Zina Aur Fahashi Ka Zimmedar Kaun? Liberalism Zina Ke Khilaf Hai?

 

زنا و فحاشی کا ذمہ دار کون ؟ لبرل ازم زنا کے خلاف ہے؟

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری        

فتوی نمبر: Lhr-12771

تاریخ اجراء: 10رمضان المبارک  1445ھ/21مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ جب ہمارے یہاں کوئی ریپ کیس ہوتا ہے اور علمائے کرام اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب پر بات کرتے ہیں ، تو لبرل لوگ علماء پر اعتراض کرتے ہیں کہ  اس طرح کے واقعات لبرل اصولوں کے بھی منافی ہیں۔کیا لبرل لوگوں کی یہ بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لبرل لوگوں کی یہ بات اس طور پر درست نہیں کہ پہلے یہ بے حیائی  عام کرکے لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں اور جب لوگ نفس کے ہاتھوں بے قابو ہوکر غلط راہ پر چلتے ہیں ، تو پھر یہ مذمت کرتے ہیں،نیز ان کی مذمت بھی زبردستی کی حد تک ہے ، اگر رضامندی کے ساتھ کوئی عورت چاہے وہ کسی کی بیوی  ہو،ماں ہو یا بیٹی ہو وہ معاذ اللہ بدکاری کروائے ، تو اس پر ان کو اعتراض نہیں۔یعنی ان کے اخلاقیات بھی عجیب و غریب ہیں۔نیز جب معاشرے میں اس طرح کے واقعات کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسلامی سزائیں نافذ کرنے کا کہا جائے تو لبرل لوگوں کو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔

   لہٰذا  علمائے کرام اس طرح کے واقعات پر جب لبرل پر اعتراض کرتے ہیں ، تو وہ بالکل حق ہے کہ  اسلام جس طرح بے حیائی سے روکتا ہے ، اسی طرح بے حیائی کے اسباب(دیکھنا،چھونا،غیر محرم سے خلوت) سے بھی منع کرتا ہے تاکہ معاشرے میں بے حیائی و بدامنی نہ پھیلے اور عزتیں محفوظ رہیں۔ شریعت نے نگاہ کے ساتھ ساتھ شرمگاہ کی حفاظت، بے حیائی سے بچنے کا حکم دیا ہے اور زناکے عام ہونے بلکہ اسے حلال سمجھنے کو قیامت کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے، لہٰذا وہ لوگ جو حقوق نسواں کی آڑ میں  بے حیائی کو عام کرنے میں کوشاں ہیں ، وہ اللہ عزوجل کے عذاب کے مستحق ، قابلِ ملامت  اور شیطانی راہ پر ہیں ۔

   قرآن پاک میں ہے:﴿قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمْ ؕ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوۡنَ ﴿۳۰﴾وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوۡجَہُنَّترجمہ کنز الایمان:(اے رسول !)مسلمان مَردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے ؛ بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اوراپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔ (پ18،النور:30،31)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :” جن چيزوں کا ديکھنا جائز نہيں ، انہيں نہ ديکھيں۔خيا ل رہے کہ اَمْرَد لڑکے کو شہوت سے ديکھنا حَرام ہے ؛اسی طرح اجنبيہ کا بدن ديکھنا حرام ،البتہ طبيب (Physician)مرض کی جگہ کو اور جس عورت سے نِکاح کرنا ہو ، اسے چھُپ کر ديکھنا جائز ہے۔ نيچی نِگاہ رکھنا، اسبابِ زنا (بدکاری کے اسباب) سے بچنا، تہمت کے مَقام سے بھاگنا بہت بہتر ہے۔ “ (تفسیر نور العرفان مع کنز الایمان، پ۱۸، النور، تحت الآیۃ ۳۰)

   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَسَآءَ سَبِیۡلًاترجمہ کنزالایمان:اور بد کاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ۔ (پ15،بنی اسرائیل :32)

   قرآن پاک میں ہے:﴿ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ترجمہ:بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی مت جاؤ خواہ وہ ظاہر ہوں یا مخفی۔ (پ 8 ، الاَنعام ، 151)

   قرآن پاک  میں ہے﴿اِنَّ اللہَ لَایَاۡمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ترجمہ کنزالایمان: تو فرماؤ: بیشک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔(پ 8 ، الاَعراف ،28)

   سنن ابوداؤد ،نسائی اورجامع ترمذی کی حدیث پاک ہے:”عن أبی موسی عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال  المرأۃ إذا استعطرت فمرت بالمجلس فھی کذا وکذا یعنی زانیۃ“ترجمہ: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:عورت جب خوشبو لگا کر مجلس پر گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے ۔(جامع ترمذی ،کتاب الادب ،باب ماجاء فی کراہیۃ خروج المرأۃ متعطرۃ ،جلد5،صفحہ106،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

   اس حدیث کی شرح کے متعلق التیسیر بشرح جامع الصغیر میں ہے:”( أیما امرأۃ استعطرت ) أی استعملت العطر أی الطیب یعنی ما ظہر ریحہ منہ ( ثم خرجت )من بیتہا(فمرّت علی قوم)من الأجانب (لیجدوا ریحہا )أی بقصد ذلک (فہی زانیۃ )أی علیہا مثل إثم الزانیۃ لأن فاعل السبب کفاعل المسبب  ترجمہ: کوئی عورت ایسی خوشبو لگائے جس کی  خوشبو ظاہر ہو پھر وہ گھر سے باہر نکلے اور اجنبی قوم پر گزرے اور اس قوم کو یہ خوشبو آئے، عورت کا مقصد بھی یہی ہو تو اس پر زنا کی مثل گناہ ہے ، اس لئے کہ جو سبب کو کرنے والا ہے ، ایسا ہے جیسے مسبب کو کرنے والا ہے۔ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر،جلد1،صفحہ836،مکتبۃ الإمام الشافعی،ریاض)

   امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس طرح فتنہ کو حرام فرمایا ، دواعی فتنہ کو بھی حرام فرمادیا۔۔۔اجنبیہ سے خلوت، نظر، مس، معانقہ، تقبیل اس لئے حرام ہوئے کہ دواعی ہیں۔دواعی کے لئے  مستلزم ہوناضرورنہیں ہزارہاخلوت ونظر بلکہ بوس وکنار واقع ہوتے ہیں اور مدعو الیہ یعنی زنا واقع نہیں ہوتا۔”قال صلی ﷲتعالیٰ علیہ وسلم والفرج یصدق ذٰلک اویکذب بہ رواہ الشیخان وابوداود والنسائی عن ابی ھریرۃ رضی ﷲتعالیٰ عنہ“ترجمہ:حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا :شرمگاہ اس کی تصدیق یاتکذیب کرتی ہے۔ اس کو بخاری، مسلم، نسائی اور ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی روایت سے بیان فرمایا۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد 24،صفحہ120،رضا فائونڈیشن،لاھور)

   الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:”فمن سد الذرائع إلی الزنی تحریم النظر المقصود إلی المرأۃ ، وتحریم الخلوۃ بہا ، وتحریم إظہارہا للزینۃ الخفیۃ ، وتحریم سفرہا وحدہا سفرا بعیدا ولو لحج أو عمرۃ علی خلاف وتفصیل فی ذلک ، وتحریم النظر إلی العورات ، ووجوب الاستئذان عند الدخول إلی البیوت ، وکثیر من الأحکام الواردۃ فی الکتاب والسنۃ مما یتعلق بذلک“ترجمہ: زنا کی روک تھام میں سے ہے کہ عورت کی طرف نظر مقصود (قصدا اس کی طرف نظر)حرام ہے، اس سے خلوت حرام ہے۔عورت کے لئے مَردوں پرخفیہ زینت کا اظہار حرام ہے، عورت کے لئے غیر محرم کے ساتھ دور کا سفر اگرچہ وہ سفر حج و عمرے کا ہو حرام ہے اور اس مسئلہ میں اختلاف وتفصیل ہے۔ ستر عورت کی طرف نظر حرا م ہے۔گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت واجب ہے اور اسی طرح کثیر مسائل کتاب و سنت میں اس کے متعلق وار د ہیں۔ (الموسوعۃ الفقھیہ الکویتیہ،جلد24،صفحہ270،دار الصفوۃ،مصر)

    ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے:”عن أبی ھریرۃ قال سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما أکثر ما یدخل الجنۃ؟ قال: التقوی، وحسن الخلق ، وسئل ما أکثر ما یدخل النار؟ قال:الأجوفان: الفم والفرج “ ترجمہ: حضرت ابوہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل جنت میں جانے کا زیادہ سبب ہے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: تقویٰ اور حسن اخلاق۔سوال ہوا کہ کون سا عمل جہنم میں لے جانے کا زیادہ سبب ہے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا :منہ اور شرمگاہ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب ذکر الذنوب، جلد2، صفحہ1418 ،دار إحیاء الکتب العربیہ)

   روضۃ المحبین  میں ابن قیم لکھتا ہے:”قد ثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال:لا یؤمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ وصح عنہ أنہ قال:أخوف ما أخاف علیکم شہوات الغی فی بطونکم وفروجکم ومضلات الھوی“ترجمہ: تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ہے جب تک وہ اپنی خواہشات کو اس کے تابع نہ کرلیں جو احکام میں لے کر آیا ہوں۔صحیح روایت آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام سے مروی ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس چیز کا میں تم پر زیادہ خوف کرتا ہوں وہ تمہارے پیٹوں اور شرمگاہوں میں موجود شہوات اور خواہشات کی گمراہی ہے ۔(روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین،صفحہ477،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    مصنف عبدالرزاق، ترمذی اور بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زنا کے عام ہونے کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”عن أنس بن مالک، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن من أشراط الساعۃ: أن یرفع العلم ویثبت الجھل، ویشرب الخمر، ویظھر الزنا “ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:رسو ل اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی شرائط میں سے ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہل ظاہر ہوگا؛شراب پی جائے گی اور زنا ظاہر ہوگا ۔(صحیح بخاری ،کتاب العلم ،باب رفع العلم وظھور الجھل،جلد1،صفحہ27،دار طوق النجاۃ)

   حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ستکون أربع فتن: فتنۃ یستحل فیھا الدم، والثانیۃ یستحل فیھا الدم والمال، والثالثۃ یستحل فیھا الدم والمال والفرج“ترجمہ: چار فتنے ہوں گے :ایک خون کو حلال سمجھا جائے گا ، دوسرا خون و مال کو حلال سمجھا جائے گا، تیسراخون مال اور زنا کو حلال سمجھا جائے گا ۔(المعجم الکبیر،باب العین ،أبو معبد عن الحسن عن عمران بن حصین،جلد18، صفحہ180 ،قاھرہ)

   ایک روایت ”الکبائر “میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی  748ھ) نقل کرتے ہیں:” ثم یجیء الآخر فیقول لم أزل بفلان حتی زنی فیقول إبلیس نعم ما فعلت فیدنیہ منہ ویضع التاج علی رأسہ “ ترجمہ:پھر  (شیطان اپنے چیلوں میں سے )دوسرے کے پاس آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں فلاں کے پیچھے پڑا رہا یہاں تک کہ اس نے زنا کرلیا۔شیطان کہتا ہے یہ تو نے بڑا کام کیا۔تو اسے اپنے قریب کرتا ہے اور اس کے سر پر تاج رکھ دیتا ہے۔ (الکبائر للذهبي ، الكبيرة العاشرة: الزنا ،صفحہ52،مطبوعہ بیروت)

   صراط الجنان میں ہے:﴿اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمْ بِالسُّوۡٓءِ وَالْفَحْشَآءِ: وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا۔﴾سوء اور فَحشاء کو مُترادف یعنی ہم معنیٰ بھی قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوء سے مراد مطلقاً گناہ ہے اورفَحْشَآءِ سے مراد کبیرہ گناہ ہیں۔

    شیطان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو برائی کی طرف بلائے، کفرو شرک کی طرف، اللہ تعالیٰ کے متعلق غلط عقائد منسوب کرنے کی طرف یا اس کے حلال کردہ کو حرام کہنے اور اس کے حرام کردہ کو حلال کہنے کی طرف، برے کاموں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی، بہتان، لڑائی فساد، حسد، بغض و کینہ، تکبر و اَنانیت، نفرت و عداوت، جنگ و جَدل، تذلیل و تحقیر، استہزاء والزام تراشی وغیرہ چیزوں کی طرف بلائے۔ یونہی بے حیائی کے کام گانے، باجے، فلمیں ، ڈرامے، ناچ، مُجرے، بدنگاہی، فحش گفتگو، گندی باتیں ، ناجائز تعلقات، بری نیت سے دیکھنا، چھونا، بدکاری وغیرہ گناہوں کی طرف بلانا شیطان کا کام ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کل ان برائیوں میں سے بہت سی چیزوں کی طرف بلانے میں گھروالوں اور دوست احباب، گھر، بازار، معاشرہ، افسر وغیرہ کا تعاون یا ترغیب ہوتی ہے۔ کوئی آدمی نیکیوں کی طرف آنے کا سوچتا بھی ہے تو مذکورہ بالا افراد اسے کھینچ کر گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اے کاش !ہمیں اچھی صحبت، اچھا مطالعہ، اچھا گھرانہ اور اچھے دوست مل جائیں۔(صراط الجنان،جلد1،صفحہ272،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم