Aurat Ka Ghair Mahram Ke Sath Tour Par Jana Jaiz Hai Ya Nahi ?

خاتون کا غیر محارم کے ساتھ ٹور(Tour) پر جانا

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1358

تاریخ اجراء: 25جمادی الثانی1445 ھ/08جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   خاتون اگر محرم  کے بغیر  گروپ کے ساتھ( جس میں اجنبی مرد بھی ہوں) ٹور پر جائے اور شوہر منع بھی کرے،  لیکن بامرِ مجبوری اجازت دینی پڑے، تو کیا اس سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کے لئےشرعی مسافت یعنی تین دن کی راہ(تقریباً92 کلومیٹر)کا سفر بغیر محرم/ شوہر کے کرنا ،ناجائز و گناہ ہے، بلکہ علماء خوفِ فتنہ کے پیشِ نظر احتیاطاًعورت کے لئےایک دن کی راہ(تقریباً30کلو میٹر)بھی بغیر محرم یا شوہر طے کرنے سے منع فرماتے ہیں، لہٰذا پوچھی  گئی صورت کے مطابق    عورت   کے لئے  ٹور پر  جانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے ،اگرچہ شرعی مسافت نہ بھی  ہو ،کیونکہ شرکا  میں   جب نامحرم مرد  ہوں اور آپس میں اختلاط  ہو، تو وقوعِ فتنہ میں کوئی شبہ نہیں  ہے ،     لہٰذا  اس پر شرعاً لازم ہے کہ ٹور پر جانے سے بچے  اور شوہر کی فرمانبرداری کرے،  اگر جائے گی، تو گنہگار اور عذابِ نار کی حق دار ہوگی اور اس کےلئے ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔ نیز شوہر کو بھی  اسے نامحرم مردوں کےساتھ  ٹور  پر جانے کی  اجازت دینا شرعاً جائز نہیں  ،اگر اجازت دے گا ،تو  یہ بھی  گنہگار اور عذاب نار کا حق دار  ہوگا۔ تاہم اگر چلی گئی، تو  اس سے نکاح پر  کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ 

   قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:” اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ-وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ-فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا(۳۴) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں (شوہروں کی) اطاعت کرنے والی (اور) ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور (نہ سمجھنے کی صورت میں ) ان سے اپنے بستر الگ کرلو اور (پھر نہ سمجھنے پر) انہیں مارو پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو (اب) ان پر(زیادتی کرنے کا) راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔ (القرآن، سورۃ النساء، آیت:34)

   اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’”عورت کی ضروریات، اس کی حفاظت، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر  تسلط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، ا س لئے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے ،اس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔“(تفسیر صراط الجنان، سورۃ النساء،تحت  آیت:34)

   فتاویٰ رضویہ میں ہے:”عورت اگرچہ عفیفہ ( یعنی پاکدامن ) یا ضعیفہ ( یعنی بوڑھی ) ہو ، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا ، حرام ہے ، اگر چلی جائے گی ، گنہگار ہوگی ، ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔“( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 706 ، 707 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم