عورت کا بلند آواز سے نعت پڑھنا کیسا ؟

مجیب:مولانا نوید چشتی مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-4008

تاریخ اجراء:03ذوالقعدۃ الحرام1436ھ19اگست2015ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میلاد شریف کی ایسی محافل جن میں صرف عورتیں ہی شریک ہوتی ہیں، ان میں عورتیں اتنی بلند آواز سے تلاوتِ قرآن مجید، نعت اور بیان کر سکتی ہیں کہ ان کی آواز محفل سے باہر غیر محرم مردوں تک جائے یا نہیں کر سکتیں ؟ وضاحت فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سب سے پہلے یہ بات یادرہے کہ نبی اکرم رسول محتشم محبوبِ ربِّ اکبر عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کامیلاد منانا کثیربرکات وحسنات کا موجب ہے ۔اس کی فضیلت وبرکت قرآن پاک سے بھی خوب ظاہر ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں اپنی رحمت وفضل پرخوشی منانے کاحکم ارشاد فرمایا ہے۔

    اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه  ِ وَ   بِرَحْمَتِهٖ   فَبِذٰلِكَ   فَلْیَفْرَحُوْا   هُوَ  خَیْرٌ    مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ :اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہيے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔‘‘

   (پارہ 11، سورۂ یونس، آیت  58)

    اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل اپنی رحمت پر خوشی منانے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے اور بلاشک وشبہ حضورپُرنور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ، جن کواللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے ليے رحمت بناکربھیجا اور ان کے مبعوث فرمانے پراحسان بھی جتلایا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام جہانوں کے لیے رحمت ہونے کے بارے میں اللہ رب العزت کافرمانِ ذیشان ہے:﴿ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ترجمہ کنزالایمان :’’اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا ، مگر رحمت سارے جہاں کے لیے۔‘‘

(پارہ 17،سورۃ الانبیاء،آیت  107)

    دوسری جگہ ارشادفرمایا:﴿لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  ترجمہ: کنزالایمان: ’’بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔‘‘

 (پارہ 4، سورۂ آل عمران، آیت 164)

    پہلی آیت کریمہ میں سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رحمت ہونے اور دوسری میں نعمت ہونے کا ذکر ہے۔پھر جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت ونعمت ہیں ، توان کا میلاد منانایعنی ان کے فضائل میں محافل کااہتمام کرنا ، اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کااظہار وچرچاکرنا ہےاورخود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اظہارِ نعمت اور اس کا چرچا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : چنانچہ قرآن مجید میں ہے :﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ترجمۂ کنز الایمان :’’اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو۔‘‘

 (پارہ 30، سورہ و الضحی، آیت11)

    پھر حضور علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کا میلاد منانا ایسی عظمت وفضیلت والاکام ہے کہ اس کی برکتیں نہ صرف مسلمانوں ،بلکہ کافروں کو بھی پہنچتی ہیں ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے:”ثویبۃ مولاۃ لأبی لھب کان أبو لھب أعتقھا، فأرضعت النبی صلی اللہ علیہ و سلم، فلما مات أبو لھب أریہ بعض أھلہ بشر حیبۃ، قال لہ: ما ذا لقیت؟ قال أبو لھب:لم ألق بعدکم غیر أنی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ“ترجمہ : ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی ۔ ابولہب نے اسے آزاد کردیا اور اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کودودھ پلایا،توجب ابولہب مرا، اس کے بعض گھروالوں نے اسے بُرے حال میں دیکھا ۔ اس نے ابولہب سے کہاکہ تم نے( ہم سے جداہونے کے بعد)کیاپایا؟ ابولہب نے کہا: تمہارے بعد میں نے کوئی بھلائی نہیں پائی ، سوائے اس کے کہ مجھے اس انگلی سے ثویبہ لونڈی کوآزاد کرنے کے بدلے میں پانی پلایاجاتاہے ۔

 (صحیح بخاری ، جلد2،ص270،مطبوعہ لاهور)

    صحیح بخاری کی اس روایت کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”اس حدیث میں میلاد شریف والوں کے لیے حجت ہے کہ جو تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شبِ ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں۔مطلب یہ کہ باوجودیکہ ابولہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن میں نازل ہوچکی ہے ، جب اس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کودودھ پلانے کی خاطر آزاد کردیا ، تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا۔‘‘

  (مدارج النبوۃ، جلد2 ص34، مطبوعہ ضیاء القرآن،کراچی)

    نیز جہاں تک عورتوں کا میلادکی محافل ومجالس میں نعتیں ،بیانات وقرآن پاک پڑھنے کی بات ہے ، توان کامیلاد و دیگر ذکرواذکار کی محافل منعقد کرنا بھی جائز وموجبِ اجروثواب ہے ،لیکن اس میں اس بات کالحاظ رکھاجائے کہ عورت کی آواز نا محرموں تک نہ جائے ، ورنہ یعنی اگر عورت کی آواز اتنی بلند ہوکے غیر محرموں کواس کی آواز پہنچے گی ، تواس کااتنی بلندآواز سے پڑھنا ناجائز وگناہ ہوگا، خواہ اس کایہ پڑھنا گلی میں ہویاکھلے کمرے یا کسی اورجگہ کہ عورت کی خوش الحانی اجنبی سنے، محل فتنہ ہے اور اسی وجہ سے ناجائز ہے۔ چنا نچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”نا جائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اورعورت کی خوش الحانی کہ اجنبی سنے محل فتنہ ہے۔“

          (فتاوی رضویہ جلد 22، ص240، رضا فاؤنڈیشن، لاهور )

    دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جا ئے ، حرام ہے ۔نوازل امام فقیہ ابو اللیث میں ہے:’’نغمۃ المرأۃ عورۃ ‘‘یعنی عورت کا خوش آواز کر کے کچھ پڑھنا عورت یعنی محلِ ستر ہے ۔

    کافی امام ابو البرکات نسفی میں ہے:’’ لا تلبی جھراًلان صوتھا عورۃ ‘‘یعنی عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے،  اس لیے کہ اس کی آواز قابلِ ستر ہے ۔ “

 (فتاوی رضویہ، جلد22،ص242، رضا فاؤنڈیشن لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم