تجارت میں نفع نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ صفرالمظفر1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ اگر کسی شخص کی دکان ہو اور اس میں مالِ تجارت پڑا ہو لیکن اس کی سیل نہ ہونے کے برابر ہو، اگر سیل ہوتی بھی ہو تو اتنی ہو کہ ہول سیل والے کے پیسے بھی مشکل سے پورے ہوتے ہوں تو کیا اس مالِ تجارت پر بھی زکوٰۃ ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی ہاں! جو مال دکان پر بیچنے کے لئے رکھا ہوا ہے وہ مالِ تجارت ہے اس مالِ تجارت پر بھی زکوٰۃ لازم ہوگی جبکہ دیگر شرائطِ زکوٰۃ پائی جائیں اور قرض نکال کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر مال بچتا ہو۔ مثال کے طور پر دو لاکھ روپے کا مال ہے اور اس شخص کا کاروباری معاملہ اس انداز کا ہے کہ یہ مقروض ہے اور یہ مال ملا کر اور کیش اور دیگر قابلِ زکوٰۃ اموال ملا کر اگر اس میں سے قرض مائنس کیا جائے تو نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر مال نہیں بچتا تو زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔ اگر قرض اور حاجت اصلیہ کو نکال کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار مال حساب میں بچتا ہے تو اس پر زکوٰۃ دینی ہوگی کیونکہ جن چیزوں پر زکوٰۃ دینا فرض ہے بیچنے کی چیز بھی ان ہی میں سے ہے، ایسا نہیں کہ شریعتِ مطہرہ نے صرف نفع پر زکوٰۃ فرض کی ہے بلکہ شرائط پائے جانے پر مال تجارت پر زکوٰۃ لازمی طور پر فرض ہوگی بلکہ اگر نقصان ہو رہا ہو جب بھی زکوٰۃ دینا ہوگی مثال کے طور پر کسی نے تجارت و انویسٹ کی نیت سے چالیس لاکھ کا پلاٹ خریدا، اس کی مالیت کم ہو کر زکوٰۃ فرض ہونے کے دن تیس لاکھ ہو گئی اور زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط پائی جاتی تھیں تو یہ شخص مذکورہ پلاٹ پر بلاشبہ زکوٰۃ دے گا لیکن ایک رعایت یہ ہے کہ زکوٰۃ فرض ہونے کے دن اس مال کی جو کرنٹ ویلیو ہے اسی کے اعتبار سے حساب لگائے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم