مجیب:مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7664
تاریخ اجراء:17جمادی
الاولی 1443ھ/22 دسمبر 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا فرشتے
اللہ کے ولی سے کلام کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ” بہجۃ الاسرار “میں غوث اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ کے حوالے سے منقول ہے کہ آپ سے فرشتے نے کلام
کیا۔ کیا اِس کلام کو وَحی کہا جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فرشتے
کا انسانی شکل میں آ کر انبیائے کرام کے علاوہ عام انسانوں
یا بالخصوص اللہ کے
نیک اور برگزیدہ بندوں سے گفتگو کرنا
،ممکن بلکہ قرآنِ مجید سے ثابت ہے اور اِسے وَحی نہیں کہا جا سکتا ،
کیونکہ علمائے اسلام نے وَحی کی خاص تعریف(Definition) بیان کی
ہے، جس سے یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ بالخصوص انبیاء اور رسولوں پر نازل ہونے والے خدا کے خاص کلام کو ہی وحی کہا جاتا ہے،
اُن کے علاوہ کسی بھی فرد سے
فرشتوں کا کلام ہونا وحی نہیں
ہے۔وحی قرار دینے کی نفی شرعی اصطلاح
کی وجہ سے ہے ،ورنہ وحی کے لغوی معانی میں سے بعض
معنیٰ کے اعتبار سے خود قرآن مجید میں وحی
کا لفظ غیر انبیاء کے لیے
استعمال ہوا ہے، جیسے شہد کی مکھی کی طرف وحی کے
الفاظ سورۃ نحل میں ہیں، بلکہ شیاطین کے ایک
دوسرے کو وسوسے ڈالنے پر بھی قرآن مجید میں وحی کا
لفظ موجود ہے ،لیکن فی زمانہ چونکہ وحی کا لفظ عام طور پر
شرعی اصطلاح کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے، اس لیے اب
دیگر صورتوں پر وحی کا لفظ بولنے سے اجتناب کیا جائے گا۔
دلائل ملاحظہ ہوں:
فرشتوں
کا خدا کے نیک بندوں سے کلام ممکن بلکہ ثابت ہے، چنانچہ اللہ
تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے بارے میں فرمایا﴿وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ
عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْن﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور (یاد کرو) جب فرشتوں
نے کہا، اے مریم! بیشک اللہ نے تمہیں چن لیاہے اور تمہیں
خوب پاکیزہ کردیا ہے اور تمہیں سارے جہان کی عورتوں پر
منتخب کرلیا ہے۔‘‘(پارہ 3،سور ہ آل عمران، آیت42)
اِس
آیت میں فرشتوں سے مراد
فرشتوں کے سردار یعنی حضرت جبریل امین علیہ الصلٰوۃ
والسَّلام ہیں، جیسا کہ تفسیرِ
جلالین میں ہے اور آپ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہَا نے
انسانی صورت میں اُن کی زیارت کی اور انہوں نے آپ سے
کلام بھی کیا، چنانچہ آپ کا صورتِ انسانیہ میں متشکل ہونا
یوں بیان کیا گیا﴿فَاَرْسَلْنَاۤ
اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’تو اس کی طرف
ہم نے اپنا روحانی (جبرائیل) بھیجا، تووہ اس کے سامنے ایک
تندرست آدمی کی صورت بن گیا۔‘‘(پارہ 16، سورہ مریم، آیت17)
اِس آیت کریمہ کے تحت امام ابو
البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:710ھ/1310ء) لکھتے ہیں:’’فتمثل لها جبريل في صورة آدمي شاب أمرد
وضئ الوجه جعد الشعر ، مستوى الخلق وإنما مثل لها في صورة الإنسان لتستأنس بكلامه
ولا تنفر عنه ولو بدالها في صورة الملائكة لنفرت ولم تقدر على استماع كلامه‘‘ ترجمہ:آپ
حضرت مریم رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے سامنے نوجوان، بے ریش، روشن
چہرے اور پیچ دار بالوں والے آدمی کی صورت میں
ظاہر ہوئے۔حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے انسانی
شکل میں آنے کی حکمت یہ تھی کہ حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہا ان کے کلام سے مانوس ہو جائیں اور ان سے خوف نہ
کھائیں، کیونکہ اگر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اپنی
ملکوتی شکل میں تشریف لاتے، تو حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہا خوف زدہ ہو جاتی اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا کلام سننے
پر قادر نہ ہوتی۔(تفسیر نسفی، جلد2، صفحہ329،
مطبوعہ دارالکلم الطیب،
بیروت)
آپ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہَا نبیہ
نہیں ہیں، مگر صالحہ، عابدہ اور برگزیدہ خاتون ضرور ہیں،
چنانچہ تفسیرِ رازی میں ہے:’’اعلم أن مريم رضی اللہ عنھا ما كانت من الأنبياء لقوله
تعالى:﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ
اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ
الْقُرٰى﴾ [يوسف: ١٠٩] وإذا
كان كذلك كان إرسال جبريل عليه السلام إليها إما أن يكون
كرامة لها، وهو مذهب من يجوز كرامات الأولياء، أو إرهاصا لعيسى عليه السلام ، وذلك جائز عندنا‘‘ ترجمہ:تم جان لو! حضرت مریم رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہَا انبیاء
میں سے نہیں ہیں،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اور ہم نے تم سے پہلے جتنے
رسول بھیجے وہ سب شہروں کے رہنے والے مرد ہی تھے ۔“ جب آپ
انبیاء میں سے نہ ہوئیں، تو اللہ تعالیٰ کا
حضرت جبریل علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہَا کی جانب بھیجنا یا تو آپ کی عظمت وکرامت کے سبب
تھا، جیسا کہ یہ اُن کا مذہب ہے، جو کراماتِ اولیاء کو جائز
وثابت مانتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ ”عیسیٰ علیہ السلام کا ارہاص “ تھا اور یہ
ہمارے نزدیک جائز وممکن ہے۔ (تفسیر
الرازی، جلد8، صفحہ 47، مطبوعہ دار الفكر، بیروت)
فرشتوں
کا اللہ کے خاص بندوں سےکلام کرنا مذکورہ گفتگو
سے ثابت ہو چکا، جہاں تک عام افراد سے ہم کلام ہونے کا تعلق ہے ، تو اُن سے
بھی گفتگو کرنا ثابت ہے، چنانچہ دو فرشتوں یعنی ہاروت اور ماروت کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی
آزمائش کے لئے مقرر فرمایا کہ جو جادو سیکھنا چاہے اُسے نصیحت
کریں اور یہ چیز قرآنِ
حکیم سے ہی ثابت ہے کہ اُن کی نصیحت ”باہمی کلام“
کے ذریعے ہی تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُن
کے لیے ” حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ“ کا کلمہ بیان فرمایا۔ اِس سے پتا چلا کہ
یقیناً وہ بھی انسانی صورت میں آ کر عام لوگوں سے ہم کلام ہوئے۔
اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿
وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الْمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ
ہٰرُوۡتَ وَمٰرُوۡتَ ؕ وَمَا یُعَلِّمَانِ
مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ
فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ﴾ترجمہ
کنزالعرفان:’’اور (یہ تو اس جادو کے پیچھے بھی پڑگئے تھے)جو
بابل شہر میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پراتارا گیاتھا اور وہ دونوں کسی
کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان
ہیں، تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔‘‘(پارہ1، سورۃ البقرہ، آیت102)
ہاروت ماروت کے متعلق مفتی
محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:’’ہاروت ماروت فرشتے شکل انسانی
میں آکر کھاتے پیتے ،بلکہ صحبت بھی کرسکتے تھے۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، جلد1، صفحہ24، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
فرشتہ انسانی صورت اختیار کر سکتا
ہے، اِس میں کوئی استحالہ نہیں ہے، قرآنِ حکیم کی ہی چند
آیات سے فرشتوں کا انسانی صورت میں متشکل ہونا ثابت ہے، مثلاً :حضرت
مریم رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس حضرت
جبریل امین علیہ الصلٰوۃ
والسَّلام کا آنا اور
کلام کرنا، حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے پاس فرشتوں کا مہمان بن کر آنا اور حضرت لوط
علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے گھر پر انسانی صورت میں
آنا۔
اِس کے
علاوہ بہت سی احادیث میں بھی فرشتوں کا انسانی صورت
میں متشکل ہونے کا ثبوت موجود ہے، جیسا کہ بخاری شریف
میں ”حدیثِ جبریل“ بہت مشہور ہے، اُس میں بڑی وضاحت
سے یہ بات موجود ہے کہ حضرت جبریلِ امین علیہ الصلٰوۃ
والسَّلام انسانی صورت میں نبی اکرم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام صحابہ کرام کے لیے اجنبی شخص تھے،
مگر سفری آثار بالکل نہ تھے، کہ آپ کے مسافر ہونے کا گمان ہوتا، آپ
نبی پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں دو زانو بیٹھے اور گفتگو کا آغاز کیا، چند سوالات
پوچھے، جنہیں قریب بیٹھے سب صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے سماعت کیا، جب وہ چلے
گئے ،تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ خبر دی کہ یہ
جبریل امین تھے اور درحقیقت سوال جواب کی صورت میں
تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔(صحیح البخاری، جلد1، باب سؤال جبریل النبی، صفحہ 19،
مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
اِسی
طرح حضرت حنظلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہوالی روایت میں بھی
فرشتوں کے تَشَکُّل پر بڑی واضح دلیل ہے۔مفہومِ روایت
یہ ہے کہ حضرت حنظلہ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہبارگاہِ
مصطفیٰ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اپنی عام معاشرتی زندگی
میں قلبی حالت کی تبدیلی پر انتہائی
پریشان تھے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں ،تو قلبی رِقَّت، خوفِ خدا، رضائے
الہی کی تڑپ، جہنم کا خوف اور جنت کی تمنا اپنے عروج پر ہوتی ہے، مگر جب گھر
یا زندگی کی دیگر مصروفیات میں مگن ہوتا ہوں ،تو
مذکورہ کیفیت برقرار نہیں رہتی۔اِس قلبی
احوال کے اختلاف کو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں عرض کیا ،تو سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اگر تم ہمیشہ اُسی کیفیت
میں رہو، جس کیفیت میں
میرے پاس ہوتے ہو ،تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں،
تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن
اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے۔(جامع الترمذی، جلد4، صفحہ283، مطبوعہ دار الغرب
الاسلامی، بیروت)
اِس حدیث مبارک کے آخری جملے صراحت کے ساتھ اِس چیز کا اِمکان ثابت کر رہے
ہیں کہ فرشتے بشکلِ انسانی
گھروں ، راستوں اور آرام گاہوں میں صالحین سے مصافحہ کرسکتے ہیں۔
مذکورہ
آیت، تفاسیر اور احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ الصلٰوۃ والسَّلام انسانی صورت میں ہی آئے تھا
اور فی نفسہ فرشتہ انسانی
صورت میں متشکل ہو سکتا ہے، چنانچہ تفسیرِ بیضاوی
میں فرشتوں کی حقیقت وماہیت بیان کرتے ہوئے لکھا
گیا:’’ذهب أكثر المسلمين إلى أنها أجسام لطيفة قادرۃ
علی التشكل بأشكال
مختلفة، مستدلين بأن الرسل كانوا يرونهم كذلك‘‘ ترجمہ:اکثر اہل ِ اسلام کا مؤقف یہی ہے کہ
فرشتے لطیف اجسام والے ہیں اور مختلف صورتوں میں متشکل ہونے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔وہ اِس چیز سے دلیل پکڑتے ہیں کہ رسول اُن فرشتوں کو انسانی صورت پر ہی
دیکھا کرتے تھے۔ (تفسیر البیضاوی، جلد1، صفحہ49، مطبوعہ دار
الکتب العلمیۃ، بیروت)
نبیوں اور فرستوں
کی زیارت و ملاقات کے متعلق علامہ سیوطی
شافعی رحمۃ اللہ علیہ
نے ایک شان دار کتاب’’ تنویر الحلک فی امکان
رویۃ النبی و الملک‘‘ تصنیف فرمائی ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟