جوان لڑکی کا اپنی والدہ اور ماموں کے بیٹے کے ساتھ عمرے پرجانا؟

مجیب:مولانا شفیق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الاول1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون اپنے بھتیجے کے ساتھ عمرے پر جارہی ہے۔اس خاتون کی ایک جوان بیٹی بھی ہے ،وہ خاتون چاہتی ہے کہ یہ بھی ہمارے ساتھ عمرے پر چلی جائے، تو کیا اس لڑکی کا یوں سفر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور والدہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے کچھ چھوٹ ملے گی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں وہ خاتون تو اپنے بھتیجے کے ساتھ سفر کر سکتی ہے مگر اس کی بیٹی نہیں جاسکتی ،والدہ کے ساتھ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، لڑکی کےلئے اس کا اپنا محرم ہونا ضروری ہے جبکہ ماموں زاد غیر محرم ہوتے ہیں اور ان سے پردہ لازم ہے ، لہٰذا وہ خاتون خود جانا چاہے تو جاسکتی ہے، مگر اپنی بیٹی کو ساتھ نہیں لے جاسکتی ہے، کیونکہ شریعتِ مطہر ہ میں کسی بھی عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی مسافت یعنی 92 کلومیٹر یا اس سے زائد کی مسافت پر واقع کسی جگہ جانا حرام ہے، خواہ وہ سفر حج و عمرہ کی غرض سے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے ہو۔دارفتاءاہلسنت دعوت اسلامی

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم