Aurat Ke Sajde Ka Tariqa

عورتوں کے سجدہ کرنے کا طریقہ

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-321

تاریخ اجراء: 21شعبان المعظم1443ھ/25مارچ2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ زید کا کہنا ہے کہ  نماز میں عورتیں بھی مردوں کی طرح سجدہ کریں گی ، کیونکہ حدیثِ پاک میں سجدے میں اعتدال کا حکم دیا گیا اور  کتے کے بیٹھنے کی طرح کلائیاں بچھانے سے منع کیا گیا ہے ، کیا زید کا کہنا درست ہے ؟ اور عورتوں کے سجدہ کرنے کا درست طریقہ کیا ہے ؟ براہِ کرم تفصیل سے بیان فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     عورتوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ خوب سمٹ کر سجدہ کریں ،یعنی بازو کروٹوں سے ملا دیں اورپیٹ ران سے  اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمیں سے ملا دیں ۔احادیثِ طیبہ  میں عورتوں کو اسی طرح سجدہ کرنے کی تعلیم فرمائی گئی ہے۔اورچاروں فقہی مذاہب یعنی حنفی ، مالکی، شافعی اور حنبلی سب اس پر متفق ہیں کہ عورت جتنا ہو سکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔زید کا کہنا درست نہیں ، کیونکہ جس حدیثِ پاک کی طرف زید نے اشارہ کیا وہ مَردوں کے لیے ہے ، عورتوں کے لیے نہیں ۔

     چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم وسننِ اربعہ کی حدیث پاک ہے(واللفظ للبخاری):’’ عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعتدلوا في السجود ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب‘‘ ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سےکوئی ایک (سجدے میں)اپنی کلائیاں کتے کے طرح نہ بچھائے۔ (صحیح البخاری، جلد 01، صفحہ 164، دار طوق النجاۃ، بیروت)

     اس حدیثِ پاک کے تحت  امام علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود  کاسانی حنفی علیہ الرحمۃ (المتوفی :587ھ)بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:’’وهذا في حق الرجل فأما المرأة فينبغي أن تفترش ذراعيها وتنخفض ولا تنتصب كانتصاب الرجل وتلزق بطنها بفخذيها لأن ذلك أستر لها ‘‘یعنی : یہ حکم مردوں کےلیے ہے بہر حال عورت کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنی کلائیاں بچھا کر رکھے اور پست ہو اور مردوں کی طرح  اونچی نہ ہو اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس  میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ (بدائع الصنائع ، جلد 01، صفحہ 210، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

     فیض القدیرشرح جامع الصغیر  میں اس حدیث پاک کے تحت  ہے :’’ أما الأنثى فيسن لها الضم لأنه أستر لها ‘‘یعنی : (یہ حکم مردوں کے لیے ہے ) بہر حال عورتیں تو ان کے لیےسمٹ کر سجدہ کرنا سنت ہے  کیونکہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ (فیض القدیر،جلد01،صفحہ553،مطبوعہ مصر ،بیروت)

     محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :’’یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بازو زمین پر رکھیں اور اپنے پہلوؤں کو اس کے ساتھ ملا دیں کہ یہ ہیئت عورت کے پردہ کے لیے زیادہ بہتر اور قریب ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات(مترجم)، جلد02، صفحہ 243، فرید بک اسٹال ، لاھور)

     مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’یہ حکم مردوں کے لیے ہے عور ت کہنیاں بچھائے گی اور بازو پسلیوں سے ملائے رکھے گی کیونکہ اس میں ستر زیادہ ہے۔‘‘(مرأۃ المناجیح ، جلد 02، صفحہ80، نعیمی کتب خانہ ، گجرات)

     احادیث و آثار میں عورتوں کو سمٹ کر سجدہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے:

     چنانچہ امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی (المتوفی:275ھ)روایت نقل کرتے:’’ عن يزيد بن أبي حبيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على امرأتين تصليان فقال: «إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل» ‘‘ ترجمہ:حضرت یزید بن ابو حبیب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نمازپڑھ رہی تھیں تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جب تم سجدہ کرو تو جسم کے بعض حصے کو زمین کے ساتھ ملا دو کیونکہ سجدے کی حالت میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔(مراسیل ابی داؤد ، جلد01،صفحہ117، مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت)

     سنن کبری للبیہقی میں صحابی رسول ،  حضرت سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، وہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ:’’ أنه قال: خير صفوف الرجال الأول، وخير صفوف النساء الصف الآخروكان  يأمر الرجال أن يتجافوا في سجودهم، ويأمر النساء ينخفضن في سجودهن‘‘ ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور عورتوں کے لیے سب سے بہتر صف آخری صف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیتے کہ وہ سجدے میں اپنی رانوں کو پیٹ سے جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں ۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 02، صفحہ 314،دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

     اسی کتاب میں حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہےوہ فرماتے ہیں :’’ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى، وإذا سجدت ألصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها، وإن الله تعالى ينظر إليها ويقول: يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها‘‘ ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران کو دوسری ران پر رکھے اور جب سجد ہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا دے جو اس کے لیے زیادہ ستر ہے، اور اللہ تعالی اس کی طرف نظر کرتے ہوئےفرماتا ہے : اے میرے ملائکہ میں تمھیں گواہ کرتا ہوں کہ بے شک میں نے اس کی بخشش فرما دی ہے ۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 02، صفحہ 315،دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

     مصنف عبد الرزاق میں حضرت مولا علی و حسن و قتادہ و ابراہیم و عطاء رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے (واللفظ لعطاء):’’ فإذا سجدت فلتضم يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت ‘‘ یعنی: جب عورت سجدہ کرے تو اپنےبازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے اور اپنے پیٹ اور سینے کو اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے اور جتنا ہو سکے سمٹ جائے ۔ (مصنف عبد الرزاق، جلد03، صفحہ 137،مطبوعہ بیروت)

     مذاہبِ اربعہ(حنفی  ، مالکی، شافعی، حنبلی) میں عورت کے لیے یہی حکم ہے ، چنانچہ؛

     فقہِ حنفی کے مطابق:

     بدایۃ المبتدی،کنز الدقائق ،غرر الاحکام ،ملتقی الابحر،تنویر الابصار و در مختار، بدائع الصنائع ، اللباب فی شرح الکتاب اورہدایہ میں ہے(واللفظ للھدایہ):’’ والمرأة تنخفض في سجودها وتلزق بطنها بفخذيها لأن ذلك استر لها ‘‘ یعنی: عورت سجدے میں سمٹ جائے گی اور اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے گی کیونکہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ (الھدایہ، جلد01 ، صفحہ52،دار احیاءالتراث، بیروت )

     فقہِ مالکی کے مطابق:

     الرسالہ للقیروانی ،التاج والاکلیل لمختصر خلیل،شرح مختصر خلیل للخرشی،شرح ابن ناجی ،شرح زروق ،الفواکہ الدوانی،حاشیۃ العدوی، حاشیۃ الدسوقی اورمنح الجلیل میں ہے (واللفظ للاول):’’ أنها تنضم ولا تفرج فخذيها ولا عضديها وتكون منضمة منزوية في جلوسها وسجودها وأمرها كله ‘‘یعنی : عورت اپنے آپ کو سمیٹ لے گی ، اپنی رانوں اور بازوؤں کو نہیں پھیلائے گی اور اپنی نماز کے قعدے و سجدے اورنماز کے تمام امور میں خوب سمٹ کر رہے گی۔(الرسالہ للقیروانی، جلد01، صفحہ 34، دار الفکر ، بیروت)

     فقہِ شافعی کے مطابق:

     کتاب الاُم، مختصر المزی، الحاوی الکبیر،التنبہ فی الفقہ الشافعی،نہایۃ المطلب فی درایۃ المذہب، متن ابی شجاع،المجموع شرح المہذب، روضۃ الطالبین،کفایۃ الاخیار،المقدمۃ الحضرمیۃ  وغیرہ میں ہے (واللفظ للاول):’’وقد أدب الله تعالى النساء بالاستتار وأدبهن بذلك رسوله - صلى الله عليه وسلم - وأحب للمرأة في السجود أن تضم بعضها إلى بعض وتلصق بطنها بفخذيها وتسجد كأستر ما يكون لها وهكذا أحب لها في الركوع والجلوس وجميع الصلاة أن تكون فيها كأستر ما يكون لها ‘‘یعنی :اللہ تبارک وتعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور عورتوں کے لیے سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ وہ(سجدے میں) اپنے جسم کے بعض حصے کو بعض کے ساتھ ملا دیں اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائیں اور جو سب سے زیادہ پردے کی کیفیت ہے  اس کے مطابق سجدہ کریں، عورتوں کے لیے رکوع اور جلوس اور پوری نماز میں یہی پسندیدہ ہے کہ جس حالت میں زیادہ پردے کا اہتمام ہوتا ہے اسے اپنائیں ۔ (کتاب الاُم، جلد 01، صفحہ 138، دار المعرفہ ، بیروت)

     فقہِ حنبلی کے مطابق:

     الاقناع،مختصر الخرقی، المغنی لابن قدامۃ،متن المقنع،الانصاف فی معرفۃ الراجح، ،غایۃ المنتہی،الشرح الکبیر،الممتع فی شرح المقنع،  وغیرہ میں ہے(واللفظ للاقناع) :’’ أنها تجمع نفسها في الركوع والسجود وجميع أحوال الصلاة ‘‘ ترجمہ : عورت اپنے آپ کو رکوع و سجود اور نماز کے تمام احوال میں سمیٹ کر رکھے گی ۔(الاقناع فی فقہ امام احمد بن حنبل ، جلد 01، صفحہ 125، دار المعرفۃ ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم