Allah Ke Liye Peer Ka Lafz Istemal Karna Kaisa ?

اللہ عز وجل کےلیے پیر کا لفظ  استعمال کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی   ابوالحسن  محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-0633

تاریخ اجراء: 17ربیع الاخر1444ھ/13نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا اللہ عزوجل کو پیر کہا جا سکتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانین ِ شرعیہ کی رو سے اللہ عزوجل کی ذات اقدس پر لفظ پیر کا  اطلاق  ممنوع ہے ،کیونکہ یہ ایسا لفظ ہے جس کااللہ تعالی کے لیے استعمال شرع سے ثابت نہیں اور اس کے بعض معانی اچھے  اور بعض معانی (مثلاً :شریروں کا استاد،بوڑھا وغیرہ )برے   ہیں اور ایسا لفظ اللہ  تعالی کی بارگاہ میں استعمال کرنا، ممنوع ہوتا ہے۔

   فقہی نظیر :

   اللہ عزوجل پر لفظ پیر کے اطلاق کی اجازت نہ ہونے پر قریب ترین فقہی نظیر فقہائے کرام کا  بیان کردہ یہ مسئلہ ہے کہ ”اللہ عزوجل پر لفظ ِ میاں  کا  اطلاق  ممنوع ہے، کیونکہ یہ  ایک لفظ ہے  جو اچھے اور برے  دونوں طرح کے معانی میں مشترک  ہے۔“

   جزئیات :

      اللہ عزوجل کا فرمان مقدس ہے : ﴿وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ﴾ ترجمہ:اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ۔(پارہ9،سورۃ الاعراف ، آیت180)

      اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان  کرتے  ہوئےابو عبداللہ محمد بن عمر رازی(متوفی:606ھ ) تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:” وهذا يدل على أن أسماء اللہ توقيفية لا اصطلاحية. ومما يؤكد هذا أنه يجوز أن يقال: يا جواد، ولا يجوز أن يقال: يا سخي، ولا أن يقال يا عاقل يا طبيب يا فقيه “ترجمہ:یہ آیت اس بات پر دلالت  کرتی ہے کہ اللہ عزوجل کے اسماء توقیفی ہیں نہ کہ اصطلاحی،اور یا جواد کہنے کا جواز اور یا سخی ،یا عاقل ،یا طبیب ،یا فقیہ کا عدم ِ جواز اِس  (یعنی اسماء الہیہ کے توقیفی ہونے )کو مؤکد کرتا ہے ۔(تفسیر کبیر،جلد15،صفحہ415، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

      مفسرشہیر مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃالرحمٰن (المتوفیٰ:1971ء)تفسیر نعیمی میں  فرماتے ہیں:”قوی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں، یعنی اس کو صرف ان ہی ناموں سے یاد کیا جاوے جو قرآن مجید یا حدیث شریف میں مذکور ہیں،یا جن پر امت رسول اللہ کا اجماع  ہو۔۔۔جس لفظ کے معنی اعلیٰ بھی ہوں ادنی ٰ بھی وہ اللہ عزوجل کے لیے نہ بولو۔۔حتی کہ اعلی حضرت قدس سرہ نے فرمایا کہ اللہ میاں  نہ کہو کہ لفظ ِمیاں  عورت کے شوہر کو بھی کہا جاتا ہے ۔“(تفسیر نعیمی، جلد9،صفحہ357،نعیمی کتب خانہ ،گجرات )

      علم الکلام کے مشہور امام سعد الدین تفتازانی (متوفی:792ھ)شرح عقائد نسفیہ میں لکھتے ہیں:”فإن قيل: فكيف يصحّ إطلاق الموجود والواجب والقديم ونحو ذلك مِمَّا لم يرد بہ الشرع؟ قلنا: بالإجماع وھو من أدلّۃ الشرع “ ترجمہ:پس اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ لفظ موجود ،واجب ،قدیم اور ان جیسے دیگر  وہ الفاظ  کہ جن کے بارے میں شریعت وارد نہیں ہوئی ہے ان کا  اطلاق اللہ عزوجل پر کیسے درست ہے ؟ہم کہتے ہیں کہ ان کا جواز اجماع کی وجہ سے ہےجو کہ  شرعی دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔(شرح عقائد نسفیہ،صفحہ 127،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

      ملفوظات اعلی حضرت میں   ہے کہ امام اہل سنت  علیہ الرحمۃسے سوال ہوا : حضور! اللہ میاں کہنا جائز ہے یا نہیں ؟

   جواباً ارشادفرمایا : زبانِ اُردو میں لفظِ میاں کے تین معنی ہیں ، ان میں سے دو ایسے ہیں جن سے شانِ اُلُوہیت پاک ومنزہ ہے اور ایک کا صِدق ہوسکتا ہے ۔ تو جب لفظ دو خبیث معنوں میں اور ایک اچھے معنی میں مشترک ٹھہرا، اور شرع میں وارِد نہیں تو ذاتِ باری پر اس کا اِطلاق ممنوع ہوگا اس کے ایک معنی مولیٰ، اللہ تعالیٰ بے شک مولیٰ ہے ، دوسرے معنی شوہر ، تیسرے معنی زنا کا دلال کہ زانی اور زانیہ میں متوسط ہو ۔‘‘ (ملفوظات اعلی حضرت ،صفحہ174،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

      لفظ ”پیر“ کے  مختلف معانی کے حوالے سے فیروز اللغات میں ہے :”پیر :(1)عمر رسیدہ۔معمر۔بوڑھا(2)ہادی ۔رہنما۔مرشد(3)ولی ۔ بزرگ(4)شریروں کا استاد(5)دوشنبہ۔پیر“      (فیروز اللغات،صفحہ350،فیروز سنز ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم