Kya Islam Taraqqi Ki Rah Mein Rukawat Hai?

کیا اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟

مجیب:محمد احمد سلیم مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8640

تاریخ اجراء:07جمادی الاولی 1445ھ/22 نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں اَفراد پر شدید پابندیاں ہیں، اسی وجہ سے آج ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔اس حوالے سے رہنمائی فرما دیں کہ کیا واقعی اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے یا وجہ کچھ اور ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال کے جواب سے پہلے یہ واضح ہونا بہت ضروری ہے کہ ایسا کہنے والے کی ترقی سے کیا مراد ہے؟

   اگر ترقی سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت نیم برہنہ ہو کر سڑکوں پر گھومنا شروع کر دیں اور شراب کے دور چل رہے ہوں اور ناچ گانے کی محافل شروع ہو جائیں، تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ ہم ایسی نام نہاد ترقی نہ ہی کریں، تو بہتر ہے کہ یہ ترقی نہیں، بلکہ ترقی کے نام پر محض بے حیائی اور نفس پرستی ہے اور اگر کوئی ترقی سے بے حیائی اور بے راہ روی مراد لیتا ہے، تو اسلام ایسی چیزوں پر ضرور پابندی عائد کرتا اور اس کی مکمل روک تھام کے لیے اصول و قوانین بھی بیان کرتا ہے۔

   چنانچہ قرآن پاک میں ہے:﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّترجمہ: تم فرماؤ: میرے رب نے تو ظاہری باطنی بے حیائیاں اور گناہ اور ناحق زیادتی کو حرام قرار دیا ہے۔(سورۃ الاَعراف، آیت 33)

   اور اگر ترقی سے مراد علمی، سائنسی اور معاشی میدان میں ترقی ہے، تو اس کے جواب کے دو پہلو ہیں:

   (1) مغربی ممالک میں سائنسی ترقی کی وجہ کیا ہے؟

   (2) اور ہمارے ملک میں سائنسی ترقی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

   اگر ترقی سے مراد علمی، سائنسی اور معاشی میدان میں ترقی ہی ہے، تو جواباً عرض ہے کہ اعتراض کرنے والوں کی طرف سے اسے واضح کر دیا جائے کہ اسلام کی وہ کون سی ایسی پابندیاں ہیں کہ جو سائنسی و علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ کہ اگر اُن پابندیوں سے آزادی مل جائے، تو ملک میں ترقی شروع ہو جائے گی؟ تو ایسے اعتراض کرنے والوں کے ذہن میں عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اسلام کے مرد و عورت کے درمیان پردے کی پابندی اور بے حیائی پر پابندی جیسی چیزوں کی وجہ سے ہم علمی و سائنسی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جبکہ مغربی ممالک میں یہ پابندیاں نہیں ہیں، اس لئے وہ آزاد معاشرہ ہے اور وہ ہر میدان میں آگے ہیں۔

   تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے حیائی اور سائنسی ترقی دو ایسی چیزیں ہیں، جن کا آپس میں سِرے سے کوئی ربط، جوڑ اور تعلق ہی نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں سائنسی ترقی کی وجہ کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن ممالک میں بھی زمانہ قریب کے جتنے بھی سائنس دان گزرے ہیں، کیا وہ اس وجہ سے ایجادات کر گئے کہ وہ ہر روز چار فلمیں دیکھتے تھے؟ کیا گراہم بیل نے ریڈیو اس لیے ایجاد کر لیا تھا کہ وہ بے پردہ خواتین کو دیکھتا تھا یا ہوائی جہاز اور دیگر ایجادات کرنے والے اس لیے سائنسی دریافتیں کر گئے کہ وہ اس طرح کی لغویات میں مصروف تھے؟ تو یقیناً جواب یہی ہو گا کہ ہرگز نہیں، بلکہ ان کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی فیلڈ میں مستقل مزاجی سے کام کرتے رہے اور محنت کر کے سائنس میں اپنا نام بنا گئے یعنی اُن ممالک میں سائنسی ترقی ہونے کی وجہ وہاں بے حیائی کا ہونا نہیں، بلکہ اپنی فیلڈ میں مہارت حاصل کرنا اور  محنت کرنا ہے۔

   مفکرِ پاکستان، ڈاکٹر اقبال نے مغرب کی ترقی کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے اور اسلام پر عمل ترقی سے مانع نہیں ہے، کو بیان کرتے ہوئے "جاوید نامہ" میں لکھا ہے کہ

قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب

نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب

نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست

نے ز عریان ساق و نے از قطعِ موست

محکمی او را نہ از لادینی است

نے فروغش از خطِ لاطینی است

قوتِ افرنگ از علم و فن است

از ہمیں آتش چراغش روشن است

حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست

مانعِ علم و ہنر عمامہ نیست

(جاوید نامہ، نمودار میشود روح ناصر خسرو، صفحہ 209)

   ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ

   مغرب کی قوت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہاں ناچ گانا اور موسیقی بہت زیادہ ہے، نہ وہ اس لیے عروج پر ہیں کہ ان کی عورتیں بے حجاب رقص کرتی ہیں۔

   اور نہ ہی مغرب کی ترقی اور عروج ان کے لوگوں کے ظاہری حسن و جمال کی وجہ سے ہے اور نہ ہی اس وجہ سے کہ وہ بے لباس پھرتے ہیں اور نہ ہی اس وجہ سے کہ ان کے مرد بغیر داڑھی اور مونچھ کے ہوتے ہیں۔

   نہ ہی یورپ اس وجہ سے محکم اور مضبوط ہے کہ وہ لا دین ہوگیا ہے اور نہ ہی یورپ کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لاطینی رسم الخط میں لکھتے ہیں۔

   اگر یورپ طاقتور ہے، تو وہ صرف علوم وفنون کی وجہ سے ہے اور اُس کا چراغ اِس (علم و فن کی) آگ سے روشن ہے۔

   حکمت اور سائنس وٹیکنالوجی کا تعلق کپڑوں کی تراش خراش سے نہیں ہے اور علم و ہنر (سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی) کی راہ میں عمامہ ہرگز رکاوٹ نہیں ہے۔

   لہٰذا ان اَشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کی ترقی کی وجہ علوم میں محنت و مہارت ہے، ورنہ  نہ تو  بے حیائی مغرب کی ترقی کی وجہ ہے اور نہ ہم لوگوں کا اسلام پر عمل کرنا، ترقی کی راہ میں روکاٹ ہے۔

   اور دوسرا پہلو کہ ہمارے ملک میں سائنسی ترقی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ

   اولاً ہمارے ملک میں وہ افراد کہ جن کا کام موجودہ دور میں سائنسی ترقی کرنا ہے، وہ اسلام کی تعلیمات پر کتنے عمل پیرا ہوتے ہیں؟ یہ سب کے سامنے واضح ہے کہ ان کی اکثریت اپنی ذاتی و نجی زندگی میں بھی اسلامی احکامات پر عمل پیرا نہیں ہوتی، تو کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ سائنسی میدان میں محض اس لیے پیچھے ہوں گے کہ وہ کسی اسلامی حکم پر عمل کر رہے ہیں؟ جو شخص پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھ رہا؛ روزے نہیں رکھ رہا؛ حج کا دل میں خیال بھی نہیں لاتا؛ زکوۃ دینے سے بھی جی چرائے، تو کیا وہ اس لیے نئی ایجاد نہیں کر پا رہا ہو گا کہ اسے کسی اسلامی اصول کا پاس و لحاظ ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ جو شخص چند ایک اسلامی رسومات کے علاوہ کسی بھی طرح اسلام پر عمل کرنے کو تیار نہیں، اُس شخص کے سائنسی میدان میں ناکام ہونے کی وجہ وہ اسلام ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جس پر یہ عمل پیرا ہی نہیں ہے، بلکہ وجہ اُن کی اپنی نااہلی، کاہلی، سستی اور ناتجربہ کاری ہی ہو سکتی ہے۔

   ثانیاً یہ کہ کیا سائنس دانوں کو مریخ پر جانے سے کوئی اسلامی حکم مانع ہے؟ یا عمدہ مشینری اور دیگر نئی ایجادات کرنے سے اسلام نے روکا ہوا ہے؟ یا کوئی ماہر انجینئر کسی سیٹلائٹ کا نیا پُرزہ اس لیے نہیں بنا پا رہا کہ وہ اسلام پر عمل کرنے والا ہے؟تو جواب ہو گا کہ ہرگز نہیں۔اسلام نے تو کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ جدید علوم نہ پڑھائے جائیں یا ریسرچ سینٹر نہ کھولے جائیں؛ جدید لیبارٹریاں نہ بنائی جائیں؛ سپیس ریسرچ نہ کی جائے اور کائنات کے پوشیدہ راز نہ کھولے جائیں، بلکہ اسلام تو خود غور و فکر اور تدبر کا حکم دیتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، بلکہ قرآن پاک میں بیان ہوا کہ عقلمند لوگ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور کائنات کے دیگر عجائبات میں غور و فکر کرتے ہیں۔

   چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم تبدیلی میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔( سورۃ آل عمران، آیت 190)

   اور اگلی آیت مبارکہ میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اللہ کا ذکر بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر بھی کرتے ہیں، اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔

   چنانچہ قرآن پاک میں ہے:﴿الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاترجمہ: جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلؤوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ ( سورۃ آل عمران، آیت 191)

    لہٰذا اسلام کائنات کے نظام پر غور و فکر کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ خود اس کی دعوت دیتا ہے۔

   ثالثاً یہ کہ دنیا میں مسلم سائنسدانوں نے اسلام پر عمل کرنے کے باوجود سائنس میں بہت نام کمایا اور اس کا اعتراف مغربی دنیا بھی کرتی ہے، مسلمان سائنسدانوں کی طویل فہرست ہے کہ جن کی ایجادات پر آج کی جدید ترین دنیا کی بنیاد رکھی گئی اور آج دنیا اس سے مستفید ہو رہی ہے۔

   تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کوئی اسلامی پابندی نہیں ہے، بلکہ ہمارے یہاں سائنس کا بیڑا اٹھانے والے اَفراد کی اپنی ذاتی صلاحیتوں کا فقدان اور ناتجربہ کاری ہے اور ترقی کی اِس ناکامی کو نہایت غلط انداز سے لفظوں کے کھیل کے ذریعے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، لہٰذا ہمارے ترقی پسند اَفراد کو اپنی سائنسی ناکامیاں، اسلامی اصولوں اور شرعی احکامات پر تھوپنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کا جائز لینا چاہیئے کہ اگر ہم اعلیٰ علمی، تحقیقی و تربیتی ادارے قائم نہیں کر پائے اور سائنس میں کوئی خاطر خواہ نام نہیں بنا سکے، تو اس کا ذمہ دار اسلام نہیں اور نہ ہی ایسے اداروں کی باگ دوڑ علماء کے ہاتھ ہے، بلکہ یہ متعلقہ اَفراد کی ذاتی ناکامیاں ہیں اور انہیں اپنی حالت بدلنے اور ترقی کے نظام کو صحیح سمت گامزن کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ اسلام اور اسلامی تعلیمات ہرگز ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم