشرح الجامع لقاضي خان. اهـ. واعتمده الشرنبلالي في الإمداد" ترجمہ:قاضی خان وغیرہ کے مختلفات میں ہے کہ وہ (ہتھیلی کی پشت) سترعورت میں شامل نہیں،اور شرح منیہ میں اس کی تین وجوہ سے تائید کی ہے،اور فرمایا:پس یہی اصح ہے اگرچہ  یہ غیر ظاہر الروایہ ہے،یونہی حلبہ میں اس کی تائید کی ہے اور فرمایا:محیط اور قاضی خان کی شرح الجامع میں اسی کو اختیار کیا ہے۔(ان کی عبارت ختم ہوئی۔)اور امداد میں شرنبلالی نے اسی پر اعتماد کیا۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 96،مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتارمیں ہے "رأيت في مقدمة المحقق ابن الهمام المسماة بزاد الفقير قال بعد تصحيح أن انكشاف ربع القدم مانع، ولو انكشف ظهر قدمها لم تفسد، وعزاه المصنف التمرتاشي في شرحها المسمى إعانة الحقير إلى الخلاصة، ثم نقل عن الخلاصة عن المحيط أن في باطن القدم روايتين، وأن الأصح أنه عورة ثم قال: أقول: فاستفيد من كلام الخلاصة أن الخلاف إنما هو في باطن القدم؛ وأما ظاهره فليس بعورة بلا خلاف ولهذا جزم المصنف بعدم الفساد بانكشافه، لكن في كلام العلامة قاسم إشارة إلى أن الخلاف ثابت فيه أيضا"ترجمہ:میں نے محقق ابن ہمام کے مقدمہ  زاد الفقیر میں دیکھا،انہوں نے تصحیح کے بعد فرمایا:قدم کے چوتھائی حصے کا کھلنا صحت نماز سے مانع ہے،اور اگر عورت کے قدم کی پشت ظاہر ہوئی تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی،اور مصنف تمرتاشی نے زاد الفقیر کی شرح بنام اعانۃ الحقیر میں اس مسئلہ کو خلاصہ کی طرف منسوب کیا،پھر خلاصہ سے بحوالہ محیط نقل کیا کہ قدم کے نچلے حصے کے متعلق دو روایتیں ہیں، اور اصح یہ ہے کہ وہ سترِ عورت میں شامل ہے،پھر فرمایا:میں کہتا ہوں:خلاصہ کے کلام سے مستفاد ہوتا ہے کہ اختلاف، قدم کے نچلے حصے کے متعلق ہے،بہرحال قدم کی پشت تو وہ بغیر اختلاف سترِ عورت  میں شامل نہیں،اسی لئے اس کے ظاہر ہونے کی صورت میں مصنف نے نماز فاسد نہ ہونے پر جزم کیا ہے،لیکن علامہ قاسم کے کلام میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں بھی اختلاف ثابت ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 96،مطبوعہ :کوئٹہ)

   نماز کے احکام میں ہے”عورت کے لئے ان پانچ اعضاء :منہ کی ٹکلی،دونوں ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں کے تلووں کے علاوہ سارا جسم چھپانا لازمی ہے،البتہ اگر دونوں ہاتھ (گٹوں تک)،پاؤں(ٹخنوں تک) مکمل ظاہر ہوں تو ایک مفتی بہ قول پر نماز درست ہے۔(نماز کے احکام،ص 193،194،مکتبۃ المدینہ)

   فتاوی ہندیہ  میں ہے:’’والثوب الرقیق الذی یصف ما تحتہ لا تجوز الصلاۃ فیہ کذا فی التبیین‘‘ ترجمہ: اتنا باریک کپڑا جس کے نیچے جسم ظاہر ہو اس میں نماز جائز نہیں ہے، اسی طرح تبیین میں ہے۔(فتاوی ھندیۃ ، جلد 1 ،صفحہ 58، دار الفکر، بیروت)

    بہار شریعت  میں ہے :’’اتنا باریک دوپٹا، جس سے بال کی سیاہی چمکے، عورت نے اوڑھ کر نماز پڑھی، نہ ہوگی، جب تک اس پر کوئی ایسی چیز نہ اوڑھے، جس سے بال وغیرہ کا رنگ چھپ جائے۔“(بہار شریعت ،جلد01،حصہ 03،صفحہ 481،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم