Aurat Ka Cap Shawl Orh Kar Namaz Parhna Kaisa?

عورت کے لیے کیپ شال (cape shawl) اوڑھ کر نماز پڑھنا کیسا؟

مجیب:ابو تراب محمد علی عطاری

مصدق:مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7368

تاریخ اجراء:07جمادی الاخری1445ھ/21دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سردی سے بچنے کے لیے خواتین سویٹر وغیرہ کے علاوہ کیپ شال (cape shawl) بھی استعمال کرتی ہیں، کیپ شال مختلف ڈیزائن کی ہوتی ہیں: (۱) بعض میں بازو ڈالنے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے، وہ بازو ڈال کر اوڑھ لی جاتی ہے اور (۲) بعض میں بازو ڈالنے کی جگہ نہیں ہوتی، وہ ویسے ہی کندھوں پر اوڑھ لی جاتی ہے، البتہ دونوں پلوؤں کو سامنے سے ٹِچ بٹن (Tich button) یا ہُک(Hook) کے ذریعے ملا دیا جاتا ہے، تو ایسی کیپ شالز اوڑھ کر سامنے سے بند کیے بغیر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب سے قبل تمہیداً یہ مسئلہ ذہن نشین کر لیجئے کہ بعض اعمال سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، جیسے کلام کرنا، چلنا پھرنا اور بعض سے نماز مکروہ تحریمی ہو جاتی ہے۔ کراہتِ تحریمی والے اعمال میں سے ایک عمل ’’سدل کرنا‘‘ بھی ہے ، حدیث پاک میں سدل کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ فقہائے کرام سدل کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسا کپڑا جسے پہنا جاتا ہے، اسے بے پہنا لٹکا لینا، جیسے جیکٹ یا واسکٹ وغیرہ میں بازو ڈالے بغیر کندھوں پر رکھ لینا۔ یونہی  ایسا کپڑا جس میں آستینیں یا چاک نہیں ہوتے، اسے کندھوں یا سر پر ڈال کر دونوں پلوؤں کو آپس میں ملائے بغیر کندھوں پر چھوڑ دینا، جیسے چادر، شال وغیرہ اور سدل سے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو جاتی ہے۔ اس تفصیل کے مطابق سوال میں ذکر کردہ دونوں طرح کی کیپ شال (cape shawl) کے متعلق شرعی حکم درج ذیل ہے:

   (1)ایسی کیپ شال جس میں بازو ڈالنے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے، ان میں بازو ڈالے بغیر ایسے ہی کندھوں پر رکھ لینا ’’سدل‘‘ کہلائے گا اور اس طرح شال لیکر نما زپڑھنا مکروہ تحریمی و گناہ  ہے اور پڑھ لی، تو نماز  کا اعادہ واجب ہو گا۔ البتہ اگر اسے بازو ڈال کر پہن لیا، تو سدل نہ ہونے کی وجہ سے نماز درست ہو جائے گی۔ یہاں ایسی شال کو بازو ڈال کر پہن لینا کافی ہے، اس کے دونوں پلوؤں کو سامنے سے بٹن وغیرہ کے ذریعے ملانا ضروری نہیں، جیسے واسکٹ وغیرہ کا حکم ہے۔

   (2) ایسی کیپ شال جس میں بازو ڈالنے کی جگہ نہیں ہوتی، بلکہ ایسے ہی کندھوں پر اوڑھ لی جاتی ہے، ایسی شال کندھوں پر رکھ کر سامنے سے بٹن (Button)یا  ہُک (Hook) وغیرہ کے ذریعے نہ ملایا، تو سدل ہونے کی وجہ سے نماز مکروہ تحریمی ہو گی، البتہ اگر بٹن وغیرہ کے ذریعے دونوں پلوؤں کو ملا لیا، تو یہ صورت سدل سے خارج ہو جانے کی وجہ سے نماز درست ہو جائے گی۔

   سدل کی ممانعت حدیث پاک سے ثابت ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف میں حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے:’’نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن السدل فی الصلاۃ“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نماز میں سدل سے منع فرمایا ہے ۔(جامع الترمذی ،ابواب الصلاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ السدل، جلد1،صفحہ 488، مطبوعہ بيروت(

   علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ سدل کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وفي الفائق: السدل إرسال الثوب من غير أن يضم جانبيه، ۔۔۔في شرح المنية: السدل أن يضع الثوب على كتفه ويرسل أطرافه على عضديه أو صدره، وقيل: أن يجعله على رأسه أو كتفه ويرسل أطرافه من جوانبه، وفي فتاوى قاضي خان: هو أن يجعل الثوب على رأسه أو على عاتقه ويرسل جانبيه أمامه على صدره والكل سدل ۔۔ وحكمته والله أعلم اشتغال القلب، بمحافظته والاحتياج بمعالجته‘‘ترجمہ: سدل کپڑے کی دونوں جانب کو ملائے بغیر لٹکانا ہے ۔۔ اور شرح منیہ میں ہے کہ سدل یہ ہے کہ کپڑا اپنے کندھے پر رکھے اور  اس کے کنارے اپنے کندھوں یا سینے پر لٹکا دےاور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سدل یہ ہے کہ اپنے سر یا کندھے پر کپڑا یوں رکھے کہ اس کے جوانب سے کنارے لٹکا دے اور فتاوی قاضی خان میں ہے کہ سدل یہ ہے کہ کپڑا اپنے سر یا کندھے پر رکھے اوراس کے دونوں کنارے اپنے سینے پر لٹکا دے ۔ اور یہ تمام صورتیں ہی سدل کی ہیں ۔اور اس کی حکمت(اللہ ہی بہتر جانتا ہے، شاید) قلب کا اس کپڑے کی حفاظت اور اسے درست کرنے میں مشغول ہونا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 2، صفحہ 635، 636، مطبوعہ بیروت)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :’’اصل یہ ہے کہ سدل یعنی پہننے کے کپڑے کو بے پہنے لٹکانا، مکروہ تحریمی ہے اور اس سے نمازواجب الاعادہ جیسے انگرکھایا کرتا کندھوں پرسے ڈال لینابغیر آستینوں میں ہاتھ ڈالے یابعض بارانیاں وغیرہ ایسی بنتی ہیں کہ اُن کی آستینوں میں مونڈھوں کے پاس ہاتھ نکال لینے کے چاک بنے ہوتے ہیں ان میں سے ہاتھ نکال کر آستینوں کو بے پہنے چھوڑدینا یارضائی یاچادر کندھے یاسر پرڈال کردونوں آنچل چھوڑدینا یاشال یا رومال ایک شانہ پراس طرح ڈالنا کہ اس کے دونوں پلّو آگے پیچھے چھوٹے رہیں۔“(فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ385،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   چادر، شال وغیرہ کو کندھوں پر ڈال کر سامنے سے ملائے بغیر یونہی چھوڑ دینا سدل ہے، لہذا اگر کسی نے سامنے سے دونوں پلو ملا دئیے، تو سدل نہیں۔ البنایہ شرح ہدایہ میں ہے :’’وفي المغرب: سدل الثوب سدلاً ۔۔ إذا أرسله من غير أن يضم جانبيه‘‘ ترجمہ: المغرب میں ہے: سدل الثوب سدل (اس نے کپڑے کو لٹکایا):۔۔ یہ اس  وقت کہا جاتا ہے جب  کوئی کپڑے کے کناروں کو ملائے بغیر لٹکتا چھوڑ  دے۔(البنایہ شرح ھدایہ، جلد 4، صفحہ 272، مطبوعہ بیروت)

   بنایہ میں ہی دوسرے مقام پر ہے:’’في صلاة الجلاتي: إذا ضم طرفه أمامه فليس بسدل‘‘ترجمہ: صلاۃ الجلاتی (کتاب) میں ہے کہ جب اس کے کناروں کو اپنے سامنے ملا دیا تو یہ سدل نہیں ہے ۔(البنایہ شرح ھدایہ، جلد 4، صفحہ 446، مطبوعہ بیروت)

   جبکہ جیکٹ، واسکٹ و امثلہ میں ہاتھوں کو آستینوں میں ڈالے بغیر کندھوں پر رکھ لینا ہی سدل ہے۔ اللباب فی شرح الکتاب، شرح وقایہ  اور دیگر کتبِ فقہ میں دونوں صورتیں یوں نقل کی گئی ہیں:والنظم للاول:’’ (ولا يسدل ثوبه) ۔۔ وهو: أن يجعل الثوب على رأسه وكتفيه ويرسل جوانبه من غير أن يضمها؛ قال صدر الشريعة: هذا في الطيلسان، أما في القباء ونحوه فهو أن يلقيه على كتفيه من غير أن يدخل يديه في كميه‘‘ ترجمہ: (وہ کپڑےکا سدل نہ کرے)۔۔اور سدل یہ ہے کہ کپڑے کو اپنے سر اور کندھوں پر اور اس کے جوانب (کناروں)کوملائے بغیر چھوڑ دے۔صدر الشریعہ نے فرمایا کہ یہ وضاحت طیلسان (ایک قسم کی چادر) کے بارے میں ہے ، بہر حال قبا وغیرہ میں یہ ہے کہ اسے اپنے کندھوں پر لٹکائے اور اپنے ہاتھوں کو اس کی آستینوں میں  نہ ڈالے ۔(اللباب فی شرح الکتاب، جلد 1، صفحہ 83، مطبوعہ بیروت)

   نیز واسکٹ وغیرہ  کی  آستینوں میں ہاتھ ڈالنا کافی ہے، سامنے سے بٹن بند کرنا ضروری نہیں۔  امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’انگرکھے پر جو صَدری یا چُغہ پہنتے ہیں اور عرف عام میں ان کا کوئی بوتام بھی نہیں لگاتے اور اسے معیوب بھی نہیں سمجھتے، تو اس میں بھی حرج نہیں ہونا چاہئے ۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 386، رضا فاؤنڈیشن، لاھو ر)

   فتاوی فقیہ ملت میں ہے:’’اس طرح کپڑا پہن کر نماز پڑھی کہ نیچے کرتے کا سارا بٹن بند ہے اور اُوپر شیروانی یا صَدری کا کل یا بعض بٹن کھلا ہے، تو حرج نہیں ۔‘‘( فتاوی فقیہ ملت، جلد 1، صفحہ 174، شبیر برادرز، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم