مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8907
تاریخ اجراء: ذوالقعدۃ الحرام1445ھ/23مئی 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ مجھے مذہب کی ضرورت کیوں ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس سوال کا بنیادی جواب تو یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوا کہ خود اپنی زندگی کا نصب العین مقرر کرے، بلکہ جس نے اسے بنایا، اس کے ظاہر و باطن، جسم و روح، قلب و قالب، ذہن و دماغ کو بنایا ہے، وہی خالق بہتر جانتا ہے اور اس بات کا حق دار ہے کہ انسان کے لیے اس کی تخلیق کا مقصد طے کرے اور بیان فرمائےاور وہ مقصد ”عبادت ومعرفتِ الٰہی“ہے۔ اِس مقصد کو اور اس کے حصول کے طریقوں کو جاننے کا صحیح اور کامل ذریعہ ”دین “ ہے، جو ”اسلام“ کی صورت میں موجود ہے۔
اگر ہم عقلی طور پر مزید غور کریں ،تو بہت قوی اور مضبوط دلائل سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ دین انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت و افادیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مذہب فطرتِ انسانی کا حصہ ہے جس کی بہت بڑی دلیل تاریخ کا عظیم تسلسل ہے۔ جب سے تاریخ لکھی گئی تب سے لے کر آج تک اور تاریخ کے لکھے جانے سے پہلے کے انسانوں کے متعلق جو معلومات وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے آرہی ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیشہ سے انسان ایک بالا تر ہستی اور مافوق الفطرت طاقت رکھنے والے خدا کو مانتا آیا ہے۔ تاریخِ انسانی کی کبھی ختم نہ ہونے والی یہ سوچ اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ انسان ہمیشہ ہی سے معبود کا وجود اپنی فطرت میں تسلیم کرتا آیا ہے اور معبود کا ماننا ہی مذہب کا مانناکہلاتا ہے اور یہی بات اس کی دلیل ہے کہ ’’مذہب‘‘نوعِ انسانی کا فطری تقاضا ہے۔
انسان کی پیدائش سے شروع ہونے والا مشاہدہ ٔ کائنات انسان کے وجود میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے،کیونکہ چمکتا سورج، روشن چاند،ٹمٹاتے ستارے، اونچے پہاڑ، زور آور سمندر،بہتے دریا، لہلہاتے کھیت اور آسمان و زمین میں، بلکہ انسانی وجود میں ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں کرشماتی نظام اور خوبیاں کسی صانِع وخالق کے ہونے کی قطعی دلیلیں ہیں۔وجودِ خالق کی سوچ ہی انسان میں خالق کی معرفت کے حصول کا شوق پیدا کرتی ہے۔ مظاہر کائنات کے خالق کے طور پر خدائے واحد ، اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرنے کی اِسی حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:﴿وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمۡ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللہُ﴾ترجمہ:اور اگر تم ان سے پوچھو :آسمان اور زمین کس نے بنائے؟ تو ضرور کہیں گے: ’’اللہ نے‘‘۔(الزمر:38) معبود کو ماننا ہی مذہب کو ماننے کی سب سے پہلی بنیاد ہے ،بلکہ اسی کو مذہب ماننا کہتے ہیں۔
انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے والی چیز انسانی کردار، آپس کے حقوق کا لحاظ اورحقیقی عدل پر مبنی قوانین کی پابندی ہے اور ان تمام چیزوں کو سب سے اچھے طریقے سے صرف مذہب ہی بیان کرتا ہے۔ لامذہبیت میں انسانی کردارصرف جسم اور جنس کے گرد گھومتا ہے، جبکہ آپس کے حقوق میں اپنے ہم وطن تو پورے انسان نظر آتے ہیں، لیکن دوسرے وطن کے لوگ کم تر انسان ہیں اور اسی وجہ سے انہیں کم تر حقوق دئیے جاتے ہیں، خواہ دوسرا انسان علم، عمل اور خدمتِ انسانیت میں کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔ یونہی لامذہبیت میں عدل کی حالت یہ ہے کہ اپنے چند افراد کی موت پر دوسرے ملکوں کو تباہ و برباد کردینا، اپنی معاشی سوچ اور معاشی نظام کے نظام پر دوسرے ملکوں کو رَوند ڈالنا لامذہبیت کے نزدیک عدل ہی ہے،جبکہ مذہب کے نزدیک ظلم ہے۔تاریخ کا مطالعہ اور دورِ جدید کا مشاہدہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اعلیٰ انسانی کردار، باہمی انسانی حقوق اور حقیقی عدل کا سب سے بہترین دستور ”مذہب “ ہی مہیا کرتا ہے کہ وہ مخلوق نہیں، بلکہ خالق کا عطا کردہ ہے، جو کامل علم رکھتا ہے۔
جس لامذہبی نظام میں سب کچھ جسم ہے، قلب و روح کی تسکین کےلیے بھی صرف جنسیت اور مادیت ہی سے غذا پہنچائی جاتی ہے، حالانکہ قلب و روح کی غذا کچھ اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر جنسی و جسمانی خواہشات کی تکمیل کے باوجود ذہنی سکون کی دوائیاں سب سے زیادہ مغربی ، بے دین ممالک میں استعمال کی جاتی ہیں، جبکہ مسلمان اپنی روح کی غذا اپنے دین سے حاصل کرتا ہے اور اسی لیے کٹھن سے کٹھن حالات میں سچا مؤمن پُرسکون ہوتا ہے ۔ اس کے سکون کی بنیاد قرآن مجید یوں بیان فرماتا ہے:﴿اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ﴾ترجمہ:سُن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں ۔(الرعد:28)
خدا نے انسان کو دماغ دیا اور اُس میں عقل ودیعت رکھی، وہ عقل موت وحیات کی حقیقت سمجھنے کے لیے پریشان ہے، اُس میں کہکشاؤں، افلاک، زمینوں اور اربوں مخلوقات کی ابتداء وانتہاء کے متعلق سوالوں کا سیلاب ہے، وہ کائنات کے آغاز اور اِس کے اختتام کے متعلق سوچتی ہے۔ ان تمام کے جواب میں اِتنا کہہ دینا ہرگز ہرگز کافی اور تسلی بخش نہیں کہ یہ سب صرف ایک اتفاقی دھماکہ اور مسلسل اتفاقات کا جہاں ہے، کیونکہ عقل مانتی ہی نہیں کہ کھربوں اتفاقات کچھ زیادہ ہی اتفاق سے واقع ہورہے ہوں۔ عقل واضح، متعین اور معقول جواب مانگتی ہے اور اُن سب سوالات کا صحیح جواب صرف مذہب کے پاس ہے کہ یہ ایک کامل علم و قدرت اور کامل حکمت رکھنے والی ہستی کا فعل ہے، جسے ’’اللہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
(1)مذہب انسان کو امید اور قوت بخشتا ہے۔ مشکلات میں مایوسی اور برے حالات میں تنگ دلی سے بچاتا ہے۔ صدموں اور پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کی جرا ٔت و ہمت دیتا ہے، کیونکہ اس کا بھروسہ اس ذات پر ہوتا ہے ،جو لامتناہی علم، قدرت اور رحمت رکھتی ہے۔ خالق ومالک ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَلَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوْحِ اللہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوۡنَ﴾ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔(یوسف:87)
(2)مذہب اور خدا کو نہ ماننے والا صرف قانون اور پولیس سے ڈرتا ہے، جبکہ مذہب کو ماننے والا جلوت وخلوت، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اسی کے ڈر سے وہ جُرم اور گناہ سے بچتا ہے ،کیونکہ وہ آخرت کی سزا وجزا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے اعمال کے متعلق محتاط رہتا ہے، جبکہ لامذہب کو روکنے والی ایسی کوئی چیز نہیں۔
(3)مذہب عالمگیر رشتۂ اخوت قائم کرتا ہے۔ ارشادِ الہٰی ہے:﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ﴾ترجمہ: صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔ اور اِسی رشتۂ اخوت کی وجہ سے مشرق و مغرب کے طویل فاصلوں پر رہنے والے ایک دوسرے کا خیال اور مدد کرنے کےلیے تیار رہتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں انسانیت کے نعرے لگانے والے صرف اپنی قومیت، رنگ اور وطن کا رشتہ رکھنے والوں کو اہمیت دیتے ہیں اور باقی پوری دنیا کے انسان اُن کے لیے ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اوپر بیان کردہ خوبیوں اور دیگر ہزاروں محاسن کا جامع مذہب، صرف”اسلام“ ہے اور اسی کے ساتھ یہ تمام فضائل و فوائد وابستہ ہیں اور وہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے:﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ﴾ترجمہ:بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔(آلِ عمران:19)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟