Ulama Maghribi Cheezain Istemal Bhi Karte Hain Aur Tanqeed Bhi

علمائے کرام مغربی چیزیں استعمال بھی کرتے ہیں اور ان پر تنقید کرتے ہیں؟

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری        

فتوی نمبر:LHR-12820

تاریخ اجراء:10 شوال المکرم  1445ھ/19اپریل 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سیکولر لوگ  علمائے کرام پر   طعن کرتے ہیں کہ ” مولوی  مغرب کے وسائل اور فراہم کردہ سہولتیں استعمال بھی کرتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کرتے ہیں “اس کا کیا جواب دیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   علمائے کرام مغربی ایجادات و وسائل پر تنقید نہیں کرتے کہ  ایجادات جیسے موبائل،ٹی وی، انٹر نیٹ وغیرہ یہ ناجائز وحرام نہیں ، بلکہ اس کا  استعمال جائز یا ناجائز ہوتا ہے۔   علماء حضرات ایجادات کے منفی استعمال پر تنقید کرتے ہیں۔ منفی استعمال کی تردید تو خود مغرب بھی کرتا ہے اور اس پر آئے دن انگریز سائنسدانوں کے آرٹیکل آتےہیں کہ موبائل  ، ٹی وی  وغیرہ کے زیادہ  استعمال سے یہ نقصان ہوتا ہے وغیرہ۔

   دراصل علماء  پر یہ اعتراض کرنے والے سیکولر و لبرل قسم کے وہ لوگ ہیں ، جو مغرب کے دلدادہ ہیں اور ان کو مغرب کی ہر شے کے ساتھ ساتھ مغربی نظریات و عادات بھی پسند ہیں ۔یہ چاہتے ہیں کہ جیسے بے حیائی  و آزادی  مغرب میں ہے ، ویسے ہی اسلامی ممالک میں آئے ۔جب ان کو اپنی اس خواہش میں بڑی رکاوٹ علمائے کرام نظر آتے ہیں ، تو یہ اس طرح کے بے ڈھنگے اعتراضات کرتے ہیں۔

   کفار کی ایجاد کردہ اشیاء کا استعمال اور ان کا ذہنی غلام بن جانے میں بہت فرق ہے۔ علمائے کرام  ان مغربی ایجادات پر فریقتہ ہو کر ان کے گُن گاتے  ہوئے مسلمانوں کو نااہل  سمجھنے پر تنقید کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:”حبک الشیء یعمی و یعصم“ترجمہ: کسی شے کی محبت تجھے اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔(مسند احمد بن حنبل ،مرویات ابو الدرداء ، جلد6،صفحہ450، دارالفکر ،بیروت)

   نیز ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے یہ وسائل مانگ کر نہیں لیے۔ بلکہ ہمیں اگر کچھ بھی ملتا ہے ، تو وہ مغرب کے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری ہے کہ ان کو مستقل طور پر نئی مارکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کونے کونے میں اپنی منڈیاں کھولے ہوئے بیٹھے ہیں۔

   دوسری بات یہ ہے کہ مغرب ہمیں جو کچھ دے رہا ہے ، ہم سے اس کی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس لیے ہم پر احسان جتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

   تیسری بات یہ کہ مغرب کی ترقی کی بنیاد بڑی حد تک استعماری دور میں پڑی ہے ، جس میں واقعتاً مسلمانوں کی زمینوں سے لوٹے ہوئے وسائل نے ہی مغرب کی مادی ترقی کو  مضبوط کیا۔ اگر مغرب اپنی کامیابیوں کو مفت بھی ہم سے شئیر کرتا ہے ، تو بھی کسی حد تک ہمارا یہ حق تھا چہ جائیکہ ہم سے پورا معاوضہ وصول کر کے اپنی پراڈکٹ اور خدمات ہمیں بیچ کر ہم پر اپنا احسان جتانے لگے۔

   چوتھی بات یہ ہے کہ جووسائل  یورپ کو ان کی حکومتیں مہیا کرتی ہیں،وہی ہمارے ملک کے حکمران کریں ، تو اس ملک کے کئی مسلمان سائنسی ایجادات میں اہم کردار ادا کریں،لیکن ہمارے یہاں لیڈروں نے نوجوان نسل کی سائنسی ایجادات میں حوصلہ افزائی کی بجائے ان کو مہنگائی ، بیروزگاری   یا فری انٹرنیٹ مہیا کرکے ان کو وقت و ذہانت ضائع کرنے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم