Pakistan Secularism Ki Bunyad Par Bana Tha?

 

پاکستان سیکولراِزم کی بنیاد پر بنا تھا؟

مجیب:   ابو احمد محمد انس رضا عطاری
مصدق: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری     

فتوی نمبر: -12623 Lhr

تاریخ اجراء: 03 رجب المرجب 1445ھ/15 جنوری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سیکولر لوگ کہتے ہیں ” پاکستان اسلامی جمہوریہ کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا بلکہ  سیکولرازم کی بنیاد پر بنایا گیا تھا لیکن بعد میں  مولویوں نے اس پر اسلامی نام پر قبضہ کرلیا  ۔“کیا یہ بات درست ہے؟اپنی دلیل میں وہ کہتے ہیں کہ 11اپریل 1946 کو مسلم لیگ کنونشن دہلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نےکہا :

   ’’ہم کس چیز کےلئے لڑ رہے ہیں ۔ہمارا مقصد تھیوکریسی نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں تھیوکریٹک اسٹیٹ چاہیے ۔ مذہب ہمیں عزیز ہے ، لیکن اور چیزیں بھی ہیں جو زندگی کے لیے بے حد ضروری             ہیں ۔مثلاً ہماری معاشرتی زندگی ، ہماری معاشی زندگی اور بغیر سیاسی اقتدار کے آپ اپنے عقیدے یا معاشی زندگی کی حفاظت کیسے کرسکیں گے؟

   1946 میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا:” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوگی۔نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ،ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہوں گے ۔“

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سیکولر یہ ثابت کرنے کے لیے سرتوڑ کی کوشش کرتے ہیں کہ  پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بلکہ سیکولر کے طور پر بنا تھا۔سیکولر طبقے کے ایسے دلائل کہ محمد علی جناح صاحب ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے، مضبوط نہیں ہیں۔سیکولر جو اقتباسات پیش کرتے ہیں ، ایک تویہ مجمل اور قابلِ تاویل ہیں کہ  محمد علی جناح  صاحب ہر پاکستانی کے حقوق بیان کررہے ہیں چونکہ پاکستان میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہتے تھے ، اس لیے  محمد علی جناح  نے ان کو بھی پاکستانی کہا ، لیکن ان بیانات کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسلامی حکومت بنانے کو ناپسند کرتے تھے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض کا توہم مسلمان بھی اعتراف کرتے ہیں کہ قائداعظم کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ پاکستان کی ریاست میں تھیوکریسی نہیں۔

    تیسری بات یہ کہ ہندوستان سے علیحدہ ہونے کے فوری بعد جناح صاحب نے قانون سازوں سے اسلامی بینکاری نظام وضع کرنے کو کہا، اب آپ اس کو کیا سمجھیں گے ؟ ان کے مطابق سیکولر بھارت کے برعکس معرض وجود میں آنے والی نئی ریاست پاکستان کی کچھ تو امتیازی خصوصیات ہونا تھیں۔ ان کے مطابق جناح نے سوچا کہ یہ امتیازی پہلو مذہب ہی ہو سکتا ہے۔

   سیکولر لوگوں کے مطابق جناح کی ذاتی زندگی بہت ہی سیکولر تھی ، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے ذاتی رویوں کا اثر ان کی سیاست پر بھی تھا، بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جناح نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ کہا تھا لیکن اقلیتوں کے بارے میں بات کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے۔

پاکستان حاصل کرنے کا مقصد:

   پاکستان  بنانے کا مقصد کیا تھا ؟اس بارے میں چند اقتباس محمد علی جناح صاحب کے پیش خدمت ہیں:

   ٭ قائداعظم نے 24 سے 26 دسمبر 1943ء تک کراچی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

   آل انڈیا مسلم لیگ کے بھائیو اور خواتین و حضرات! میں اس بات پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ایک بار پھر مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا۔اگر ایک مثال کے ذریعے بھارت کے مسلمانوں کی حالت بیان کی جائے توکہا جائے گا کہ بھارت کے مسلمانوں کا وہی حال تھا جو ایک بیمار اور قریب المرگ شخص کا ہوتا ہے۔ ایسا شخص قلتِ توانائی کے باعث نہ کوئی شکایت کرتا ہے، نہ کچھ مانگتا ہے، بالخصوص وہ اس بات کے شعور کا حامل نہیں ہوتا ، کہ اس کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے یا کسی اور کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یا دنیا کا کیا ہوگا۔ سات سال قبل بھارت کے مسلمانوں کی حالت ایسی ہی تھی۔ مگر آج بیمار شخص بسترِ مرگ سے اتر آیا ہے۔ اس نے ہوش سنبھال لیا ہے۔ اب اس کی کئی شکایات ہیں۔ اس کے پاس کئی تجاویز اور مشورے ہیں۔ وہ کئی جھگڑوں اور قضیوں کا حل چاہتا ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے بشرطیکہ وہ اپنی حدود میں رہے۔ یہ ایک صحت مند انسان کی علامت ہے۔ میں مسلمانوں کی بیداری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔‘‘

   اس خطبہ میں قائد اعظم مسلمانوں کے بیدار ہونے پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کررہے ہیں کہ مسلمانو ں کی بیداری ملک حاصل کرنے کا اہم سبب ہے۔ اسی بیداری نے اسلام کے نام پر پاکستان حاصل کیا۔

   ٭آپ فرماتے ہیں:پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہ مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا،وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔        (8 مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب)

   ٭اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے، ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا ، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ (اسلامیہ کالج، پشاور، 13جنوری 1948)

   دراصل دستور اسمبلی کے مباحث میں ہندو اراکین کی طرف سے جو باتیں کی گئی تھیں ،ان میں یہ واضح تھا کہ وہ پاکستان بننے کے خلاف تھے ۔وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان اپنا مذہب ایک طرف رکھتے ہوئے نئی مملکت پاکستان کو سیکولر قرار دیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کو معاشرے کی تعمیر میں کوئی جاندار قراردیا جائے۔ جب قائد اعظم نے اپنی 11اگست کی تقریر میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرتی و سیاسی حقوق میں انہیں مساویانہ مقام دلانے کا اعادہ کیا تو وہ سمجھے کہ شاید پاکستان ایک سیکولر ملک ہوگا۔سیکولر لو گ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی قرار دادوں میں اسلام کا کہیں ذکر نہیں۔لیکن اگر ایسی قراردادوں کے پیچھے مسلم لیگی فکر دیکھنی ہے تو ان تقاریر میں دیکھیں جو قائدین نے ایسے مواقع پر کی تھیں۔مثلاً: 1940کی قراردادلاہور کی منظوری سے پہلے جو تقریر قائد اعظم نے کی تھی ،اس کے مندرجات میں نہ صرف ان کا مسلمانوں کے تہذیبی پس منظر اور اسلامی فکر کا گہرا ادراک جھلکتا ہے بلکہ وہ تاریخ کے عظیم شعور کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان نہ پہلے ایک قوم تھے اور نہ اب، نہ مستقبل میں کبھی ایک ہوسکتے ہیں۔ اس کی  وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اسلامی تصور معاشرت ہندو تصورات سے بالکل جدا ہے۔

   پروفیسردلفریڈ کینٹ ویل سمتھ اپنی مشہو کتابIslam in Modern Historyمیں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ قیام پاکستان مسلمانوں کے مذہبی وجود کا مرہون منت ہے۔

اسلامی قوانین ونظام  کو رائج کرنے کا اعلان:

   قائد اعظم کی کم و بیش ایک سو سے زیادہ ایسی تقاریر موجود ہیں جن میں انہوں نے اسلامی نظام اور اسلامی قانون کی بات کی ہے۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کی حساسیت بڑی گہری تھی۔ ان کے کردار اور ان کے طرز تکلم کی سنجیدگی اس وقت کے سیکولر لوگوں کو بھی کھٹکتی تھی۔پاکستان بننے کے بعد اس میں اسلامی قوانین رائج ہوں گے یا سیکولرازم عام ہوگا ،اس کی حقیقت جاننے کے لیے محمد علی جناح صاحب کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

   ٭دستور ساز اسمبلی کا یہ کام ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین بنائے جو شرعی قوانین سے متصادم نہ ہوں اور مسلمانوں کے لیے اب یہ مجبوری نہیں ہوگی کہ وہ غیر اسلامی قوانین کے پابند ہوں۔

   ٭مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔      (مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس سے خطاب، 12جون 1947ء)

   ٭25جنوری 1948کو قائد اعظم نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا:”وہ ایسے لوگوں کو سمجھ نہیں پائے جو جان بوجھ کر فتنے کھڑے کرتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شرعی بنیادوں  پر تشکیل نہیں دیا جائے گا۔

   ٭تحریک پاکستان کے کارکن سید بدرالدین احمد نے 26 نومبر 1946ء کو قائداعظم سے پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے پوچھا۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے فرمایا:

   ’’میرا ایمان ہے کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر ریاست پاکستان، دنیا کی بہترین اور مثالی ریاست ہوگی۔ مجھے اقبال سے پورا اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل اسلام سے بہتر نہیں ملتا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے نظامِ حکومت کی بنیاد لا الٰہ الہ الااللہ ہوگی اور یہ ایک فلاحی و مثالی ریاست ہوگی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان بن گیا تو چند دن بھی نہیں زندہ نہیں رہ سکے گا ، لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔  (بحوالہ کتاب اسلام کا سفیر،مضمون ’’قائداعظمؒ سیکولر نہیں تھے۔‘‘)

   ٭میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ سنہری اصولوں والے اس ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ ’’ملک کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔‘‘(سبی دربار بلوچستان، 14 فروری 1948)

   ٭قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، شہری،کاروباری، فوجی، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطۂ حیات جو مذہبی تقریبات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک،روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر جرم تک، اس دنیا میں جزا اور سزا سے لے کر اگلے جہان تک کی سزا وجزا تک کی حد بندی کرتا ہے۔ (پیامِ عید، 1945ء)

   ٭میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔(شاہی دربار، سبی بلوچستان، 14 فروری 1947ء)

   ٭اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخصی اور ادارے کی۔ قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و حکام کی حکومت ہے۔ (کراچی 1948ء)

   ٭یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسی دستور ساز اسمبلی جس میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہو، وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین منظور کرے گی جو شریعت کے قوانین سے مطابقت رکھتے ہوں گے اور مسلمان کسی بھی حالت میں اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ کسی غیر اسلامی قانون کی پابندی کریں۔(1945ء کو پیر صاحب مانکی شریف کے نام قائداعظم کا خط)

   ٭میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ مجلس تحقیق بینکاری کے ایسے طریقے کیوں کر وضع اور اختیار کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہو، کیونکہ مغرب کے معاشی نظام نے انسان کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے مثالی نظام پیش کرنا ہے، جو سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ (جولائی 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائداعظم کا خطاب)

   ٭مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔(نومبر 1939ء میں عیدالفطر کے موقع پر مسلمانوں کے نام پیغام)

   ٭قائداعظم 1942ء میں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں الٰہ آباد میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وکلاء کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا۔ ارکان وفد میں سے ایک وکیل نے قائداعظم سے پوچھا کہ ’’پاکستان کادستور کیا ہوگا؟ کیا پاکستان کا دستور آپ بنائیں گے؟‘‘

   قائداعظم نے فرمایا: ’’پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوں؟ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال پہلے بن گیا تھا۔‘‘

ایسا ہی ایک بیان 27 جولائی 1944ء کو دیا جب وہ کشمیر سے راولپنڈی پہنچے۔ قائداعظم کا رات کا کھانا ڈھیری حسن آباد کے عبدالغنی ٹھیکیدار کے ہاں تھا۔ کھانے کی میز پر راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر بیرسٹر محمد جان نے قائداعظم سے پوچھا ’’پاکستان کا دستور کیسا ہوگا؟‘‘ قائداعظم نے جواب دیا ’’یہ تو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی کا کام ہوگا، البتہ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں تیرہ سو سال پہلے کا دستور موجود ہے۔‘‘   (بحوالہ: قائداعظم سیکولر نہیں تھے)

   ٭پاکستان کا آئین قرآن مجید ہوگا،میں نے قرآن مجید کو ترجمے کی ساتھ پڑھا ہے، میرا پختہ یقین ہے کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہوسکتا۔ میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی جنگ جیتی ہے۔ میں قرآنی آئین کا ماہر نہیں‘ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کو میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ بیٹھ کر نئے قائم ہونے والے پاکستان کے لیے قرآنی آئین تیار کریں۔(10 جولائی 1947ء کو اورنگزیب روڈ دہلی میں ایک سوال  پر قائداعظم کا جواب)

   ٭نواب بہادر یار جنگ کی تقریر (26 دسمبر 1943ء) سے ایک اقتباس:

   حضرات! پاکستان کا حاصل کر لینا اتنا مشکل نہیں ، جتنا پاکستان کو بنانا اور قائم رکھنا مشکل ہے۔ آپ کے قائد نے ایک سے زائد مرتبہ اس کا اعادہ فرمایا ہے کہ مسلمان اپنی حکومتوں میں کسی دستور اور قانون کو خود مرتب کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ان کا دستور مرتب و متعین ان کے ہاتھوں میں موجود ہے اور وہ قرآن مجید ہے۔ کتنی صحیح نظر اور کتنے صحیح فیصلے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم پاکستان صرف اس لیے نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جگہ حاصل کرلیں جہاں وہ شیطان کے آلۂ کار بن کر ان ہی دستاویز کا فرانہ پر عمل کریں جن پر آج ساری دنیا کاربند ہے۔ اگر پاکستان کا یہی مقصد ہے تو کم از کم میں ایسے پاکستان کا حامی نہیں ہوں۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ وہاں قرآنی نظام حکومت قائم ہو۔ یہ انقلاب ہوگا، یہ ایک نشاۃ ثانیہ ہوگی،یہ ایک حیاتِ نو ہوگی جس میں خوابیدہ تصورات اسلامی ایک مرتبہ پھر جاگیں گے اور حیاتِ اسلامی ایک مرتبہ پھر کروٹ لے گی۔ پلاننگ کمیٹی آپ کے لیے جو دستوری اور سیاسی نظام مرتب کرے گی، اس کی بنیادیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوں گی۔ سن لیجیے اور آگاہ ہو جائیں کہ جس سیاست کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم ایسی سیاست سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ قائداعظم نے زور سے اور بڑے جوش سے میز پر مکا مار کر فرمایا ’’بالکل درست کہتے ہو۔‘‘

   ٭پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی شکل و ہئیت کیا ہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل۔ ان اصولوں کا اطلاق آج کی عملی زندگی پر بھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح 13 سو سال پہلے ہوا تھا۔ (امریکی نامہ نگار سے انٹرویو: فروری 1948)

   ٭آپ نے سپاس نامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ ’’پاکستان میں کون سا قانون ہوگا؟‘‘ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانو کا ایک خدا،ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک کتاب ہے، یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔ (نومبر 1945ء، پشاور، بحوالہ قائداعظم کی شخصیت کا روحانی پہلو)

دین اور سیاست

   سیکولر طبقہ جو دین کو صرف عبادت گاہ تک محدود کرنا چاہتا ہے اور کاروبار میں حرام کو عام کرکے سیاست میں بھی دینی احکام کو ختم کرنے کی مذموم کوشش میں ہے اور یہ فریب دیتا ہے کہ قائداعظم بھی سیکولرریاست چاہتے تھے ،حالانکہ قائدا عظم محمد علی جناح نے واضح دین اسلا م کو ہر میدان میں کامل قرار دیا ہے اور سیاست کو مذہب کے تابع قرار دیا۔

   ٭میں کوئی مولوی یا ملا نہیں ہوں، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے، البتہ میں نے قرآنِ مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی، کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات سے باہر ہو۔(1941ء میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں خطبۂ صدارت)

   ٭دنیا کے کسی مذہب میں سیاست مذہب سے الگ ہو یا نہ ہو، میری سمجھ میں اب خوب آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ (اسلام کا سفیر، صفحہ 159)

   ثابت ہوا کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا جبکہ سیکولر ازم میں دو قومی نظریے کا کوئی تصور ہی نہیں، اس کے باوجود روز اوّل سے دانشوروں اور سیاست دانوں کا ایک بہت بڑا گروہ یہ ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہی بنانا چاہتے تھے۔ یہ گروہ یا تو سیکولرازم سے نا آشنا ہے یا قائداعظم کے افکار سے بے خبر یا پھر دانستہ و ناداستہ عالمی استعمار کا حصہ بن کر پاکستان کی نظریاتی اساس کو ختم کرکے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا کر ایک بار پھر اسےغلامی کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔

   قائد اعظم کے اسلامی جوہر کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے رتی بائی سے شادی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے اسلام قبول کرے،پھر سول میرج کے بجائے اپنا نکاح ایک مولوی سے پڑھوایا۔ قائد اعظم نے اپنی اکلوتی بیٹی سے صرف اس لیے قطع تعلق کرلیا کہ اس نے ایک غیر مسلم سے شادی کرکے اسلام سے ناشائستگی کا مظاہرہ کیا تھا۔اس کے علاوہ غازی علم دین شہید کا کیس قائدا عظم کا لڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سیکولر نہ تھے ورنہ آج کے سیکولر تو دینداروں کو چھوڑ کر گستاخان رسول کے حق میں کیس لڑتے ہیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم