Kya Qiyamat Ke Din Bete Ka Hisab Waldain Ko Dena Hoga ?

کیا قیامت کے دن بیٹے کا حساب والدین کو دینا ہوگا ؟

مجیب: ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری

فتوی نمبر:Web-912

تاریخ اجراء: 21شوال المکرم 1444 ھ/12 مئی 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا بیٹے کا حساب بروز قیامت والدین کو دینا ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بچوں کی اخلاقی اور شرعی لحاظ سے تربیت کرنا اور انہیں آخرت میں عذاب کا سبب بننے والے امور سے بچانا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے۔اگر والدین نے اپنےچھوٹے بچوں کی شرعی اعتبار سے صحیح تربیت نہیں کی ، انہیں سمجھداری کی عمر کے بعد بھی  نماز روزے اور دیگر بنیادی عبادات کی طرف لانے اور سکھانے سے روگردانی کی، تو اس کی پوچھ گچھ اور مؤاخذہ والدین سے ہوسکتا ہےاسی طرح بالغ اولاد کی اصلاح بھی والدین کی ذمہ داری ہے ، البتہ والدین  کی طرف سے تربیت  کرنے، اصلاح کرنےاور حتی الامکان سمجھانے کے باوجود بالغ اولاد از خود گناہوں کے ارتکاب میں مشغول رہی تو اس کا  مؤاخذہ اور حساب  اولاد سے ہی   ہوگا۔

   اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:” یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ “ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو ! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤجس کے اِیندھن آدَمی اور پتَّھر ہیں۔(القرآن، پارہ 28، سورہ تحریم، آیت 6)

   امیرِ اہلسنت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ مذکورہ آیتِ پاک نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: ”حضرتِ مولائے کائنا ت،عَلیُّ الْمرتَضٰی شیرِ خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم بیان کردہ آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:خود بھی بھلائی کی باتیں سیکھو اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی نیکی کی باتیں اور ادب سکھاؤ۔(جمع الجوامع للسیوطی ،حدیث6776) ۔فتاوٰی رضویہ جلد24صَفْحَہ 370سے (بالغ اولاد کی اصلاح سے متعلق )ایک معلوماتی فتویٰ آسان کر کے پیش کرنے کی سعی کی ہے،مُلاحَظہ فرمایئے:سُوال:بالغ اولاد کو نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے منع کرنا والِدَین پر فرض ہے یا واجِب ؟ الجواب:جس فِعل(کام)کی جو شرعی حیثیت ہے والِدَین کیلئے اِصلاح کے تعلُّق سے شرعًا ویسا ہی حکم ہے یعنی فرض پر فرض،واجِب پر واجِب،سنّت پرسنّت،مستحب پرمستحب مگر بشرطِ قدرت بقدرِ قدرت بَاُمّیدِ مَنفَعَت(یعنی جتنی قدرت ہو اُسی کے مطابِق اِصلاح کی بات کہیں جبکہ نفع کی اُمید ہو)ورنہ(حکمِ قراٰنی واضِح ہے کہ:)”عَلَیۡکُمْ اَنۡفُسَکُمْ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمْ ؕ“(ترجَمۂ کنزالایمان: تم  اپنی فکر رکھوتمہارا کچھ نہ بگاڑے گا جو گمراہ ہواجب کہ تم راہ پر ہو۔) “(نیکی کی دعوت، حصہ اول،صفحہ 571،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم