مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری
مصدق: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: 12832:Lhr
تاریخ اجراء:13 شوال المکرم 1445ھ/22 اپریل 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
علمائے کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں اور شریعت نے ان کا ادب و ا حترام کرنے کا حکم دیا اور ان کی بے ادبی و حق تلفی پر مذمت فرمائی ۔علماء بھی پابند ہیں کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو لوگوں تک احسن طریقے سے پہنچائیں۔ قاری، امام،عالم یہ سب گناہوں سے معصوم نہیں کہ ان سے گناہ نہیں ہوسکتا ، ان سے گناہ ممکن ہے اور شریعت نے ان کی گرفت بھی شدید فرمائی ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی بھی مولوی کی غیر شرعی بات کو لے کر تمام علمائے کرام پر تنقید کی جائے اور شرعی تعلیمات کو نظر انداز کردیا جائے۔ حکم شرع یہ ہے کہ اگر کوئی مولوی غیر شرعی فعل کرتا ہے ، تو اس کے خلاف جو بھی قانونی و شرعی کاروائی بنتی ہے اسے کیا جائے۔ غیر شرعی افعال میں علماء کی اتباع نہیں کی جائے گی۔ہر شعبے میں کچھ بُرے افراد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پورے شعبے کی مذمت کرنا عقلمندی نہیں ۔کسی بھی دینی فرد کےذاتی غلط فعل کو دلیل بناکر سب کو بُرا کہنا اور شرعی احکامات کو پس پشت ڈال دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بندہ غیر قانونی کام کرتا پھرے اور پکڑے جانے پر کہے کہ ہمارے ملک کی پولیس و کورٹ کا نظام درست نہیں۔لوگوں کا مال لوٹے،چوریاں کرے،رشوت اور دیگر حرام و غیر قانونی کام کرے اور یہ کہے کہ ہمارے حکمران ٹھیک نہیں۔ہر ایک سے دنیا میں اس کے فعل کے متعلق پوچھا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اسی کے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔
جامع صغیر کی حدیث پاک میں ہے:”اکرموا العلماء فانہ ورثۃ الانبیاء“ترجمہ:علماء کا احترام کرو کیونکہ وہ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔(الجامع الصغیر مع فیض القدیر ،جلد2،صفحہ93، حدیث1428 ، دارالمعرفہ ،بیروت )
امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”امداد قلبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لجمیع قلوب علماء امتہ فما اتقد مصباح عالم الا عن مشکوٰۃ نور قلب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ترجمہ: تمام علماء کے دلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اقدس سے مدد پہنچتی ہے۔ تو ہر عالم کا چراغ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورقلب کے شمع دان سے روشن ہے۔ (میزان الکبری للشعرانی ، جلد1،صفحہ45،مصطفیٰ البابی، مصر)
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:” ثلثہ لایستخف بحقہم الامنافق بین النفاق ذوالشیبۃ فی الاسلام وذوالعلم وامام مقسط “ترجمہ: تین شخصوں کے حق کو ہلکانہ جانے گا مگر منافق ۔ منافق بھی کون سا کھلا منافق: ایک بوڑھا مسلمان جسے اسلام ہی میں بڑھاپا آیا، دوسرا عالِم دین، تیسرا بادشاہ مسلمان عادل ۔ ( المعجم الکبیر ،عن ابی امامۃ، جلد8، صفحہ238،حدیث7818، مطبوعہ بیروت )
مشکوۃ شریف میں ہے:”وعن أبي الدرداء قال: " إن من أشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة: عالم لا ينتفع بعلمه “ترجمہ: روایت ہے حضرت ابوالدرداء سے ، فرماتے ہیں :قیامت کے دن اﷲ کے نزدیک بدتردرجہ والا وہ عالم ہے جس کے علم سے نفع حاصل نہ کیا جائے۔
اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے ”بأن تعلم علما لا ينفع، أو تعلم علما شرعيا، لكن ما عمل به، فإنه شر من الجاهل وعذابه أشد من عقابه كما قيل: ويل للجاهل مرة وويل للعالم سبع مرات، وكما ورد: " «أشد الناس عذابا يوم القيامة عالم لم ينفعه الله بعلمه» “ترجمہ:یوں کہ وہ ایساعلم سیکھے کہ جس سے نفع نہ اٹھایاجائے یاشرعی علم سیکھے لیکن اس پرعمل نہ کرے کہ یہ جاہل سے زیادہ براہے اوراس کاعذاب جاہل کے عذاب سے زیادہ سخت ہے جیساکہ کہاگیاجاہل کے لیے ایک مرتبہ خرابی ہے اورعالم کے لیے سات مرتبہ اورجیساکہ واردہوا:قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس عالم کوہوگاجس کے علم سے اللہ تعالی نے اسے نفع نہ دیا۔ (مرقاۃ المفاتیح،کتاب العلم،جلد01،صفحہ477،مطبوعہ کوئٹہ)
کنزالعلمال کی حدیث پاک ہے:”العلماء أمناء الرسل مالم يخالطوا السلطان ويداخلوا الدنيا فإذا خالطوا السلطان وداخلوا الدنيا فقد خانوا الرسل فاحذروهم“ترجمہ: علماء اللہ کے بندوں پر رسولوں علیہم السلام کے امین ہیں جب تک( ظلم کرنے میں) بادشاہوں کے ساتھ شریک نہ ہوں اور (دین میں)دنیا کو داخل نہ کریں ۔اگر انہوں ایسا کیا تو تحقیق انہوں نے رسولوں علیہم السلام کے ساتھ خیانت کی پس ان سے بچو اور ان سے علیحدگی اختیا ر کرو۔ (كنز العمال، الباب الثاني في آفات العلم ووعيد من لم يعمل بعلمهٖ ،جلد10،صفحہ327،مؤسسة الرسالة،بيروت)
کشف المحجوب میں حضور داتا سرکار رحمۃ اللہ علیہ غافل عالم، جاہل صوفی کے بارے میں فرماتے ہیں:’’شیخ المشائخ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے :’’تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو ،ایک غافل علماء سے ، دوسرے مداہنت کرنے والے فقراء سے ، تیسرے جاہل صوفیاء سے۔ ‘‘ غافل علماء وہ ہیں جنہوں نے دنیا کواپنے دل کا قبلہ بنا رکھا ہے اور شریعت میں آسانی کے متلاشی رہتے ہیں،بادشاہوں کی غلامی کرتے ، ظالموں کا دامن پکڑتے ہیں ، ان کے دروازوں کا طواف کرتے ہیں ،خلق میں عزت و جاہ کو اپنی محراب گر دانتے ہیں ، اپنے غرور و تکبر اور اپنی خود پسندی پر فریفتہ ہوتے ہیں، دانستہ اپنی باتوں میں رقت و سوز پیدا کرتے ہیں ، ائمہ و پیشوائوں کے بارے میں زبان طعن دراز کرتے ہیں ، بزرگانِ دین کی تحقیر کرتے ہیں اور ان پر زیادتی کرتے ہیں۔ اگر ان کے ترازو کے پلڑے میں دو جہان کی نعمتیں رکھ دو ، تب بھی وہ اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئیں گے۔ کینہ و حسد کو انہوں نے اپنا شعار مذہب قرار دیا ہے ۔ بھلا ان باتوں کا علم سے کیا تعلق ؟ علم تو ایسی صفت ہے جس سے جہل و نادانی کی باتیں ارباب ِ علم کے دلوں سے فنا ہوجاتی ہیں۔
اور مداہنت کرنے والے فقراء وہ ہیں جو ہر کام اپنی خواہش کے مطابق کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ باطل ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ اس کی تعریف و مدح کرتے رہیں گے اور جب کوئی کام ان کی خواہش کے خلاف ہوتاہے ، چاہے وہ حق ہی کیوں نہ ہو ، تو وہ اسکی مذمت کرتے ہیں اور مخلوق سے ایسا سلوک کرتے ہیں جس میں جاہ و مرتبہ کی طمع ہوتی ہے اور عمل باطل پر خلق سے مداہنت کرتے ہیں۔
جاہل صوفیا ء وہ ہیں جن کا کوئی شیخ و مرشد نہ ہو اور کسی بزرگ سے انہوں نے تعلیم و ادب حاصل نہ کیا ہو۔ مخلوق خدا کے درمیان بن بلائے مہمان کی طرح خو د بخود کود کر پہنچ گئے ہوں۔ انہوں نے زمانہ کی ملامت کا مزہ تک نہیں چکھا۔ اندھے پن سے بزرگ کے کپڑے پہن لیے اور بے حرمتی سے خوشی کے راستے پر چل کر ان کی صحبت اختیار کرلی ۔ غرضیکہ وہ خود ستائی میں مبتلا ہو کر حق و باطل کی راہ میں قوت امتیاز سے بیگانہ ہیں۔
یہ تین گروہ ہیں جن کو شیخ کامل ہمیشہ یا درکھے اور اپنے مریدوں کو ان کی صحبت سے بچنے کی تلقین کرے ، یہ تینوں گروہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور ان کی روش ناقص و نامکمل اور گمراہ کرنے والی ہے۔‘‘ ( کشف المحجوب ،صفحہ36، شبیر برادرز،لاھور)
صراط الجنان میں ہے:﴿قُلْ لَّا تُسْــٴَـلُوْنَ عَمَّاۤ اَجْرَمْنَا وَ لَا نُسْــٴَـلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ :ہم نے تمہارے گمان میں اگر کوئی جرم کیا تو اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔
﴿قُلْ:تم فرماؤ۔﴾ یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ ہم نے تمہارے گمان میں اگر کوئی جرم کیا تو اس کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا اورنہ ہم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا بلکہ ہر شخص سے اس کے اپنے عمل کا سوال ہوگا اور ہر ایک اپنے عمل کی جزا پائے گا (لہٰذا تم اپنی فکر کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔)( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷/۲۹۲، ملخصاً)“ (صراط الجنان، جلد8،صفحہ142،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟