Lafz Khuda Ke Mayne Ki Wazahat

لفظ خدا کے معنی کی وضاحت

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2004

تاریخ اجراء: 01ربیع الاول1445 ھ/18ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ     لفظِ"خدا"کے یہ معنی بیان کرنا کہ خود آیا یعنی خود سے آیا      سب کو خدا نے پیدا کیا  اور وہ خود سے آیا ۔ لوگوں میں    خاص یا عام شخص   کا اس طرح  کے معانی بیان کرنا کیسا ہے ؟کیونکہ اس میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ پہلے خدا موجود نہیں تھا پھر خود سے آیا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لفظ ِ خدا فارسی کا لفظ ہے جو دو مختلف الفاظ سے مرکب ہے ۔اس لفظ کا لغوی معنی یہ ہے کہ جوخودآیا ۔ اللہ پاک کے حق میں یہ معنی درست نہیں ۔ اللہ پاک کیلئے خد ا کا لفظ  خود  سے ہونے کے معنی میں ہے یعنی جو خود  سے موجود  ہو ،اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ ہو ۔اللہ تعالی واجب الوجود لذاتہ ہے یعنی  ازل سے بذات خود قائم ہے، کسی غیر کا محتاج نہیں ۔لہذا لفظِ خدا کایہ معنی کہ "خود سے آیا"   کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس میں یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ   پہلے خدا موجود نہیں تھا پھر  وجود میں آیا بلکہ اس کا معنی "خود سےموجود یا واجب الوجود " والےکرنا چاہئیں  ۔   

   چنانچہ تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  : ’’الاسم العاشر: قولنا: "واجب الوجود لذاته" ومعناه أن ماهيته وحقيقته هي الموجبة لوجوده، وكل ما كان كذلك فإنه يكون ممتنع العدم والفناء ……..وقولهم بالفارسية "خداي "معناه أنه واجب الوجود لذاته لأن قولنا: "خداي" كلمة مركبة من لفظتين في الفارسية: إحداهما: خود، ومعناه ذات الشيء ونفسه وحقيقته والثانية قولنا: "آي" ومعناه جاء، فقولنا: "خداي" معناه أنه بنفسه جاء، وهو إشارة إلى أنه بنفسه وذاته جاء إلى الوجود لا بغيره، وعلى هذا الوجه فيصير تفسير قولهم:" خداي" أنه لذاته كان موجودا  ‘‘ترجمہ : اللہ تعالی کا دسواں نام  ہمارا یہ قول ہے کہ   اللہ تعالی واجب الوجود لذاتہ ہے اوراس کا معنی یہ ہے کہ  اس کی حقیقت وماہیت اس کے وجود کو لازم ہے ۔اور جو بھی اسی طرح ہو  اس  کا نہ ہونا اور فنا ہونا ممتنع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔اور ان کا قول فارسی میں "خدای "اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی واجب الوجودلذاتہ ہے ۔کیونکہ ہمارا قول" خدای"فارسی کے دو مختلف لفظو ں سے مرکب ہے  ۔ایک لفظ خود  ہے جس کا معنی شےکی حقیقت    وماہیت اور ذات ہے ۔اور دوسرا لفظ "آی"اور اس کا معنی ہے آیا ہے۔تو ہمارا قول" خدای"اس کا معنی یہ ہے کہ وہ بذات خود آیا  اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ  اپنی ذات ونفس کے ساتھ وجود میں آیا کسی غیر کی وجہ سے نہ آیا ۔اور اسی طور پر  ان کے اس قول "خدای "کی تفسیر یہ ہے کہ    اللہ تعالی بذات خود موجود ہے۔( تفسیر کبیر ،  الباب الرابع فی بحث عن الاسماء الدالۃ علی الصفات الحقیقیۃ، ج01،ص 122،دار احیاء التراث العربی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم