اسلامی بہنیں قعدہ میں کیسے بیٹھیں؟

مجیب: مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق: مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر/ اکتوبر2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں  تشہد میں مَردوں کی طرح ہی بیٹھیں۔ کیا عورتیں مَردوں کی طرح ہی بیٹھیں گی یا مختلف طریقہ ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عورتیں تشہد میں مَردوں کی طرح نہیں بیٹھیں گی بلکہ ان کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ توَرُّک کریں یعنی اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر بائیں سرین پر بیٹھیں کیونکہ ایک تو اس طرح بیٹھنا بھی حضور علیہِ الصَّلٰوۃ  وَ السَّلام سے ثابت ہے اور اس طریقے سے بیٹھنے میں عورتوں کے لئے آسانی بھی ہے اور اس میں پردے کی رعایت بھی زیادہ ہے اور عورتوں کے لئے زیادہ مناسب وہی طریقہ ہوتا ہے جس میں پردے کی رعایت زیادہ ہو جیسا کہ سجدے کا معاملہ ہے کہ اس میں مَردوں کو حکم ہے کہ وہ کہنیاں زمین سے، بازو پہلوؤں سے اور پیٹ رانوں سے دور رکھیں لیکن عورت کو اس کے برخلاف سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم ہے یہی معاملہ بیٹھنے کے متعلق بھی ہے جیسا کہ درج ذیل عبارات سے واضح ہے۔روایات میں ہے کہ عورتوں کو مَردوں کی طرح بیٹھنے سے منع کیا گیا اور پہلے ان کو حکم تھا کہ وہ چار زانو بیٹھیں پھر حکم دیا گیا کہ وہ چار زانو کے بجائے سمٹ کر اور باہم اعضا کو ملا کر بیٹھیں جو کہ تَوَرُّک کا طریقہ ہے چنانچہ مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:كن النساء يؤمرن ان يتربعن اذا جلسن في الصلاة، ولا يجلسن جلوس الرجال ترجمہ:عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں چار زانو ہو کر بیٹھیں اور مَردوں کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 1/303) مسندِ ابی حنیفۃ میں حضرت نافع سے مروی ہے کہ  عن ابن عمر رضي الله عنهما، انه سئل كيف كن النساء يصلين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال:كن يتربعن، ثم امرن ان يحتفزن ترجمہ:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سوال کیا گیا کہ عورتیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں کیسے نماز ادا کیا کرتی تھیں تو فرمایا: کہ پہلے وہ چار زانو ہو کر بیٹھا کرتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ سمٹ کر بیٹھیں۔ سمٹ کر بیٹھنے کی وضاحت کرتے ہوئے مشہور محدث حضرت علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی لکھتے ہیں: اي يضممن اعضاءهن بان يتوركن في جلوسهن ترجمہ:یعنی عورتیں اپنے اعضا  ملا کر رکھیں بایں طور کہ وہ بیٹھنے میں تَوَرُّک کریں (دونوں ٹانگیں ایک طرف نکال کر سرین پر بیٹھیں) ( شرح مسند ابی حنیفۃ لملا علی قاری ، 1/191) صحاح جوہری میں ہے: وفى الحديث عن علي رضي الله عنه اذا صلت المراة فلتحتفز   اي تتضام    اذا جلست واذا سجدت ترجمہ: اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیثِ پاک میں ہے:جب عورت نماز پڑھے تو وہ سمٹے۔ یعنی جب وہ بیٹھے اور جب وہ سجدہ کرے توباہم اعضا ملائے رکھے۔ (الصحاح تاج اللغۃ ، 3/874) مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے: عن ابراهيم، قال: تجلس المراة من جانب في الصلاة ترجمہ: حضرت ابراہیم (نخعی) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: عورت نماز میں ایک جانب ہو کر بیٹھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 1/304) ہدایہ میں ہے:ان كانت امراة جلست على اليتها اليسرى واخرجت رجليها من الجانب الايمن  لانه استر لها  ترجمہ:اگر عورت ہے تو وہ اپنی بائیں  سرین پر بیٹھے اور اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال لے کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ پردے والی کیفیت ہے۔ (ہدایہ، 1/53) علّامہ کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی لکھتے ہیں:اما المراة فانها تقعد كاستر ما يكون لها فتجلس متوركة عورت اس ہیئت پر  بیٹھے جس میں اس کا پردہ زیادہ ہو لہٰذا وہ تورک کی حالت میں بیٹھے۔(بدائع الصنائع، 1/211) امامِ اہلِ سنّت، سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن ایک سوال کے جواب میں ضمناً اس مسئلے پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں(فارسی عبارت کا ترجمہ کچھ یوں ہے): اس کی ایک نظیر مسئلہ قعود ہے کہ اس کے دونوں طریقے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم سے منقول ہیں ہمارے علماء نے مَردوں کے لئے دایاں پاؤں کھڑا کرنا اور بائیں پر بیٹھنے کو اختیار کیا ہے کیونکہ یہ شاق ہے اور بہتر عمل وہی ہوتا ہے جس میں مشقت ہو اور خواتین کے لئے تورک کا قول کیا کیونکہ اس میں زیادہ ستر اور آسانی ہے اور خواتین کا معاملہ ستر اور آسانی پر مبنی ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 6/149)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم