کیا قرآنِ پاک کے عموم و اطلاق سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا استدلال کرنا ثابت ہے ؟ |
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری |
فتوی نمبر:Pin-6823 |
تاریخ اجراء:30محرم الحرام 1443ھ08ستمبر2021ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا قرآن پاک کے عموم و اطلاق سے استدلال کرنا صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت ہے؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
صحابہ کرام علیہم الرضوان سے قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ کے عموم و اطلاق سے استدلال فرمانا ثابت ہے، ان کے دور میں پیش آنے والے مختلف واقعات میں خصوصی شانِ نزول والی آیات کے الفاظ کے عموم سے استدلال فرمانا صحابہ کرام میں شائع و ذائع تھا،جیسا کہ ہمارے کئی اکابرین نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”من الادلۃ علی اعتبار عموم اللفظ احتجاج الصحابۃ و غیرھم فی وقائع بعموم آیات نزلت علی اسباب خاصۃ شائعا ذائعا بینھم“ترجمہ:قرآنی آیات کے لفظوں کے عموم کے معتبر ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور دیگر ائمہ کا خاص واقعے کے متعلق نازل ہونے والی آیات سے عمومی پیش آمدہ واقعات پر استدلال کرنا شائع و ذائع ہے۔ (الاتقان فی علوم القرآن، ج1، ص73، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت) حضرت رئیس المتکلمین علامہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”استدلال، عموم و اطلاق سے، اہل اسلام میں از عہد صحابہ کرام بلا نکیر جاری ہے اور عقلِ سلیم (کہ شوائبِ اوہامِ باطلہ سے پاک ہے) اس کی صحت پر حکم کرتی ہے۔مسلم الثبوت میں ہے:”و ایضا شاع و ذاع احتجاجھم سلفا و خلفا بالعمومات من غیر نکیر“ پھر لکھتے ہیں :”وذلک کاحتجاج عمر رضی اللہ عنہ علی ابی بکر فی قتال مانعی الزکاۃ بقولہ (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ )فقررہ و احتج بقولہ علیہ السلام (الا بحقھا) و ابی بکر رضی اللہ عنہ بقولہ علیہ السلام :”الائمہ من قریش“و بقولہ علیہ السلام (انا معشر الانبیاء لانورث ما ترکناہ صدقۃ ) “ (اصول ا لرشاد، ص116،دار اھل السنۃ للطباعۃ و النشر و التوزیغ ، کراچی) متعدد احادیث طیبہ ایسی ہیں کہ جن کے عموم سے صحابہ کرام نے مختلف جگہ استدلال فرمایا جیسا کہ اوپر بیان کردہ اصول الرشاد کے اقتباس میں اس کی کچھ امثلہ بیان کی گئی ہیں، لیکن یہاں ذیل میں صرف چند ایسی قرآنی آیات کوبیان کیا جا رہاہے کہ جن کے عموم و اطلاق سے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے استدلال فرمایا ہے۔ (1)حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کفار کے متعلق نازل ہونے والی آیت سے خوفِ خداعزوجل پر استدلال کیا: حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:’’استسقى يوما عمر فجیء بماء قد شيب بعسل فقال:انه لطيب لکنی اسمع اللہ عز وجل نعى على قوم شهواتهم فقال: ﴿ اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰتِکُمْ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمۡ بِہَا﴾فاخاف ان تكون حسناتنا عجلت لنا فلم يشربه‘‘ترجمہ: ایک دن حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پانی مانگا ،توایسا پانی لایا گیا ،جس میں شہد ملایا گیا تھا (یعنی لذیذ شربت بنایا گیا تھا)۔آپ نے فرمایا: یہ بہت اچھا ہے( مگر) میں سنتاہوں کہ اللہ تعالی نے ایک قوم کی ان کی خواہشات کی وجہ سے برائی بیان فرمائی ہے کہ ’’تم اپنے حصہ کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کر چکے اور انہیں برت چکے ‘‘میں ڈرتا ہوں کہ ہماری نیکیاں جلدی دے دی گئی ہوں ،چنانچہ آپ نے وہ نہ پیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ج3، ص1448،رقم الحدیث 5266، المکتب الاسلامی ، بیروت) اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں قرآن پاک کی ایک اور آیت﴿مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصْلٰىہَا مَذْمُوۡمًا مَّدْحُوۡرًا﴾نقل کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:”قلت: الآيتان وان كانتا انزلتا فی الكفار، لكن العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ یہ دونوں آیات اگرچہ کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ،لیکن اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے ،نہ کہ خصوص سبب کا ۔ (مرقاۃ المفاتیح ،ج8،ص3296،دار الفکر،بیروت) (2)سورۃ العلق میں وارد آیت ِ مبارکہ میں موجود لفظ ”عبدا“ کے عموم سے استدلال : مجمع الزوائد میں ہے:” وعن الوليد بن سريع مولى عمر وابن حريث قال : خرجنا مع أمير المؤمنين علي بن أبي طالب في يوم عيد فسأله قوم من أصحابه فقالوا : يا أمير المؤمنين ما تقول في الصلاة يوم العيد قبل الصلاة وبعدها ؟ فلم يرد عليهم شيئا ثم جاء قوم فسألوا كما سألوه - الذين كانوا قبلهم - فما رد عليهم فلما انتهينا إلى الصلاة وصلى بالناس فكبر سبعا وخمسا ثم خطب الناس ثم نزل فركب فقالوا : يا أمير المؤمنين هؤلاء قوم يصلون ؟ قال : فما عسيت أن أصنع سألتموني عن السنة ؟ إن النبي صلى اللہ عليه و سلم لم يصل قبلها ولا بعدها فمن شاء فعل ومن شاء ترك أتروني أمنع قوما يصلون فأكون بمنزلة من منع عبدا إذا صلى “ترجمہ:ولید بن سریع جو عمرو بن حریث کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عید کے دن امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے۔آپ کے ساتھیوں میں سے کچھ افراد نے پوچھا کہ اے امیر المؤمنین ! عید کے دن عید گاہ میں نمازِ عید سے پہلے اور بعد نفل نماز پڑھنے کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ بھی جواب ارشاد نہ فرمایا۔پھر کچھ لوگ آئے اور انہوں نے بھی وہی سوال کیا، جو پہلے لوگوں نے کیا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ جواب ارشاد نہ فرمایا۔پس جب ہم عید گاہ پہنچے اور انہوں نے لوگوں کو نمازِ عید پڑھائی ، تو سات اور پانچ مرتبہ تکبیر کہی ۔ پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا، پھر منبر سے نیچے تشریف لائے۔سواری پر سوار ہوئے ، تو لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے لائق نہیں کہ میں کچھ کروں۔تم مجھ سے سنت کے متعلق پوچھتے ہو؟ (تو اس کاجواب یہ ہے کہ )نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نمازِ عید سے پہلے اور بعد کوئی (نفل )نماز نہیں پڑھی۔تو جو چاہے، اس پر عمل کرے اور جو چاہے، اس پر عمل نہ کرے۔کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ میں ان لوگوں کو منع کروں ، جو نماز پڑھ رہے ہیں کہ میں اس بندے کے درجے میں ہو جاؤں کہ جو نماز سے لوگوں کو روکنے والا ہے۔ (مجمع الزوائد، ج2، ص438،رقم الحدیث 3236، دار الفکر، بیروت) درمختار میں اسی روایت کو یوں بیان کیا گیا ہے:” أن عليا رضي اللہ عنه رأى رجلا يصلي بعد العيد فقيل أما تمنعه يا أمير المؤمنين؟ فقال أخاف أن أدخل تحت الوعيد قال اللہ تعالى ﴿ اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنْہٰی ، عَبْدًا اِذَا صَلّٰی ﴾ ترجمہ:بے شک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ عید کے بعد نماز پڑھ رہا ہے،تو آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ا ے امیر المؤمنین ! آپ اسے منع کیوں نہیں فرماتے؟تو فرمایا کہ میں خوف کرتا ہوں کہ میں قرآن پاک کی اس وعید کے تحت داخل نہ ہو جاؤں کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہےبندے کو جب وہ نماز پڑھے۔“ (درمختار، ج2، ص171،دار الفکر، بیروت) ثابت ہوا کہ نمازِ عید کے بعد نوافل پڑھنے والوں کو منع کرنے کی ممانعت پر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس آیت مبارکہ میں موجوداسمِ نکرہ ”عبدا“ سے نہی مذکور کے عموم پر استدلال فرمایا۔ (3)کنز کے متعلق حکمِ قرآنی میں مسلمان بھی داخل ہیں: حضرت وہب بن زید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ”مررت على أبي ذر رضی اللہ عنه بالربذة فقلت: ما أنزلك بهذه الأرض قال: كتاب ا لشام فقرأت ﴿وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴾فقال معاوية: ما هذا فينا هذه في أهل الكتاب قلت أنا: إنها لفينا وفيهم “ترجمہ:میں ربذہ کے مقام پر حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا ، تو میں نے کہا کہ آپ کو کیا چیز اس سرزمین پر لے آئی؟ انہوں نے کہا کہ شام کا خط۔(پھر تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ )میں نے اس آیت مبارکہ ﴿ وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴾ کو پڑھا، تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ ہمارے بارے میں نہیں ہے، یہ اہل کتاب کے متعلق ہے۔میں نے کہا کہ یہ ضرورہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے متعلق بھی۔ (تفسیر درمنثور، ج4، ص180،دار الفکر، بیروت) یہ آیت اگرچہ اہل کتاب کے بارے میں اتری ، لیکن حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اس آیت مبارکہ کے حکم کے عموم کا قول فرمایا۔ (4)مہر کے متعلق وارد آیتِ مبارکہ میں لفظ ”قنطارا“ کے عموم و اطلاق سے استدلال: حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” لقد خرجت أنا أريد أن أنهى عن كثرة مهور النساء حتى قرأت هذه الآية: ﴿وَّاٰتَیۡتُمْ اِحْدٰىہُنَّ قِنۡطَارًا﴾“ترجمہ:میں اس ارادے سے نکلا کہ عورتوں کے زیادہ مہر رکھنے سے منع کروں حتیٰ کہ میں نے آیتِ مبارکہ ﴿ وَّاٰتَیۡتُمْ اِحْدٰىہُنَّ قِنۡطَارًا﴾پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی، ج3،ص380، رقم الحدیث 14335،دار الکتب العلمیہ، بیروت) اورامام بیہقی نے اس سے اگلی روایت میں اس واقعے کی تفصیل یوں بیان کی ہے :”خطب عمر بن الخطاب رضي اللہ عنه الناس فحمد اللہ تعالى وأثنى عليه وقال: ’’ ألا لا تغالوا في صداق النساء، فإنه لا يبلغني عن أحد ساق أكثر من شيء ساقه رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أو سيق إليه إلا جعلت فضل ذلك في بيت المال ‘‘ ثم نزل ، فعرضت له امرأة من قريب ، فقالت: يا أمير المؤمنين أكتاب اللہ تعالى أحق أن يتبع أو قولك؟ قال: ’’ بل كتاب اللہ تعالى ، فما ذاك؟ ‘‘ قالت: نهيت الناس آنفا أن يغالوا في صداق النساء واللہ تعالى يقول في كتابه: ﴿ وَّاٰتَیۡتُمْ اِحْدٰىہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنْہُ شَیْـًٔا ﴾فقال عمر رضي اللہ عنه: ’’ كل أحد أفقه من عمر ‘‘ مرتين أو ثلاثا ، ثم رجع إلى المنبر فقال للناس: ’’ إني كنت نهيتكم أن تغالوا في صداق النساء ألا فليفعل رجل في ماله ما بدا له “ترجمہ:حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔ حمد و ثناء کے بعد فرمایا: خبردار! عورتوں کے مہر بہت زیادہ نہ رکھو۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو مہر رکھا، جو اس سے زیادہ رکھے گا، میں زیادتی کو بیت المال میں جمع کر دوں گا، پھر آپ اترے، تو ایک عورت نےآکر کہا: اے امیر المؤمنین ! اللہ کی کتاب اتباع کے زیادہ لائق ہے یا آپ کا قول؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب۔تو مسئلہ کیا ہے؟اس عورت نے کہا :آپ نے ابھی لوگوں کو منع کیا ہے کہ وہ عورتوں کا زیادہ مہر مقرر نہ کریں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے:﴿ وَّاٰتَیۡتُمْ اِحْدٰىہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنْہُ شَیْـًٔا ﴾ترجمہ:اور اسے(زوجہ کو مہر میں ) ڈھیروں مال دے چکے ہو، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (بطورِ عاجزی )دو یا تین مرتبہ فرمایا: ہر کوئی عمر سے زیادہ فقاہت والا ہے۔پھر آپ منبر کی طرف لوٹے اور لوگوں کو فرمایا: میں نے تمہیں زیادہ مہر مقرر کرنے سے روکا تھا، پس اب جوشخص جتنا چاہے مہر مقرر کرے، اسے اجازت ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی، ج3،ص380، رقم الحدیث 14336،دار الکتب العلمیہ، بیروت) حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت میں موجود لفظ ”قنطارا“ کے اطلاق سے استدلال کر کے یہ حکم بیان فرمایا کہ جب قرآن نے مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار مقرر نہیں فرمائی ،بلکہ اسے بغیر کسی قید کے مطلق رکھا ہے، تو میں بھی اسے مقرر نہیں کرتا۔ (5)چوری کی سزا کا حکم عام: حضرت نجدہ بن الحنفی بیان کرتے ہیں:” سالت ابن عباس عن قولہ ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا﴾ اخاص ام عام ؟ قال: بل عام “ترجمہ:میں نے آیتِ سرقہ ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا﴾کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ یہ حکم خاص ہے یاعام؟ تو فرمایا کہ یہ حکم عام ہے۔ (تفسیر درمنثور، ج3، ص73، دار الفکر، بیروت)(تفسیر ابن کثیر،ج3ِص108، دار طیبۃ للنشر و التوزیغ) امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے اسے یوں بیان فرمایا ہے:” وقد ورد عن ابن عباس ما يدل على اعتبار العموم فإنه قال به في آية السرقة مع أنها نزلت في امرأة سرقت قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن الحسين حدثنا محمد بن أبي حماد حدثنا أبو ثميلة بن عبد المؤمن عن نجدة الحنفي قال: سألت ابن عباس عن قوله: ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا﴾ أخاص أم عام؟ قال: بل عام “ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد ہوا کہ جو عمومِ آیت کے معتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے آیتِ سرقہ کے حکم کے عموم کا فرمایا ، باوجودیکہ وہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی کہ جس نے چوری کی تھی۔۔(آگے وہی روایت ہے)۔ (الاتقان فی علوم القرآن، ج1، ص74، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟