Aurat Ka Makhsoos Ayam Mein Qaida Chuna Kaisa ?

عورت کا مخصوص ایام میں قاعدہ کو چھونا کیسا ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2188

تاریخ اجراء: 29ربیع ا الثانی1445 ھ/14نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا عورت شرعی عذر(حیض و نفاس)کی حالت میں قاعدے کو ہاتھ لگاسکتی ہے یا نہیں؟اور معلمہ کا  شرعی عذر کی حالت میں قاعدے کا سبق پڑھانا،اور طالبات کا شرعی عذر کی حالت میں سبق پڑھنا کیسا ہے؟شرعی رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کو  شرعی عذر یعنی حیض و نفاس کی حالت میں قاعدے کو بلا حائل ہاتھ لگانا،شرعاً جائز ہے کہ قاعدے جو ہمارے یہاں رائج ہیں،قرآن نہیں ہیں اور نہ  ہی اُنہیں قرآن کہا جاتا ہے،بلکہ در اصل یہ قاعدے  تجوید و  قواعد  پر مشتمل    ایک کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں، جسے قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے، ابتداءً بطور مشق کے  پڑھایا جاتا ہے۔البتہ قاعدے کے بعض آخری  اسباق ، چھوٹی آیتوں پر  مشتمل ہوتے ہیں،اور بعض اسباق میں سورتیں بھی درج ہوتی ہیں،لہذا عورت کیلئے قاعدے کو ناپاکی کی حالت میں بلا حائل ہاتھ لگانا، مکروہ  تنزیہی یعنی ناپسندیدہ عمل ہےاور اگر کپڑے وغیرہ کسی حائل سے، اگرچہ وہ اپنے تابِع ہی کیوں نہ ہو جیسے آستین کے کنارے،دوپٹہ کے آنچل یا پہنےہوئے  دستانوں  وغیرہ سے چھوئے، تو مکروہ بھی نہیں ہے۔ یادرہے ! قاعدے کے جن اسباق میں سورتیں یا چھوٹی چھوٹی آیتیں لکھی ہوں  تو شرعاًعورت کیلئے ناپاکی کی حالت میں  اُس جگہ پر  اور عین اس کے پیچھے والی جگہ  پر   ہاتھ لگانا،  ہرگز جائز نہیں ۔

   نیزمعلمہ کیلئے حیض ونفاس کی حالت میں قاعدہ پڑھانا،اور طالبات کا اس حالت میں قاعدہ پڑھنا،شرعاً جائز ہے، چاہے اس کا پڑھنا،پڑھانا ہجے کے طور پر ہو یا پھر رواں،بہرصورت اس میں کوئی حرج نہیں۔البتہ جن اسباق میں سورتیں  اور آیتیں درج ہوں،تو معلّمہ کیلئےاُسے ایک مخصوص طریقے  سے پڑھانے کی اجازت ہے ۔مخصوص  طریقے سے مراد یہ ہے کہ معلّمہ دو کلمے ایک سانس میں ادا نہ کرے، بلکہ ایک کلمہ پڑھا کر سانس توڑ دے پھر دوسرا کلمہ  پڑھائے اور پڑھتے وقت یہ نیّت  کرے کہ میں قرآن  نہیں پڑھ رہی  بلکہ مثلاً یوں نیّت کرے کہ  عربی زبان کے الفاظ ادا کر رہی ہوں۔ اگر ان سورتوں اور آیتوں کو بھی ایک ایک حرف کر کے ہجے کرواکر پڑھائے تو اس میں اصلاً کوئی حرج نہیں ۔یونہی   ایک کلمے کے مختلف حروف ایک سانس میں بھی پڑھا سکتی ہے، ہاں ایک کلمے سے زیادہ ایک سانس میں پڑھانے کی اجازت نہیں۔

   قاعدہ اپنی نوعیت کے حساب سے کتبِ تفسیر ،فقہ ،حدیث کی کتابوں کی طرح ہے،جن کو فقہائے کرام نے  شرعی عذر کی حالت میں، بلا حائل ہاتھ لگانا،مکروہ قراردیاہے،لہذا قاعدے کو بھی اس حالت میں بلا حائل ہاتھ لگانا ،مکروہ ہوگا،چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:” يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن لأنها لا تخلو عن آيات القرآن   ترجمہ: (جنبی ،حیض و نفاس والی کو ) فقہ و تفسیر وحدیث کی کتب (بلا حائل )چھونا مکروہِ( تنزیہی  )ہے، کیونکہ یہ آیاتِ قرآنیہ سے خالی نہیں ہوتیں۔(ردالمحتار علی   الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ353، مطبوعہ  :کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم