مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3173
تاریخ اجراء:10ربیع الثانی1446ھ/14اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی شخص،کسی کے سامنے کفر یہ بات کہے،اور سننے والا اُسے کفر سے توبہ نہ کروائے،تو کیا اس دوسرے شخص پر حکم کفر ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کفریہ بات سن کر اس سے توبہ نہ کروانے والے پر حکم کفر تو نہیں،البتہ!بعض صورتوں میں کفریہ بات سن کر کفر سے توبہ نہ کروانا گناہ ہے،اور بعض صورتوں میں نہیں۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
جب سننے والے کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہ بات کفریہ ہے جیسے کسی مستند سنی عالم دین کی رہنمائی اس کے متعلق موجودہو،اور ساتھ ہی سننےوالے کو اس بات کا بھی غالب گمان ہو کہ اگر وہ سامنے والے کو اس کفریہ بات سے توبہ کرنے کا کہے گا،تو وہ اس کی بات مان کر توبہ کرلے گا،تو اب اگر سننے والے نے اس کو کفریہ بات سے توبہ نہ کروائی،تو اس صورت میں توبہ نہ کروانے والا شخص ضرور گنہگار ہوگا،کیونکہ کفر سے توبہ کروانا، نہی عن المنکر یعنی برائی سے منع کرنے کے زُمرے میں آتا ہے اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنےکے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ اگر سامنے والے کو غالب گمان ہو کہ اگر وہ اس کو سمجھائے گا،تو وہ اس کی بات مان لے گا، اور بری بات سے باز آجائے گا،تو ایسی صورت میں سامنے والے کو اس برائی سے روکنا واجب ہوجاتا ہے،اگر نہیں روکے گا تو گنہگار ہوگا۔
ہاں! اگر معلوم ہے کہ سامنے والے کوبتائے گاتووہ توبہ نہیں کرے گا تو ایسی صورت میں توبہ نہ کروانے والا شخص گنہگار نہیں ہوگا۔البتہ! ایسی صورت میں اگرفتنے کااندیشہ نہ ہوتو برائی سے روکنا افضل ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:’’ذكر الفقيه في كتاب البستان أن الأمر بالمعروف على وجوه إن كان يعلم بأكبر رأيه أنه لو أمر بالمعروف يقبلون ذلك منه ويمنعون عن المنكر فالأمر واجب عليه ولا يسعه تركه ولو علم بأكبر رأيه أنه لو أمرهم بذلك قذفوه وشتموه فتركه أفضل،۔۔۔ ولو علم أنهم لا يقبلون منه ولا يخاف منه ضربا ولا شتما فهو بالخيار والأمر أفضل كذا في المحيط‘‘ترجمہ:فقیہ نے کتاب البستان میں یہ ذکر کیا کہ نیکی کا حکم دینے کی کئی صورتیں ہیں:اگر نیکی کا حکم کرنے والے کو غالب گمان سے معلوم ہو کہ اگر وہ انہیں نیکی کا حکم کرے گا،تو وہ اسے قبول کرلیں گے اور بری بات سے رُک جائیں گے،تو اس پرنیکی کا حکم کرنا واجب ہے،اور اس کے ترک کی گنجائش نہیں،اور اگر غالب گمان سے معلوم ہو کہ اگر وہ انہیں کہے گا تو وہ اسے تہمت لگائیں گے اور برا بھلا کہیں گے،تواب اس کا ترک افضل ہے،اور اگر معلوم ہو کہ وہ اس کی بات نہیں مانیں گے، (لیکن) ان سے، مارنے اور برا بھلا کہنے کا خوف نہ ہو تو اب اسے اختیار ہے،اور افضل نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہے،یونہی محیط میں ہے۔(فتاوی ھندیۃ،کتاب الکراھیۃ،ج 5،ص 352،353،دار الفکر،بیروت)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’امربالمعروف یہ ہے کہ کسی کو اچھی بات کا حکم دینا مثلاً کسی سے
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟