17 Saal Ki Umar Me Pehli Bar Haiz Aie Tu Qaza Namazon Ka Hisab Kis Tarah Karen ?

جس عورت کو سترہ سال کی عمر میں پہلی بار حیض آیا وہ قضا نمازوں کا حساب کس طرح کرے گی؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12417

تاریخ اجراء:        24 صفر المظفر 1444 ھ/21 ستمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی عورت کو سترہ سال کی عمر میں دوائیوں کے استعمال کی وجہ سے حیض آنا شروع ہوا ، اس سے پہلے کبھی حیض نہیں آیا ، تو ایسی عورت اگر قضا نمازیں ادا کرنا چاہتی ہو، تو نمازوں کا حساب کس عمر سے لگائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازفرض ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط بالغ ہونا بھی ہے اورنو سال عمر ہونے کے بعد اگر کسی عورت میں کوئی علامتِ  بلوغ مثلاً حیض آنا یا احتلام ہونا وغیرہ ظاہر نہ ہو یہاں تک کہ اس کی عمر اسلامی سال کے اعتبار سے پندرہ سال ہوگئی ، توعمر پندرہ سال ہوتے ہی  مفتی بہ قول کے مطابق وہ عورت بالغہ ہوگئی  اوراسی وقت سے اس پر نماز بھی فرض ہوگئی ۔ اب نماز  نہ پڑھنے کی صورت میں  ان نمازوں کی قضا لازم ہوگی۔پوچھی گئی صورت میں جس عورت کو پہلی دفعہ حیض سترہ سال کی عمر میں آیا اور اس سے پہلے کوئی علامتِ بلوغ ظاہر نہیں ہوئی تھی تو اس کے بالغہ ہونے کا حکم سترہ سال کی عمر سے نہیں لگے گا ، بلکہ جب اسلامی اعتبار سے اس کی عمر پندرہ سال مکمل ہوئی ،اسی وقت سے یہ بالغہ شمار ہوگی اور پندرہ سال عمر ہونے کے بعدجتنی بھی  نمازیں ادا نہیں کیں ،  ان تمام نمازوں کی قضا کا حساب لگا کر ان کو ادا کرنا اس پر لازم ہوگا۔

   واضح رہے کہ بلا عذرِ شرعی نماز قضا کردینا سخت گناہ ہے ،لہٰذا قضا نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ سچے دل سے اللہ کریم کی بارگاہ میں توبہ بھی کرے۔

   بالغ ہونا نماز فرض ہونے کی ایک شرط ہے۔اس کے متعلق غرر الاحکام میں ہے:”شرط لفرضیتھا الاسلام والعقل والبلوغ“یعنی نماز فرض ہونے کے لیے  مسلمان ہونا، عاقل ہونا اور بالغ ہونا شرط ہے۔(غرر الاحکام مع الدرر الحکام، جلد1،صفحہ 50،مطبوعہ:کراچی)

   اگر نو سے پندرہ سال کے درمیان علامتِ بلوغ ظاہر نہ ہو تو مفتی بہ قول کے مطابق پندرہ سال عمر ہوتے ہی بلوغت کا حکم ہوگا۔اس کے متعلق درِ مختار وفتاوی ھندیہ میں ہے:”بلوغ الغلام بالاحتلام او الاحبال او الانزال والجاریۃ بالاحتلام او الحیض او الحبل کذا فی المختار والسن الذی یحکم ببلوغ الغلام والجاریۃ اذا انتھیا الیہ خمس عشر سنۃ عند ابی یوسف ومحمد رحمھا اللہ تعالیٰ وھو روایۃ عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ وعلیہ الفتوی“یعنی لڑکے کی بلوغت احتلام  ہوجانے ،حمل ٹھہرا دینے یا انزال ہوجانے سے ہوتی ہے اور لڑکی کی بلوغت احتلام  ہونے، حیض آنے یا حمل ٹھہر جانے سے ہوتی ہے ایسا ہی مختار میں ہے اور وہ عمر کہ جس تک یہ پہنچیں تو بلوغت کا حکم لگا دیا جائے وہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہما  کے نزدیک پندرہ سال ہے اور یہ امام ابو حنیفہ سے مروی ایک روایت ہے اور اسی پر فتوی ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد5،صفحہ 61،مطبوعہ:مصر)

   حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:”اذ العلامۃ تظھر فی ھذہ المدۃ غالبا فجعلوا المدۃ علامۃ فی حق من لم تظھر لہ العلامۃ“یعنی کیونکہ علامت بلوغ  غالب طور پر اس مدت میں ظاہر ہوجاتی ہے ، تو فقہا نے مدت کو اس شخص کے حق میں علامت قرار دے دیا ، جس میں کوئی علامتِ بلوغ ظاہر نہ ہو۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، صفحہ 108،مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”عورت کے لئے حدِ صغر9سال کی عمر تک ہے ،اس سے کم عمر میں جوانی ہرگز نہیں ہوسکتی ،اس کے بعد 15 سال کی عمر تک احتمال ہے ، اگر آثارِ بلوغ مثلاً حیض آنا یا احتلام ہونا یا حمل رہ جانا پایا جائے ،تو بالغہ ہے ورنہ جب 15 سال کامل کی عمر ہوجائے گی ، جوانی کا حکم کردیں گے اگرچہ آثار کچھ ظاہر نہ ہوں ۔بہ قال وعلیہ الفتوی کما فی الدر وغیرہ من الاسفار الغر(یہی کہا اور اسی پر فتوی ہے جیسا کہ در وغیرہ مشہورکتب میں ہے۔ت)“(فتاوی رضویہ، جلد13،صفحہ 294،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   عمر سے بالغ ہوئی ،تو اسی وقت سے نماز اس پر فرض ہوگی اور نہ پڑھنے کی صورت میں قضا لازم ہوگی۔فتاوی ھندیہ میں ہے:”الصبیۃ اذا بلغت بالحیض قبل طلوع الفجر لا یلزمھا قضاء العشاء وان بلغت بالسن تلزمھا العشاء“یعنی لڑکی جب طلوعِ فجر سے پہلے حیض کے ذریعہ بالغ ہوئی ، تو اس پر عشا کی قضا لازم نہیں اور اگر عمر کے ساتھ بالغ ہوئی ، تو اس پر عشا کی نماز لازم ہے۔(فتاوی ھندیہ ملتقطا، جلد1،صفحہ 121،مطبوعہ:مصر)

   مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عمر سے بالغ ہوئی یعنی اس کی عمر پورے پندرہ سال کی ہوگئی تو جس وقت پورے پندرہ سال کی ہوئی اس وقت کی نماز اس پر فرض ہے“(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 4،صفحہ 703،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   وقارالفتاوی میں سوال ہوا:نماز روزے کی فرضیت (جس کے چھوڑنے کی صورت میں قضا لازم ہو)کس عمر یا مدت سے مستند ہے ، سنِ  بلوغ کی شرط کی بجائے عمر کی حد تحریر فرمائیں۔

   اس کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:”بلوغ علامتوں سے ہوتا ہے ۔مثلاً عورتوں کو حیض آنا اور مردوں کو احتلام ہونا یا اس کی صحبت سے عورت کا حاملہ ہوجانا اور اگر مذکورہ علامتوں میں سے کوئی علامت نہ پائی جائے تو پھر عورت اور مرد دونوں کے لئے پندرہ سال حدِ بلوغت ہے“(وقار الفتاوی ، جلد 2،صفحہ 59،مطبوعہ:بزمِ وقارالدین، کراچی)

   بلا عذرِ شرعی نماز قضا کرنا گناہ ہے۔اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:”بلا عذرِ شرعی نماز قضا کردینا بہت سخت گناہ ہے ،اس پر فرض ہے کہ اس کی قضا پڑھے اور سچے دل سے توبہ کرے، توبہ یا حجِ مقبول سے گناہِ تاخیر معاف ہوجائے گا“(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 4،صفحہ 700،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم