کسی کو بے ایمان کہنا کیسا ؟ |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:pin:5839 |
تاریخ اجراء:27محرم الحرام1440ھ/08 اکتوبر2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمارے ہاں بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کو بے ایمان کہہ دیتے ہیں، تو کیا اس طرح کہنے والے پر حکمِ کفر آئے گا؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
ہمارے معاشرے میں جس انداز سے کسی کو بے ایمان کہا جاتا ہے، اس طرح کہنے والے پر حکمِ کفر عائد نہیں ہو گا، کیونکہ یہ کلمات عام طور پر کافر کے معنی میں نہیں بولے جاتے اور نہ ہی ان کلمات سے کہنے والے کا مقصد دوسرے کو کافر قرار دینا ہوتا ہے، بلکہ اُس کی خیانت، دھوکہ دہی یا اِن جیسی کسی برائی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے، لہٰذا اس اعتبار سے کہنے والے پر حکمِ کفر عائد نہیں ہو گا، لیکن کسی مسلمان کو بلا اجازتِ شرعی بے ایمان کہنا ناجائز و گناہ اور تعزیر کا سبب ہے کہ اس میں مسلمان کی ایذا اور ہتکِ عزت ہے، جو جائز نہیں۔ بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دینے کے متعلق حدیث پاک میں ہے:’’من اذی مسلماً فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ‘‘ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذا دی ۔ ‘‘( المعجم الاوسط، باب السین، من اسمہ سعید، جلد 4، صفحہ 60، مطبوعہ قاھرہ ) بے ایمان کہنے کے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’کسی کو بے ایمان کہا، تو تعزیر ہو گی اگرچہ عرفِ عام میں یہ لفظ کافر کے معنی میں نہیں، بلکہ خائن کے معنی میں ہے اور لفظِ خائن میں تعزیر ہے ۔ ‘‘(بہار شریعت، حصہ 9، جلد 2 ، صفحہ 409، مکتبۃ المدینہ، کراچی) جنتی زیور میں ہے:’’کسی کو بے ایمان کہنا یا یہ کہنا کہ فلاں پر خدا کی مار، خدا کی پھٹکار، خدا کی لعنت، خدا کا غضب پڑے، فلاں کو دوزخ نصیب ہو، اس طرح سے بولنا گناہ کی بات ہے، جس کو ایسا کہا، اگر واقعی وہ ایسا نہ ہوا، تو یہ بری لعنت اور پھٹکار لوٹ کر کہنے والے پر پڑے گی ۔ ‘‘(جنتی زیور، صفحہ 416، مکتبۃ المدینہ، کراچی) ہاں اگر کہنے والا بطورِ اعتقاد کسی مسلمان کو بے ایمان ( کافر) کہے، توکسی تاویل یا وجہ ِ شبہ یا وجہِ حقیقی کے بغیر کہنے والے پر حکمِ کفر عائد ہو گااگرچہ صورت ِ مسئولہ میں کافر سمجھ کر بے ایمان کہنے کی صورت ظاہراً نہیں پائی جاتی۔ جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم شریف میں ہے:واللفظ للثانی:’’اذا اکفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما‘‘ترجمہ: جب کسی نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہا، تو یہ کفر دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹے گا ۔ ‘‘(الصحیح لمسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 57، مطبوعہ کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟