Muashra Aur Riyasat Ki Buniyad Mazhab Par Ho Ya Aqal Par

معاشرے اور ریاست کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہیے یا عقل پر؟

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری        

فتوی نمبر:LHR-12526

تاریخ اجراء:05جمادی الاُخریٰ 1445ھ/19 دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سیکولر لوگوں کا مذہبی احکام پر اعتراض ہے کہ  اس  کے نتیجے میں نزاع و افتراق پیدا ہوتا ہے،لہٰذا اسے ترک کرکے عقلی بنیادوں پر معاشرت و ریاست تعمیر کی جانی چاہیے،آپ اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سیکولر، لبرل، سوشلسٹ و مذہب مخالفین  کا یہ نظریہ ہے کہ  مذہب کی بنیاد پر قائم معاشرت و ریاست کبھی امن قائم نہیں کرسکتی، کیونکہ مذہبی اختلافات ناقابل حل ہوتے ہیں،خدا کی مرضی کیا ہے؟ یہ طے کرنا ،ممکن نہیں،نیز مذہب انسان میں یہ اخلاقی ذمہ داری پیداکرتا ہے کہ وہ دوسروں تک اس سچائی کو پہنچائے جو بالآخر جہاد کے نظریے میں تبدیل ہو کر رہتی ہے، لہٰذا انکے خیال میں مذہب کے بجائےعقلی بنیادوں پر معاشرت و ریاست تعمیر کی جانی چاہیے۔

   بے دین لوگوں کی  مذہب کو نظر انداز کرنے کی یہ سوچ بالکل غلط اورمعاشرے  کے لیے نقصان و پستگی کا باعث ہے۔ قرآن و احادیث کے احکام میں کوئی اختلاف نہیں  اور جو جدید مسائل ہیں ، ان میں بھی جو ائمہ کرام کے اقوال ہیں وہ قرآ ن وحدیث ہی کی روشنی میں ہیں اور صدیوں سے مختلف ممالک میں  مختلف فقہ کے مطابق قانونی فیصلے کیے جاتے ہیں ، جس میں کوئی خرابی لازم نہیں آئی ، بلکہ پہلے اَدوار میں جب تک انگریزی قوانین نہیں آئے تھے ، اسلامی قوانین رائج تھے اس وقت ملک و معاشرہ امن کے ساتھ ترقی کی طرف گامز ن تھا۔

   اللہ عزوجل کی مرضی کیا ہے؟وہ قرآنی کثیر آیات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے مطابق زندگی گزارنے اور اسی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا ہے۔قرآن کو چھوڑ کر اپنے آباواجداد یا  عقل کے مطابق  فیصلہ کرنا تو قرآنی تعلیمات کے منافی ہونے کے ساتھ غیردانشمندانہ عمل اور ہلاکت ہے۔ اللہ عزوجل اور اس کے رسول نے جو بھی شرعی حکم ارشاد فرمایا ہے،اس میں کثیر حکمتیں ہیں۔ بعض احکام بظاہر سخت ہوتے ہیں ، لیکن اس کے اندر ہی  فردو معاشرے کی فلاح ہوتی ہے۔

   قرآن پاک میں ہے:﴿اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(۱۱۴)﴾ترجمہ کنزالایمان:تو کیا اللہ کے سوا میں کسی اور کا فیصلہ چاہوں اور وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اُتاری   اور جن کو ہم نے کتاب دی وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے سچ اترا ہے۔تو اے سننے والے !تو ہرگز شک والوں میں نہ ہو۔(سورۃ الانعام،سورۃ 6،آیت114)

   دوسری جگہ ہے:﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ  اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَاۤ  اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَاؕ-اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ(۱۷۰)﴾ترجمہ کنزالایمان:اور جب ان سے کہا جائے اللہ کے اتارے پر چلو   تو کہیں بلکہ ہم تو اس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت۔(سورۃ البقرۃ،سورۃ 2،آیت170)

   مزیدقرآن پاک میں ہے:﴿كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶)﴾ترجمہ کنزالایمان:تم پر فرض ہوا خدا کی راہ میں لڑنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے  اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(سورۃ البقرہ،سورۃ 2،آیت 216)

   مزید فرمایا:﴿وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۷۹)﴾ترجمہ کنزالایمان:اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو کہ تم کہیں بچو۔(سورۃ البقرہ،سورۃ 2،آیت 179)

   جہنم میں لے جانے والے اعمال  نامی کتاب میں ہے:” سود خور کو مرنے سے لے کر قیامت تک اس عذاب میں مبتلا رکھا جائے گا کہ وہ خون کی طرح سرخ نہر میں تیرتا رہے گا اور پتھرکھاتا رہے گا، جب بھی اس کے منہ میں پتھر ڈال دیا جائے گا تو وہ پھر نہرمیں تیرنے لگے گا پھرواپس آئے گا اورپتھر کھا کر لوٹ جائے گا یہاں تک کہ دوبارہ زندگی ملنے تک اسی طرح رہے گا۔ وہ پتھر اس حرام مال کی مثال ہے جو اس نے دنیا میں جمع کیا ،پس وہ اس آگ کے پتھر کو نگلتا رہے گا اور عذاب میں مبتلا رہے گا، اس کے علاوہ بھی عذاب کی کئی انواع اس کے لئے تیار کی گئی ہیں جن کا تذکرہ عنقریب ہو گا۔﴿ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-    ان کے اس شدید عذاب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سودکوبیع کی طرح حلال جانا اور اس غلط اعتقاد کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خیال کیا کہ جس طرح وہ کوئی چیز10درہم میں خرید کر11درہم میں فروخت کرتے ہیں ، خواہ ادھار دیں یانقد،اس طرح 10 درہم کی 11درہم کے عوض ادھاریانقد بیع بھی جائز ہی ہو گی کیونکہ عقلاً جب جانبین راضی ہوں ،تو ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں، لیکن وہ اس بات سے غافل ہو گئے کہ اللہ عزوجل نے ہمارے لئے کچھ حدود مقرر فرما رکھی ہیں اور ہمیں ان سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ہے،پس ہم پر لازم ہے کہ ہم ان حدود کی پاسداری کریں اورانہیں اپنی رائے اور عقل کے ترازو میں نہ پَرکھیں( یعنی نہ توليں )،بلکہ ان کو ہر صورت میں قبول کر لیں خواہ ہماری عقل میں آئيں یا نہ آئيں،اور ہمارے لئے مناسب ہوں یا نہ ہوں، کیونکہ یہی عبودیت وبندگی کا مرتبہ اور شان ہے۔

   کمزور وناتواں،اور فہم و فراست سے قاصر بندے پر لازم ہے کہ اپنے قادر و قوی، علیم و حکیم، رحمن و رحیم اور جبار و عزیز مولیٰ کے احکام کے سامنے سرِتسلیم خم کر دے، کیونکہ جب بھی اس نے اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کیا اور اپنے مالک کے حکم سے روگردانی کی تو اس (مالک الملک ) نے اپنے شدید عذاب سے اس کو ہلاکت و بربادی کے عمیق گڑھے میں پھینک دیا۔“(جھنم میں لے جانے والےاعمال،جلد1،صفحہ716،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

عقل پر کیے گئے فیصلوں کا جائزہ:

   ٭بے دین جو اپنی عقل کو حرف آخر سمجھتے ہیں ان کی اپنی تین سو سالہ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ عقل کے نام پر تراشیدہ نظریات کی آڑ میں جتنے انسانوں کا قتل کیا گیا، جس طرح پوری پوری اقوام کی نسل کشی کردی گئی، جس قدر استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لے کر پورے پورے بر اعظم لوٹ لیے گئے، جس طرح کمزور اقوام کو دبا کر رکھنے کے لیے خود اپنی ہی تراشیدہ اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں ، پوری انسانی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

   ٭مذہب کو رد کرکے جب یہ لوگ عقل کے نام پر آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں، تو ان میں اس بات پر کوئی اتفاق نہیں ہوپاتا ، کہ انسان آزاد کیسے ہوتا ہے؟ اور اس اختلاف کی بنا پر یہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ پھرآزادی کے ہر نظریے پر ایمان لانے والا اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتا ہے کہ پوری انسانیت کو اس سچ سے روشناس کرائے، کیونکہ جب تک THE OTHERS کا وجود ہے اس کے آفاقی سچ کو خطرہ لاحق رہتا ہے، لہٰذا اشتراکیت کا چمپئین روس ہو یا نسل پرست جرمنی اور یا پھر ہیومن رائٹس کا داعی امریکہ، ہر ایک ”انسانیت کی بھلائی“کے نام پر (In the name of people) اپنے نظریے کے فروغ کے لیے لازماً اپنا خود ساختہ ”عَلَم جہاد“ بلند کرتا ہے۔

   ٭  درحقیقت عقل  کا نعرہ لگانے والا خود کوعقل کے جبر کا شکار پاتا ہے۔ عقل کے ہر مخصوص تصور پر یقین کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس تصور پر یقین نہیں رکھتے خود بخودغیر عقلی  irrational بن جاتے ہیں،یعنی عقل کے دائرے سے باہرنکل جاتے ہیں(مثلا جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبرلز کے نزدیک وہ غیر عقلی، جاہل اور وحشی لوگ ہیں)چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عقل کے نام لیوا انتہائی ڈاگمیٹک اور کنزرویٹو ہوتے ہیں اور اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔

   ٭ہم دیکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس پر مبنی لبرل سیکولرازم کا نعرہ لگانے والی یورپی اقوام نے ریڈ انڈین کا قتل عام اسی بنیاد پر کیا کہ یہ انسان نہیں بھینسے (جان لاک کے الفاظ) اور بھیڑئیے (جیفرسن کے الفاظ) ہیں۔ اسی طرح آج امریکہ دنیا بھر میں لوگوں کو نان ہیومن سمجھ کر مارتا ہے اور ان کے قتل کو ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی نہیں سمجھتا  ، کہ ہیومن رائٹس تو ہیومن کے ہوتے ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئی معروضی و آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصور عقلیت کی کوئی آفاقی عقلی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے، لہٰذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازماً کشمکش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئی حل موجود و ممکن نہیں۔

   ٭اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے احکاما ت سے روگردانی کرتے ہوئے جو قوانین ان بے دین لوگوں نے عقل کی بنیادوں پر بنائے اس میں ایک بھی معاشرہ  اخلاقی و معاشی ترقی نہ کرسکا۔ آئے دن ان میں ترامیم کی جاتی ہیں ، بلکہ کئی مرتبہ وہ قانون ہی ختم کردیا جاتا ہے۔

   ٭حیاکو دقیانوسی سوچ قرار دینے والے سیکولر و لبرل  نے بے حیائی کو عام کرکے کون سی ترقی کرلی ہے،بلکہ لوگوں  میں شہوت و درندگی  عام کی ہے کہ لوگ جانوروں سے لے کر چھوٹی بچیوں سے اپنی شہوت پوری کررہے ہیں اور عورتیں سرعام بدکاری پر فخر محسوس کررہی ہیں۔آئے دن بچیوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں۔

   ٭چونکہ عقل پرست سوائے اپنے نفس کے علاوہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتا،لہٰذا اس کی بربریت پھیلانے کی صلاحیت پر کوئی داخلی اخلاقی چیک موجود نہیں ہوتا ، کیونکہ اخلاق اس کے نزدیک ایک سبجیکٹو شے ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنے تراشیدہ اخلاقیات کی ہر خلاف ورزی پر وہ خود کو معاف کرسکتا ہے۔ چنانچہ مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی رارٹی Rorty کہتا ہے کہ یقیناً ہم نے ریڈ انڈینز پر ظلم کیے اور ہمیں اس پر افسوس ہے ، مگر چونکہ ہم خود مختار ہیں ، لہٰذا ہمیں حق ہے، کہ ہم خود کو معاف کردیں(چنانچہ امریکہ ہیومن رائٹس کی تمام تر خلاف ورزیوں کے بعد خود کو معاف کردیتا ہے)یہی وہ علمی بنیاد ہے، جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جدید الحادی تہذیب سے قبل کسی انسانی تہذیب نے اس منظم طور پر نہ تو کبھی انسانی نسل کشی کی اور نہ ہی براعظموں کے براعظم لوٹ لیے اور نہ ہی ایسے مہلک ہتھیار بنانے کا سوچا جس کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو indiscriminately آناً فاناً لقمہ اجل بنایا جاسکے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم