Kya Madina Ki Riyasat Secular Riyasat Thi?

کیا مدینے کی ریاست سیکولر ریاست تھی ؟

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lhr-12698

تاریخ اجراء:13شعبان المعظم1445ھ24فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سیکولر طبقہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ بات مشہور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا تھا ، جس کی بنیاد مذہب نہیں تھی۔ اس دعوے کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینے کی تمام اَقوام و مذاہب کے ساتھ میثاقِ مدینہ کیا تھا ، جس کے مطابق ہر شخص کو مذہبی و معاشرتی آزادی حاصل تھی اور ریاست کا تحفظ و دفاع تمام فریقوں کے لئے یکساں لازم تھا اور یہی سیکولرازم اور ملٹی کلچرازم کی اصل روح ہے۔مطلب یہ کہ سیکولر لوگ   میثاق مدینہ کو سیکولر ریاست قرار دیتے ہیں۔ شرع اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مدینے کی ریاست کو سیکولر وہی شخص کہہ سکتا ہے جسےنہ اسلامی تاریخ و تعلیمات کا علم ہے اور نہ ہی  سیکولرازم کے معنی معلوم ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام وہ ہستی ہیں جنہوں نے اسلام کے علاوہ  بقیہ اَدیان کو باطل  قرار دے کر توحید کی شمع جلائی ؛جس کے سبب آپ کے کئی قریبی لوگ آپ کے مخالف ہوگئے، آپ کے صحابہ کرام نے اس دعوت پر کثیر آزمائشیں برداشت کیں،یہاں تک کہ اس توحیدی دعوت پر اپنا وطن مکہ بھی چھوڑ دیا اور مدینہ ہجرت کی۔ اگر معاذ اللہ سیکولر ریاست ہی بنانا مقصد تھا ، تو پھر مکہ ہی میں رہ کر یہ سب ہوسکتا تھا اور مشرکین سردار بھی یہی چاہتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہیں۔قرآنی آیات شرک و مشرکین کی مذمت پر موجود ہیں اور خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیر مسلموں سے بیزاری ثابت ہے کہ ان سے مدد نہ لی اوروصال کے قریب  مشرکین کو جزیرہ عرب سے  نکالنے کا حکم دیا ، بلکہ خود غزوہ  میں شریک ہوکر یہودیوں کو مدینہ سے نکالا۔

   قرآن پاک میں ہے:﴿وَدُّوۡا لَوْ تَکْفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنْہُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَخُذُوۡہُمْ وَ اقْتُلُوۡہُمْ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمْ ۪ وَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًاترجمہ کنزالایمان:وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کہیں تم بھی کافر ہوجاؤ جیسے وہ کافر ہوئے ، تو تم سب ایک سے ہو جاؤ ، توان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک اللہ کی راہ میں گھر بار نہ چھوڑیں ۔پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور ان میں کسی کو نہ دوست ٹھہراؤ نہ مددگار۔

   تفسیر صراط الجنان میں ہے:”{ وَدُّوۡا لَوْ تَکْفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ ۔} اس سے پہلی آیات میں منافقوں کی اپنی سرکشی کا بیان ہوا اور اس آیت میں ان کے کفر و سرکشی میں حد سے بڑھنے کا بیان ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! جو منافق ایمان چھوڑ کر کفر و ارتداد کی طرف پلٹ گئے وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ کافر ہوئے کاش کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ پھرتم سب کفر میں ایک جیسے ہو جاؤ اور جب ان کا یہ حال ہے توتم ان میں سے کسی کو اس وقت تک اپنا دوست نہ بناؤ جب تک وہ اللہ  تعالیٰ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اِس سے اُن کے ایمان کا ثبوت نہ مل جائے کہ ان کا ایمان اللہ  تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی رضا کے لئے ہے کسی دنیوی مقصد کے لئے نہیں ہے، پھر اگر وہ ہجرت کرنے سے منہ پھیریں اور کفر پر قائم رہنے کو اختیار کریں تو اے مسلمانو! تم انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو اور اگر وہ تمہاری دوستی کا دعویٰ کریں اور دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں تو ان کی مدد نہ قبول کرو کیونکہ یہ بھی دشمن ہیں۔

   آیت’’ وَدُّوۡا لَوْ تَکْفُرُوۡنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:

   اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں :

   (1)دوسرے کو کافر کرنے کی کوشش کرنا کفر ہے۔

   (2)کافر، مرتد ، بد مذہب کو دوست بنانا اور ان سے دلی محبت رکھنا حرام ہے اگرچہ وہ کلمہ پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان کہتا ہو جیسے اُس زمانے کے منافق تھے۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کفار اور مشرکین سے اتحاد ووداد حرامِ قطعی ہے قرآنِ عظیم کی نُصوص اُس کی تحریم سے گونج رہے ہیں اور کچھ نہ ہو تو اتنا کافی ہے کہوَمَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ:واحد قہار فرماتا ہے کہ تم میں جوکوئی ان سے دوستی رکھے گا وہ بے شک انہیں میں سے ہے۔

   (3)دینی امور میں مشرک سے مد د نہ لی جائے۔ حضرت ابو حُمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہم مشرکین سے مدد نہیں لیں گے۔“(صراط الجنان،جلد2،صفحہ269،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   روایت ہے حضرت ابن عباس سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا”أخرجوا المشركين من جزيرة العربترجمہ:مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔(صحیح البخاری ، کتاب الجھاد و السیر ، باب : ھل یستشفع الی اھل الذمۃ و معاملتھم ؟ ، جلد 4 ، صفحہ 69 ، دار طوق النجاۃ ، مصر )

   تیسیرالمقاصد علامہ شرنبلالی پھر درمختار میں ہے” یمنعون من استیطان مکۃ والمدینۃ لانھما من ارض العرب قال صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم لایجتمع فی ارض العرب دینان ولودخل لتجارۃ جاز ولایطیل“ترجمہ: مکۃ المکرمہ اور مدینہ طیبہ کو انہیں وطن بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ دونوں شہر ارضِ عرب ہیں، حضور صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: زمینِ عرب میں دو دین جمع نہیں ہوسکتے۔اگر تجارت کے لئے داخل ہو تو جائز ہے لیکن طویل مدت نہ رہے۔( درمختار ،     کتاب الجھاد،    صفحہ342،دارالکتب العلمیہ،بیروت )

   سیکولر و لبرل میثاقِ مدینہ کے مقاصد کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ  ریاست مدینہ  کے درج ذیل حقائق کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں:

٭ریاست کی سیادت و قیادت نیز تمام جھگڑوں کی صورت میں حتمی فیصلے کا تا حیات اختیار حضور ﷺ کے ہاتھ میں تھا اور یہ فیصلہ معاہدہ کے فریقوں کے مشوروں یا ووٹ سے عمل میں نہیں آیا تھا۔

٭اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی خلیفہ کے چناؤ کے مسئلے پر نہ تو کسی غیر مسلم سے مشورہ یا ووٹ مانگا گیا اور نہ ہی ان کے کسی امیدوار کو اس منصب کے لئے زیرِ غور لایا گیا۔

٭خلیفہ تو دور کسی غیر مسلم کو کسی صوبے کا گورنر یا والی وغیرہ بھی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا کوئی اہم فیصلہ کن انتظامی نوعیت کا منصب دیا گیا۔

٭پھر جب مختلف غزوات کے موقع پر یہودیوں نے معاہدے کی روگردانی کی تو آپ ﷺ نے ان کے خلاف کاروائی کی اجازت لینے کے لئے کسی اسمبلی کے سامنے مسئلہ پیش نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے ایماء پر یا تو انہیں مدینہ سے نکال باہر کیا یا پھر جہنم واصل کردیا۔ آخر کس جمہوری سیکولر ریاست  میں  ایسا کرنا ممکن ہے کہ ریاست کا والی اپنے ایماء پر سٹیزنز کے قتلِ عام یا ان کے انخلاء کا فیصلہ کرلے۔

٭مدینہ کی ریاست میں ایسے اسلامی احکامات کا اجراء ہوتا تھا جس کا تعلق افراد کے گروہ سے ہے، مثلا سود لینا اور دینا حرام تھا، جرائم پر حدود کا نفاذ ہوتا تھا (حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ پر حدِ زنا کا اجراء مدینے ہی میں ہوا تھا)، وغیرہ وغیرہ۔

٭حقیقت یہ ہے کہ میثاقِ مدینہ ایک دفاعی اور انتظامی نوعیت کا معاہدہ تھا جس کا مقصد ابتدائی دور میں مسلمانوں کی عسکری قوت کم ہونے کی بنا پر مدینے کی ریاست کو کفار سے بچانے کے لئے دوسری اقوام کو بھی اس دفاع میں شامل کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بیرونی غزوے (جیسے غزوہء تبوک) کے موقع پر مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے فریق کے لئے اس میں شرکت کرنا لازم نہ ہوتی تھی، اور نہ ہی غزوے کی مہم جوئی شروع کرنے سے پہلے ان فریقین کی رائے یا اجازت لی جاتی تھی کہ ایسا کریں یا نہ کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ روم جیسی طاقتور ریاست سے رسہ کشی کا مطلب مدینہ کو خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف تھا اور بالفرض اگر مدینہ ایک جمہوری ریاست ہوتا جہاں تمام اقوام کو برابر حقوق حاصل ہوتے تو ان اقوام کو مسلمانوں کے اس فیصلے پر یقینا اعتراض ہوتا ، کہ تم لوگوں کے اس عمل سے ہمارا جینا دشوار ہوجائے گا، لہٰذا ہم تمہیں ایسا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس سے مدینے کی سالمیت کو خطرہ ہو وغیرہ۔

٭نتیجے کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ مدینہ کی ریاست قائم ہونے کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی حکومت شرق وغرب میں بھیل گئی اور آسمانِ دنیا نے کفار کے حوالے سے حتی یعطوا الجزیۃ عن یدا وھم صاغرون کی کیفیت کا نظارہ دیکھ لیا۔ اب بتائیے، کیا آج تک کسی جمہوری ریاست کے قیام اور بقا کے نتیجے میں مذہب کا بول بالا ہوا ہے؟ ہم یہ تو دیکھتے ہیں کہ جمہوری ممالک میں طرح طرح کے حربوں سے مذہب کو معاشرتی صف بندی سے خارج کردیا جاتا ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا دائرہ آہستہ آہستہ سکڑتا چلا جاتا ہے۔

٭سب سے بڑی بات یہ کہ اگر اس معاہدے کے مندرجات کا کھلی آنکھوں کے ساتھ مطالعہ کرلیا جائے تو بھی اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ، کہ یہ کوئی جمہوری قسم کا معاہدہ ہرگزنہیں تھا۔ مثلامعاہدے کے ابتدائی الفاظ اس طرح ہیں ھٰذَا کِتَاب مِنْ محمد النبی (رسول اللہ ﷺ) یہ دستاویز نبی محمد ( ورسول ﷺ) کی طرف سے ہے۔ اس جملے کا ایک ایک لفظ اس معاہدے کی نوعیت کی گواہی دے رہا ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا اندازِ بیاں ہی حاکمانہ ہے، یعنی جیسے ایک شاہی فرمان ہو، پھر یہ فرمان محمد عبدالمطلب نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دیا گیا ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حیثیت کسی جمہوری حاکم کی نہیں کہ جسے لوگوں نے چنا ہو اور ان کے حکم سے انحراف کرنا ، ممکن ہو۔( https://ilhaad.com/liberalism/madina-liberal-state/ )

   ان تمام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے سیکولر و لبرل کا پھر بھی وہی بات کرنا جو سوال میں ہے ، تو یہ نِری ہٹ دھرمی اور عام عوام کو گمراہ کرنے والی بات ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ سارا یورپ دارالاسلام بن گیا ہے اور دلیل یہ دے کہ وہاں ہر مسلمان کو نماز پڑھنے اور اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم