Jis Aurat Ka Koi Mehram Na Ho Uska Bagair Mehram Umrah Karna Kaisa

 

جس عورت کا کوئی محرم نہ ہو تو کیا وہ بغیر محرم عمرہ کرنے جا سکتی ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0452

تاریخ اجراء: 04 جمادی الاولیٰ  1446ھ/07نومبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک طلاق یافتہ خاتون ہیں،جن کی طلاق کی عدت گزرچکی ہے ،ان کا بھائی، والد  کوئی بھی نہیں ہے، نہ ہی کسی قسم کا دوسرا کوئی مَحرم ہے ،صرف ان کی والدہ ہیں،وہ اپنی والدہ اور کزن وغیرہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے جاسکتی ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اس طلاق یافتہ خاتون کے لیے والدہ اور کزن وغیرہ کے ساتھ عُمرے پرجانا ،جائز نہیں ، کیونکہ حکم شرعی یہ ہے کہ جب عورت کوحج و عمرہ یا کسی اور کام کے لیے تین دن کی راہ (یعنی 92 کلو میٹر) یا اس سے زائد  کا سفر کرنا  ہو، تو اس کے ساتھ شوہر یا محرم کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر  یہ سفر ناجائز و گناہ ہے،اگر سفر کرے گی ،تو قدم قدم پر اس کے لیے گناہ لکھا جائے گا، لہٰذا  اس خاتون کو چاہیے  کہ جب اس  کا شوہر یا مَحرم نہیں، توشریعت مطہرہ کی پیروی کی خاطر اس ارادے کو ترک کر دے اور یہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھیں کہ حج وعمرہ کا مقصود اللہ کریم کی رضا و ثواب کا حصول ہوتا ہے، جو اسی وقت پورا ہوسکتا ہے، جبکہ یہ  شریعت مطہرہ کے احکامات کی رعایت کے ساتھ ہو،ورنہ نہیں ۔

   سنن ترمذی شریف میں ہے:” عن أبي سعيد الخدری، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها، أو أخوها، أو زوجها، أو ابنها، أو ذو محرم منها“ ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو ،اس کے لیے تین دن یا اس سے زائد کا سفر کرنا حلال نہیں، مگر اسی صورت میں جبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بھائی یا شوہر یا بیٹا یا کوئی بھی محرم ہو ۔(سنن الترمذی ،باب ما جاء فی کراھیۃ ان تسافر المراۃ وحدھا ،ج03،ص 464،مطبعة مصطفى البابي الحلبي ، مصر)

   اسی طرح بخاری و مسلم شریف میں ہے ،بالفاظ متقاربۃ :”ولا تسافرن امرأة إلا ومعها محرم، فقام رجل فقال: يا رسول اللہ،اكتتبت   في غزوة كذ ا وكذا، وخرجت  امرأتي  حاجة، قال:  اذهب  فحج  مع     امرأتك‘‘ترجمہ:اورہرگزکوئی عورت بغیرمحرم کے سفرنہ کرے،اس پرایک شخص کھڑاہوکرعرض گزارہواکہ یا رسول اللہ !میرانام فلاں فلاں غزوے میں لکھاگیاہے اورمیری عورت حج کے ارادے سے نکلی ہے ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم جاؤاوراپنی عورت کے ساتھ حج کرو۔(صحیح البخاری، ج04،ص59،دارطوق النجاۃ) (صحیح المسلم، ج02،ص978،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

   علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں :”وفيه: أن النساء كلهن سواء في منع المرأة عن السفر، إلا مع ذی محرم۔۔وقوله صلى اللہ عليه وسلم: (لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم) عام في كل سفر، فيدخل فيه الحج“ترجمہ: اور اس حدیث سے   یہ بات  ثابت ہے کہ محرم کے بغیر سفر  کرنے کی ممانعت میں سب عورتیں برابر ہیں ۔۔۔  اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ    عورت بغیر محرم کے  سفر نہ کرے  ،ہر  سفر  کو  شامل ہے،  تو اس میں حج بھی داخل ہے ۔      (عمدۃ القاری ،ج10،ص 222، دار إحياء التراث العربي ،بيروت)

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ رسالہ انوار البشارۃ  میں لکھتے ہیں :”عورت کے ساتھ جب تک شوہر یا محرم بالغ قابل اطمینان نہ ہو جس سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے ،سفر حرام ہے ،اگر کرے گی ،تو حج ہوجائے گا ،مگر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔“(فتاوٰی رضویہ ،رسالہ انوار البشارۃ،ج10،ص 726،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی طرح اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے عورت کے بغیر محرم سفرِ حرمین طیبین کرنے کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا :”عورت اگرچہ عفیفہ یا ضعیفہ ہو اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا حرام ہے ۔۔ اگر چلی جائے گی، تو گنہگار ہوگی، ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔“(فتاوٰی رضویہ ،ج10،ص 706،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو، تو اُس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑھیا ۔“ (بھارِ شریعت، ج 1، ص 1044، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم