Kya Jadu Karne Ya Karwane Wala Kafir Hai?

کیا جادو کرنے یا کروانے والا کافر ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9067

تاریخ اجراء:24صفر المظفر1446ھ/30اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں جادو کرنے اور کروانے والا کیا مطلقا ً کافر ہے  ؟یعنی اگر کسی کے بارے میں علم ہو جائے کہ وہ جادو کرتایا کرواتا ہے ، تو کیا ہم اسے کافر کہہ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جادو ایک حقیقت ہے،قرآن وحدیث کی واضح نُصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔اس کے متعلق حکم ِشرعی  یہ ہےکہ جادو سیکھنا ، سکھانا،کرنا اور کروانا، چند ایک صورتوں میں کفر ہے،ہرصورت میں کفر نہیں، لہٰذاہرجادو کرنے یا کروانے والے کو مطلقاً کافر نہیں کہہ سکتے،ہاں یہ ضرور ہے کہ جب اس میں کفریہ اقوال و اعمال نہ ہوں،تویہ ایک سفلی،  مذموم  اورناجائز و حرام   کام ہے اور اگر کفریہ اقوال و افعال پر مشتمل ہو،(جیسا کہ بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے)تو ایسی صورت میں  کفر ہے اورکئی صورتوں میں اس کا مرتکب  دائرہ اسلام سے خارج اور کافر  ہوجائےگا۔

    جادو کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰـكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ﴾ ترجمہ کنز العرفان:’’اور یہ سلیمان کے عہدِ حکومت میں اس جادو کے پیچھے پڑگئے جو شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے کفر نہ کیا،بلکہ شیطان کافر ہوئے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔اور(یہ تو اس جادو کے پیچھے بھی پڑگئے تھے)جو بابل شہر میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پراتارا گیاتھا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔ (القرآن الکریم ،پارہ 1، سورۃ البقرہ ، الآیۃ 102 )

    اس آیتِ مبارکہ کے تحت امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:710ھ /1310ء )  لکھتے ہیں:”من تعلمه منهم وعمل به كان كافرا إن كان فيه رد ما لزم في شرط الايمان ومن تجنبه أو تعلمه لا ليعمل به ولكن ليتوقاه ولئلا يغتر به كان مؤمنا قال الشيخ ابو منصور الماتريدى رحمه اللہ القول بأن السحر على الاطلاق كفر خطأ بل يجب البحث عن حقيقته فإن كان في ذلك رد ما لزم في شرط الايمان فهو كفر وإلا فلا ثم السحر الذي هو كفر يقتل عليه الذكور لا الاناث وما ليس بكفر وفيه إهلاك النفس ففيه حكم قطاع الطريق ويستوي فيه المذكر والمؤنث وتقبل توبته إذا تاب “ ترجمہ:جوجادوگروں سے یہ علم سیکھے اور اس پر عمل کرے،اگر اس میں ایمان کی شرطِ لازم کاردّ و انکار پایاجائے ،تو وہ کافر ہے اور جو سیکھنے سے بچے یا اس پر عمل کرنےکے لیے نہ سیکھے،بلکہ اس لیے سیکھے تاکہ اس سے بچ سکے اور اس سے دھوکا نہ کھائے،(اور اس میں کفر بھی نہ ہو)تو ایسا شخص مومن ہے،امام ابو منصور ماتریدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نےفرمایا:جادو کو مطلقاً کفر کہنا خطا ہے ، بلکہ اس کی حقیقت کے متعلق بحث واجب ہے،اگر اس میں ایسی بات کارد و انکار پایاجائے جو ایمان کی شرطِ لازم  ہے،تو کفر ہے، ورنہ نہیں ،پھر وہ جادو جو کفر ہےاس میں مرد کو قتل کیا جائے گا،عورت کو نہیں اور جو کفر نہیں،مگر اس میں لوگوں کی ہلاکت و نقصان پایا جاتا ہے،تو اس کا حکم ڈاکوؤں والا ہے ، اس (حکمِ قتل میں )مرد و عورت برابر ہیں اور اگر یہ عمل کرنے والا توبہ کرے، تو اس کی توبہ قبول ہے۔(تفسیر نسفی، جلد1، صفحہ116، مطبوعہ  دارالکلم الطیب، بیروت)

    اسی آیت کے تحت صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1367 ھ /1947ء) لکھتے ہیں: ”سلیمان نے کفر نہ کیا“ کیونکہ وہ نبی ہیں اور انبیاء کفر سے قطعاً معصوم ہوتے ہیں ، ان کی طرف سحر  کی نسبت باطل  و غلط ہے ، کیونکہ سحر کا کفریات سے خالی ہونا نادر ہے۔” اپنا ایمان ضائع نہ کرو“یعنی جادو سیکھ کر اور اس پر عمل و اعتقاد کرکے اور اس کو مباح جان کر کافر نہ بن۔یہ جادوفرماں بردار و نافرمان کے درمیان امتیاز و آزمائش کے لئے نازل ہوا،جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے،کافر ہوجائے گا،بشرطیکہ اس جادو میں منافیِ ایمان کلمات و افعال ہوں،جو اس سے بچے، نہ سیکھے یا سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے اور اس کے کفریات کا معتقد نہ ہو،وہ مومن رہے گا۔یہی امام ابومنصور ما تریدی کا قول ہے۔ “(خزائن العرفان ،صفحہ35، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   صحیح بخاری شریف میں ہے:”أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:اجتنبوا الموبقات: الشرك باللہ، والسحر “ ترجمہ: نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو۔ (وہ چیزیں)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا  اور جادو ہے۔ (صحیح البخاری، باب الشرک والسحر، جلد2 ، صفحہ 380 ، مطبوعہ  لاھور)

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”واعلم أن للسحر حقيقة عند عامة العلماء…ثم ظاهر عطف السحر على الشرك ‌أنه ‌ليس ‌بكفر، وقد كثر اختلاف العلماء في ذلك، وحاصل مذهبنا أن فعله فسق،وفي الحديث:(ليس منا من سحر أو سحر له)ويحرم تعلمه…ولا كفر في فعله وتعلمه وتعليمه إلا إن اشتمل على عبادة مخلوق، أو تعظيمه كما يعظم اللہ سبحانه، أو اعتقاد أن له تأثيرا بذاته، أو أنه مباح بجميع أنواعه “ ترجمہ:جان لو!  اکثر علماء کے نزدیک جادو کی حقیقت  ہے ، پھر حدیث پاک میں لفظسحر کےشرکپر عطف سے ظاہر یہی ہے کہ یہ کفر نہیں ہے(کیونکہ یہاں کبیرہ گناہوں کابیان ہے) اور علماء کا اس (کفرہونے)میں اختلاف ہے،ہمارے مذہب ِ احناف کا حاصل یہ ہےکہ(فی نفسہٖ) یہ گناہ ہے۔حدیث مبارک میں ہے:جو جادو کرے یا جس کے لیے کیا جائے وہ ہم سے نہیں۔ اور اس کا سیکھنا حرام ہے،اس کا کرنا ، سیکھنا اور سکھانا اسی صورت میں کفر ہے جب یہ کسی مخلوق کی عبادت یاایسی تعظیم پر مشتمل ہو جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے کی جاتی ہے یا اِس کو بالذات مؤثر مانا جائے یا اس کی تمام اقسام کے مباح و حلال ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، باب الکبائر،  جلد1،صفحہ208،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   جادوکے گناہ کبیرہ ہونے کے  متعلق حدیثِ پاک میں ہے:”عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: الكبائر سبع، الشرك بالله، وعقوق الوالدين، والزنا، والسحر، والفرار من الزحف، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم“ ترجمہ: نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:گناہِ کبیرہ سات ہیں:اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا، زنا،جادو،جہادسے بھاگنا،سود کھانا اور یتیم کا مال(ناجائز طریقے سے) کھانا۔(الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایۃ،مقدمۃ الکتاب ،من ذکر الکبائر ،جلد 1 ،صفحہ 273 ،مطبوعہ دار ابن جوزی )

   مطلق جادو کے کفر نہ ہونے پر چند جید علماء و فقہائے کرام کی تصریحات ملاحظہ کیجیے۔

   علامہ ابن حجر  ہَیْتَمِی مکی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 974ھ/1567ء) لکھتے ہیں:”ومن المكفرات أيضا السحر الذي فيه عبادة الشمس ونحوها، فإن خلا عن ذلك كان حراماً لا كفراً، فهو بمجرده لا يكون كفراً ما لم ينضم إليه مكفر“ترجمہ : کفریہ افعال میں سے ایکسحر یعنی ایسا جادو ہےجس میں سورج وغیرہ کسی مخلوق کی عبادت  ہواور اگر یہ اس سے خالی ہو، تو یہ حرام ہے ،کفر نہیں ، جب تک اس میں کوئی کفریہ پہلو نہیں ہوگا،کفریات سے خالی فقط جادو کفر نہیں۔(الاعلام بقواطع الاسلام  ، صفحہ 75 ،مطبوعہ دار التقوى،سوريا)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”عن الخانية أنه لا يكفر بمجرد عمل السحر ما لم يكن فيه اعتقاد أو عمل ما هو مكفر، ولذا نقل في (تبيين المحارم) عن الامام أبي منصور أن القول بأنه كفر على الاطلاق خطأ ويجب البحث عن حقيقته، فإن كان في ذلك رد ما لزم في شرط الايمان فهو كفر وإلا فلا ،اهـ،والظاهر أن ما نقله في الفتح عن أصحابنا مبني على أن السحر لا يكون إلا إذا تضمن كفرا“ ترجمہ:خانیہ کے حوالے سے ہے کہ محض  جادو کرنے والے کی تکفیر نہیں کی جائے گی،جب تک اس  میں کفریہ اعتقاد یا عمل نہ ہو، اسی لئے ”تبیین المحارم میں امام ابو منصور  علیہ الرحمۃ کے حوالےسے نقل کیا گیا ہے کہ جادو کو مطلقاً کفر کہنا خطا ہے ، بلکہ اس کی حقیقت کے متعلق بحث واجب ہے،اگر اس میں ایسی بات کارد و انکار پایاجائے جو ایمان کی شرطِ لازم  ہے،تو کفر ہے، ورنہ نہیں  اور فتح “میں  جو ہمارے اصحاب سے نقل کیا گیا ہے، اس حوالے سے ظاہر یہی ہے کہ اس بات پر  مبنی ہے کہ وہی جادو کفر ہے، جو کفر کو شامل ہو۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار،  جلد6، صفحہ367، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اسی طرح علامہ شامی نےمقدمۃ الشامیمیں اور اپنے رسالےسل الحسام الهندي لنصرة مولانا خالد النقشبندي میں جادو کی انواع اور ان کے احکام کو بالتفصیل بیان کیا۔

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”اقول :یوہیں حاضرات اگر عملِ علوی سے غرضِ جائز کے لیے ہوا اور اس میں شیاطین سے استعانت نہ ہو ، جائزہے ، ہاں اگر سفلی عمل ہو یا شیاطین سے استعانت، تو ضرور حرام ہے ، بلکہ قول  یا فعل کفر پر مشتمل ہو تو کفر۔ملخصاً۔(فتاوی افریقہ ، صفحہ157، مکتبہ نوریہ رضویہ ، فیصل آباد)

   تنبیہ!اگرچہ اوپر قولِ محقق و مفتی ٰ بہ بیان کیا گیا ہے،مگر یادرہےعلما کی ایک جماعت اسے مطلقاً کفر قرار دیتی ہے،اس  لیے ایسے سفلی  اور قبیح عمل کرنے والوں کو ڈر جانا چاہیے اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے  اس سے سچی توبہ کر لیں ، ورنہ ایسے شدیدعذاب ِ الٰہی کا سامنا ہو گا، جس کی تاب  کسی میں نہیں۔

   علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”وأطلق مالك وجماعة أن الساحر كافر، وأن السحر كفر، وأن تعلمه وتعليمه كفر، وأن الساحر يقتل ولا يستتاب“ ترجمہ: امام مالک  علیہ الرحمۃ اور علماء کی ایک جماعت نے جادوگر کو مطلقاً کافر  قرار دیا  ہے اورجادو کرنے، سیکھنے اور سکھانے کو کفر  قرار دیا  اور یہ کہ جادوگر کو قتل کر دیا جائے اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، باب الکبائر،  جلد1،صفحہ208،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   یونہی علامہ عبدالعزیز پرہاروی حنفی چشتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1239ھ/1824ء) نے لکھا:”قال المحققون  ، منھم الامام ابو منصور ماتریدی:لیس عمل السحر علی اطلاقہ کفر  الا اذا کان فیہ تکذیب  ما وجب الایمان بہ فکفر  والا فکبیرۃ،وقال  بعض العلماء کفر مطلقا “ ترجمہ: مفہوم اوپر بیان ہو چکا۔(النبراس،صفحہ618،مطبوعہ مکتبہ یاسین، اسنتبول ،ترکیا )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم