Aurat Ka Balon Ko Mustaqil Sidha Karwana Kaisa?

عورت کا اپنے بالوں کو مستقل طور پر سیدھا کروا نا

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3152

تاریخ اجراء:01ربیع الثانی1446ھ/05اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا اسلامی بہن اپنے بالوں کو مستقل طور پر سیدھا کرواسکتی ہےاور کلر بھی کرواسکتی ہے؟یہ سب کرنے کے بعد کیا نماز ہوجائےگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اسلامی بہن کےلئے اپنے بالوں کو مستقل طور پر سیدھا کروانا  اورجائزکلر کروانا جائز ہے کیونکہ  یہ دونوں کام زینت میں داخل ہیں اور عورتوں کے لیے شریعت کی حدود میں رہ کر زینت اختیار کرنےکی اجازت ہے بلکہ بالوں کو سیدھا کرنا اور کلر  لگانا اگر اچھی نیت کے ساتھ ہو مثلاً شوہر کی خوشنودی وغیرہ کے لیے ہو تو مستحسن(اچھا) بھی ہے۔

   البتہ اس میں  ضروری ہے کہ کسی غیر شرعی فعل کاارتکاب نہ کیا جائے مثلاً اس میں کوئی نجس وناپاک چیز  استعمال نہ ہو۔ایسی چیز نہ ہو جس کا جرم اور تہہ بالوں پر جمتی ہو ،اوریہ کام کسی اجنبی غیر محرم مرد  یا کافرہ عورت سے نہ کروائے  ، یونہی کالا کلر یا ڈارک براؤن کلر جو دیکھنے میں کالالگتا ہو وہ نہ ہو کہ احادیث میں اس کو  حرام قرار دیا گیا ہے۔

   تنویر الابصار ودرمختار میں ہے (لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)“ ترجمہ:اسے دھونا واجب نہیں جس کے دھونے میں حرج ہے جیسے اندرونِ چشم، اگرچہ ناپاک سرمہ لگالیا ہو، اور ایساسوراخ جو بند ہوگیاہو،اور نہ ہی  ختنہ کی کھال کا  اندر والا  حصہ دھونا واجب  ہے۔(در مختار مع رد المحتار،ج 1،ص 152،دار الفکر،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ”بالجملہ تمام ظاہر بدن ہر ذرّہ ہر رونگٹے پر سر سے پاؤں تک پانی بہنا فرض ہے ورنہ غسل نہ ہوگا مگر مواضع حرج معاف ہیں مثلاً۔۔۔۔  عورت کے ہاتھ پاؤں میں اگر کہیں مہندی کا جرم لگارہ گیا۔“(فتاوی رضویہ ، ج 1،حصہ ب،ص 606،607،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے  ’’ شَرِیْعت کاتو یہ حکم ہے کہ کافِرہ عورت سے مسلمان عورت کو ایسا پردہ واجِب ہے جیسا انھیں   مَرد سے  ۔  یعنی سر کے بالوں   کا کوئی حصّہ یا بازو یا کلائی یا گلے سے  پاؤں   کے گِٹّوں   کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ مسلمان عورت کا کافِرہ عورت کے سامنے کُھلاہونا جائز نہیں۔‘‘(فتاوی  رضویہ ،ج 23،ص692، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سیاہ خضاب  لگانے کی ممانعت کے متعلق حدیثِ پاک میں ہےقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد، كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة“ ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:آخر ی زمانے ميں ایسے لوگ ہوں گے جو کبوتروں کے پوٹوں  جيسا سياہ خضاب لگائیں گے ،وہ لوگ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکيں گے۔(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث 4212،ج 4،ص 87، المكتبة العصرية، بيروت)

   مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1391 ھ / 1971ء)لکھتےہیں:” اس حدیث سے صراحۃمعلوم ہوا کہ سیاہ خضاب حرام ہے، خواہ سر میں لگائے یا داڑھی میں، مرد لگائے یا عورت۔“(مرآۃالمناجیح، ج 6،ص 166، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   بالوں کو سیاہ خضاب کرنا مُثلہ یعنی اللہ پاک کی تخلیق کو بدلنا  ہے،جیساکہ سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”  طبرانی معجم کبیر میں بسند حسن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من مثل بالشعر فلیس لہ عندﷲ خلاق(جوبالوں کے ساتھ مثلہ کرے اللہ پاک کے یہاں اس کا کچھ حصہ نہیں) والعیاذ باللہ رب العالمین ، یہ حدیث خاص مسئلہ مُثلہ مُو(بالوں کے  بدلنے کے بارے ) میں ہے ، بالوں کا مثلہ یہی جو کلمات ائمہ سے مذکور ہوا کہ عورت سر کے بال  منڈالے یا مرد داڑھی،یامردخواہ عورت بھنویں (منڈائے)کما یفعلہ کفرۃ الھند فی الحداد (جیسے ہندوستان کے کفار سوگ مناتے ہوئے ایسا کرتے ہیں)یا سیاہ خضاب کرےکما فی المناوی والعزیزی والحفنی شروح الجامع الصغیر، یہ سب صورتیں مثلہ مُومیں داخل ہیں اور سب حرام(ہیں)۔“(فتاوی رضویہ،ج 22،ص 623،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   کنز العمال کی حدیث شریف ہے: ”لو تعلم المرأة حق الزوج لم تقعد ما حضر غداؤه وعشاؤه حتى يفرغ منه“ ترجمہ: عورت کو اگر معلوم ہوتا کہ شوہر کا کیا حق ہے تو جب تک اس کے پاس صبح و شام کا  کھانا حاضر رہتا یہ کھڑی رہتی،یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جاتا۔(کنز العمال، ج 16، ص 332، حدیث 44772، مؤسسة الرسالة)

   فتاوی رضویہ میں ہے"عورتوں کو سونے چاندی کا زیور پہنناجائز ہے۔۔۔بلکہ عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔"(فتاوی رضویہ،ج 22،ص 126،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم