Izhar e Barat Ke Liye Kehna Mere To Farishton Ko Bhi Is Ka Ilm Nahi

اظہار براءت کے لیے کہنا: " میرے تو فرشتوں کو بھی اس بات کا علم نہیں "

فتوی نمبر:WAT-135

تاریخ اجراء:01ربیع الاول 1443ھ/10اکتوبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کوئی شخص کسی معاملے سے اپنی براءت ظاہرکرنے کے لیے اس طرح کہتاہے کہ :" میرے تو فرشتوں کو بھی اس بات کا علم نہیں "سوال یہ ہے کہ :کیااس طرح کا جملہ بولنا کفر ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ کفر نہیں ہے۔ یہ فرِشتوں کی تَوہین نہیں، یہ اُردو زَبان کا محاوَرہ ہے ۔ کہنے والے کامَنشایہ ہوتا ہے کہ یہ بات تو میرے وَہم و گُمان میں بھی نہیں ، یا اِس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا تک نہیں، اگر میں نے اِس سلسلے میں ذِہن کے اندر بھی کوئی ترکیب بنائی ہوتی تو ''کِراماً کاتِبِین ''کو یقینا معلوم ہو جاتا وغیرہ۔ یہ بات ذِہن میں رکھئے کہ عُمُوماً فرشتوں کو حسبِ حاجت اُن کے شُعبے کے متعلق علمِ غیب تَفویض کیا جاتا ہے۔ مَثَلاً بادَلوں کو چلانے اور بارِش برسانے والے ملائکہ کو اِن امُور کے متعلق علمِ غیب دیا جاتا ہے۔اِسی طرح جَنِین یعنی ماں کے رِحم میں جو بچّہ ہوتا ہے اُس کے پیدا ہونے نہ ہونے، اُس کے رِزق وغیرہ حتّٰی  کہ قَبر کے مقام تک کا علم اُس پر مامور فرِشتوں کو عنایت فرمایا جاتا ہے ۔ اِسی طرح مَلَکُ الْمَوت سیِّدُنا عِزرائیل  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  اور ان کے مُعاوِنین ملائکہ کوتمام ذُوالاْرواح کی اموات کے اوقات و مقامات سے باخبر کیا جاتا ہے ۔ یوں ہی مُحافِظین اعمال لکھنے والوں کو۔ پارہ30 سورۃُ الانفِطار آیت نمبر 10 تا 12 میں ارشادِ ربُّ العباد ہے:

وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَۙ(۱۰)كِرَامًا كَاتِبِیْنَۙ(۱۱)یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(۱۲)

   ترجَمۂ کنزالایمان:اور بیشک تم پر نگہبان (مقرّر)ہیں، مُعزَّز لکھنے وا لے ، جانتے ہیں جو کچھ تم کرو۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 301، مکتبۃ المدینہ کراچی)

   اورکراماکاتبین بندے کی نیت بھی جان لیتے ہیں اِس ضمن میں حدیثِ قُدسی مُلا حظہ فرمایئے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہوا کہ مدینے کے سلطانِ،سردارِ دوجہان،رحمتِ عالمیان،سرورِ ذیشان،محبوبِ رحمٰن  عَزَّوَجَلَّ  وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کافرمانِ عالیشان ہے : اللہ  عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :  ’’ جب میرا بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرے اور اُس پر عمل نہ کرے تو اس کو مت لکھو اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو اُس کا ایک گناہ لکھ لو ۔  اور اگر وہ نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو ایک نیکی لکھ لو اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو دس نیکیاں لکھ لو ۔ ‘‘ ایک اور روایت کے مطابق اللہ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب، طبیبوں  کے طبیب ،عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا :ملائِکہ عرض کرتے ہیں :پروردگار ! تیرا بندہ گناہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے ۔ حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کواس بات پر خوب بصیرت ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : ’’ اس کا انتِظار کرو، اگر یہ اس گناہ کو کرے تو اس کاگناہ لکھو اور اگر اس کو ترک کر دے تو اس کی ایک نیکی لکھ لو، کیونکہ اس نے میری وجہ سے اِس گناہ کو ترک کیا ہے ۔  ‘‘(صَحِیح مُسلِم ص۷۹ حدیث ۲۰۳، ۲۰۵)اِس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے کراماً کاتِبین دلوں کی نیّتیں بھی جان لیتے ہیں۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 301، مکتبۃ المدینہ کراچی) 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم