Kya Qayamat Ke Din Tamam Log Be Libas Honge? Tafseeli Fatwa

 

کیا قیامت کے دن تمام لوگ بے لباس ہوں گے؟تفصیلی فتوی

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8214

تاریخ اجراء:13 رجب المرجب1444ھ/05 فروری 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے سنا ہے کہ بروزِ محشر تمام لوگ برہنہ ہوں گے، کیا یہ بات درست ہے؟ اگر ایسے ہی ہے،تو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم اور اولیائے عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ بھی بے لباس ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حدیثِ مبارک ہے کہ بروزِ محشر لوگ ننگے پاؤں، بے لباس اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور خصوصی اِنعام کی بدولت  انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور اولیائے عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ   لباس کےساتھ ہی ہوں گے۔ بے لباس ہونے کی روایت عام امتیوں کے حق میں ہے۔خواص اہلِ ایمان  میدانِ قیامت میں  ہرگز برہنہ نہ ہوں گے۔

   بروزِ محشر لوگوں کی حالت کے متعلق دونوں طرح کی روایات مروی ہیں،  یعنی ایک جگہ مطلقاً فرمایا گیا کہ لوگ برہنہ ہوں گے، جبکہ دوسری طرف ایسی روایات بھی ہیں کہ جن سے مخصوص اہلِ محشر کا بالباس ہونا ثابت ہوتا ہے، چنانچہ  دونوں طرح کی روایات  اور اُن  کے مابین محدثین کی بیان کردہ توفیقات وتطبیقات بیان کی جاتی ہیں۔

   برہنہ ہونے کے متعلق روایت:

   امیر المؤمنین فی الحدیث  امام محمد بن اسماعیل بخاری  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:256ھ/870ء) روایت  کرتے  ہیں کہ  حضور شافعِ محشر  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تحشرون حفاة عراة غرلا قالت عائشة:فقلت: يا رسول اللہ، الرجال والنساء ينظر بعضهم إلى بعض، فقال: الأمر أشد من أن يهمهم ذاك ‘‘ ترجمہ:بروزِ قیامت تم لوگ ننگے پاؤں، ننگےبدن اور بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!کیا مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا:اے عائشہ(رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا)! وہ حال اِس سے بہت سخت تَر ہو گا کہ کوئی کسی کی طرف نظر اٹھا سکے۔(صحیح البخاری، جلد08،  صفحہ 110، مطبوعہ دار طوق النجاہ، بیروت)

   اِس روایت سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ بروزِ محشر سب لوگ برہنہ پَا  وبدن ہوں گے، لیکن اگلی دو روایات سے واضح ہو گا کہ ”بَعْث بعد الموت“ کے وقت بہت سےلوگ لباس میں ہوں گے۔

   چنانچہ امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث  سجستانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:275ھ/889ء)اور دیگر مختلف محدثین یہ روایت نقل  کرتے ہیں:’’عن أبي سعيد الخدري  أنه لما حضره الموت، دعا بثياب جدد فلبسها، ثم قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول:إن الميت ‌يبعث ‌في ‌ثيابه التي يموت فيها‘‘ ترجمہ:حضرت ابو سعید خُدری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ جب اُن کا وقتِ وصال قریب آیا ،تو اُنہوں نے نئے کپڑے منگوائے اور پہن لیے۔ پھر فرمانے لگے: میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ  میت کو انہی کپڑوں میں اٹھایا جائے گا،  جن میں اُس کا انتقال ہوا۔(سنن ابی داؤد، جلد03، صفحہ 190، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ،بیروت)

   علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:911ھ/1505ء) حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی اثر روایت کرتے ہیں:’’أحسنوا أكفان موتاكم فإنهم يبعثون فيها يوم القيامۃ“ ترجمہ:اپنے مُردوں کا کفن عمدہ اور اچھا رکھو کہ بروزِ قیامت محشر کے لیے  اُنہیں اِسی کفن میں اٹھایا جائے گا۔(البدور السافِرۃ فی احوال الآخرہ، صفحہ 118، مطبوعۃ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   توفیقات  وتطبیقات :

   ذیل میں مذکورہ بالا روایات کی مختلف توفیقات بیان کی جائیں گی۔

    (1)احادیث دو مختلف گروہوں کے متعلق مروی ہیں۔

   امام ابو بکر بیہقى رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:458ھ/1066ء)تطبیق دیتے ہوئے لکھتےہیں  کہ کلماتِ حدیث میں حصر نہیں، لہذا دونوں طرح کی روایات  کا محمل دو مختلف  گروہ ہیں، یعنی ایک گروہ بروزِ حشر لباس میں ہو گا اور دوسرا بے لباس ہو گا، چنانچہ  البُدُور السافِرۃ فی اَحوال الآخرۃ “ میں ہے:’’ان بعضھم یحشر عاریا وبعضھم یحشر بثیابہ‘‘ ترجمہ: واضح ہے۔(البدور السافِرۃ فی احوال الآخرۃ، صفحہ 118، مطبوعۃ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

    (2)تعارُض فی الحدیث اختلافِ محل کے سبب ہے۔

   امام ابو بکر بیہقى رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  دوسری تطبیق یوں بیان کرتے ہیں کہ پہلی حدیث(حفاۃً عراۃً) مقامِ محشر کےمتعلق ہے اور  دوسری احادیث قبروں سے اٹھائے جانے کے وقت کے متعلق ہیں، یعنی یوں ہو گا کہ مُردے جب قبروں سے برآمد ہوں گے،تو  بالباس یعنی اپنے کفنوں میں ہی ہوں گے،جیسا کہ روایتِ ابو داؤد اور اثرِ عمر  فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ میں مروی ہے،  لیکن بعد میں حشر  ومحشر کی ہولناکی اور سختی کے سبب اُن کے لباس گر جائیں گے اور وہ برہنہ ہو جائیں گے۔اِسی کتاب میں ہے:’’یحشرون من القبور بثیابھم التی ماتوا فیھا ثم تتناثر عنھم عند ابتداء الحشر فیحشرون عراۃ‘‘ ترجمہ:مُردوں کو اُن کی قبروں سے اُنہی کپڑوں میں اٹھایا جائے گا، جن میں اُنہیں کفنایا گیاتھا ، لیکن پھر محشر کی ہولناکیوں کے سبب ابتدائے حشر میں  ہی اُن کے کپڑے گِر جائیں گے اور پھر ننگے ہونے کی حالت میں ہی اُنہیں جمع کیا جائے گا۔(لیکن یہ بھی سب کے لیے نہیں ،بلکہ  خاصانِ خدا کو بہترین لباس  پہنایا جائے گا۔) (البدور السافِرۃ فی احوال الآخرۃ، صفحہ 118، مطبوعۃ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   (3)”ثِیاب“سے مراد عمل ہے۔

   یہ تطبیق حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:852ھ/1449ء) نے بیان کی ہے کہ لباس سے مراد عمل ہے، یعنی بروزِ محشر بے لباس ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن کے نامہ عمل ، اعمالِ خیر سے خالی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے اعمالِ صالحہ پر مشتمل ہوں گے، چنانچہ قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’حمله بعض أهل العلم على العمل وإطلاق الثياب على العمل وقع في مثل قوله تعالى﴿ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَیْرٌ ترجمہ:بعض اہلِ علم نے لباس کو عمل پر محمول کیا ہے اور ” ثیاب“ کا ”عمل“ پر  اِطلاق فرمانِ باری تعالیٰ میں بھی وارِد ہوا ہے، چنانچہ فرمایا گیا﴿ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَیْرٌ ترجمہ:اور پرہیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے۔ (فتح الباری  شرح صحیح بخاری ، جلد 11 ، باب الحشر، صفحہ  383، دار المعرفہ  ، بیروت )

   خاص بندگانِ خدا کے بروز ِ قیامت بہترین لباس پہننے پرایک عمدہ  دلیل :

   قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں پرہیز گاروں اور صالحین کےاندازِ حشر کی لاجواب  شان بیان کی گئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿ یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا﴾ترجمہ کنز العرفان :” یاد کرو جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کی طرف مہمان بنا کرلے جائیں گے ۔‘‘ (پ 16، سورۃ مریم 85)

   اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین نے مختلف احادیث نقل کی ہیں، جن میں یہی بیان کیا گیا کہ اہلِ تقویٰ، صالحین، عبادت گزار اور نیک لوگوں کا حشر کس عالی شان انداز میں ہو گا، چنانچہ اُن روایات کے مضامین سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ جب اِن لوگوں کا حشر ہو گا، تو اِن کے پاس  استقبال کے لیے نوری فرشتے آئیں گے، بشارتیں دیں گے، بے نظیر بہشتی اونٹنیاں پیش کی جائیں گی، کہ جن کے کجاوے سونے کے اور مُہاریں زَبَرْجَد(زردی مائل سبز رنگ کا ایک قیمتی پتھر) کی ہوں گی۔ اُنہیں ایسی جوتیاں پہنائی جائیں گی کہ جن کے نوری تسموں سے انتہائے نگاہ تک جگمگاہٹ پھیل جائے گی اور اللہ تعالیٰ اُنہیں ”الفزع الاکبر“ یعنی سب سے بڑی گھبراہٹ  سے وحشت میں مبتلا نہ فرمائے گا۔

   اب جب اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے لیے یوں عالیشان حشر فرمائے گا، تو کیا اُنہیں ایسا لباس مہیا نہ فرمائے گا کہ جس سے وہ سب سِتر بدن کر سکیں، حالانکہ بدن کا چھپانا، سواری اور جوتوں سے زیادہ اہم ہے، تو معلوم ہوا کہ یقیناً اُنہیں لباس بھی عطا کیے جائیں گے۔ اِس کی تائید ”جامِع الاصول“ کی اُس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جہاں خود نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے حق میں ارشاد فرمایا کہ میں سب سے پہلے اپنی قبرِ انور سے اٹھوں گا اور مجھے فوراً جنتی جوڑا پہنا دیا جائے گا، چنانچہ”جامع الترمذی“ ”مشکوٰۃ المصابیح“اور”جامع الاصول“میں ہے : اللفظ للجامع روایۃً عن الترمذی:’’أنا أول من تنشق عنه الأرض فأكسى الحلة من حلل الجنة‘‘ ترجمہ:سب سے پہلے مجھے قبر سے اٹھایا جائے گا اور پھر مجھے جنتی جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا۔(جامع الاصول، جلد 08، صفحۃ  528، مطبوعہ مكتبة دار البيان)

   فقیہ اعظم ابو الخیر  مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1403ھ/1982ء) لکھتے ہیں:’’ (حفاۃً عراۃً) کا  خطاب امت کو ہے، جس کاظاہر یہ ہے کہ حضرات انبیائےکرام سب مستثنیٰ ہیں اوروہ سب بِفَضْلِہٖ تعالیٰ لباس میں ہوں گے، ہاں تشریفی خِلعتیں بھی علیٰ حسب ِالمدارج، اُن حضرات کے لیے وارد ہیں، بہرحال اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ امتی ننگے ہوں گے۔(خواص مؤمنین ننگے نہ ہوں گے۔)‘‘(فتاویٰ نوریہ ،جلد05، صفحہ125، مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

   چند صفحات بعد لکھا:’’آیاتِ متکاثرہ  اور اَحادیثِ مُتَواترہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام اور اولیائے عظام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ  کا حشر بھی لباس میں ہوگا کہ یہ سب حضرات مُنْعَم عَلَیہم ہیں اور ان کے لیے  حضرات ِانبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت ورفاقتِ خاصہ بَحکمِ قرآن کریم صراحۃً ثابت ہے۔ پ 5 ع6 میں ہے ﴿ وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ  وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا﴾اِس انعام ومعیت ورفاقت سے ہی واضح ہورہا ہے کہ وہ بھی انبیائےکرام  کی معیت میں لباس میں ہوں گے ، بالخصوص جبکہ یہ حضرات ہیں ہی صدیقین یاشہدا سے یا صالحین۔‘‘(فتاویٰ نوریہ ،جلد05،صفحہ129،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

   تمام کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ ، اولیائے عظام،صدیقین،شہداء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بالباس اور شان دار خِلعتوں میں ملبوس ہوں گے۔جہاں تک لوگوں کے ننگے ہونے کی  روایت ہے، تو  اُس سے مراد عام اُمتی ہیں اور اُن کے بے لباس ہونے میں بھی ایسا نہیں کہ دوسرے بُری نظر سے اُن کا سِتر دیکھیں گے، بلکہ وحشتِ حشر آنکھوں کو اِس قابل ہی نہ چھوڑے گی کہ لوگ  اپنے مآل  اور انجام کی فکر چھوڑ کر کسی کے سِتر کی جانب نظر پھیر سکیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم