Jagte Hue Nabi Pak Ka Deedar Karne Se Sahabi Hone Ka Hukum Hoga ?

 

جاگتے ہوئے نبی پاک ﷺ کا دیدار - کیا اس طرح صحابی ہونے کا حکم ہوگا؟

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق: مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-8718

تاریخ اجراء: 14رجب المرجب 1445ھ/25جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص  کہتا ہےکہ بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دیدار نہیں ہو سکتا اور جو بعض افراد سے منقول ہے،وہ درست نہیں، وگرنہ انہیں صحابی کہا جاتا ۔سوال یہ ہے کہ کیا بیداری میں دیدار ہو سکتا ہے؟نیز بیداری میں دیدار کرنے والے کو صحابی کہا جائے گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نیند اور بیداری میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا دیدار ممکن ہے  اوراس  پرمحدثین کا اتفاق ہے ۔ تفصیل یہ ہے کہ  ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک لمحہ کے لیے موت کا ذائقہ چکھنے کے  بعد ہمیشہ کے لیے اپنی قبر انور میں حیاتِ حقیقی دنیاوی روحانی وجسمانی کے ساتھ زندہ ہیں،جہاں چاہیں،جب چاہیں اپنے جسم حقیقی   یا روحانی یا مثالی کے ساتھ  تشریف لے جاسکتے ہیں اور اپنے جس امتی کو جیسے چاہیں اپنے دیدار سے مشرف فرما سکتے ہیں۔

جمالِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دیدار کی تین صورتیں:

   (1)  جمالِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دیدار کرنے والاجسم حقیقی کا دیدار کرتا ہے،جیسے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت موسی علیہ السلام کو قبر میں نمازپڑھتے ہوئے جسم حقیقی کے ساتھ دیکھا۔

   (2)دیدار کرنے والا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صرف روح اقدس کو دیکھتا ہے،جو صورت مرئیہ(یعنی انسانی پیکرمیں)ظاہر ہوتی ہے اور اس روح کا تعلق آپ کے قبرانور میں موجود جسم اطہر کے ساتھ قائم ہوتا ہے،جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ یا کسی اور کی صورت میں آتے تھے،حالانکہ وہ اس وقت بھی  سدرۃ المنتہی پر موجود ہوتے تھے۔

   (3)  دیدار کرنے والاشخص نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جسم مثالی کی زیارت کرتا ہے،جس کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی  روح مجردہ قدسیہ کا تعلق ہوتا ہے اور یہ جسم مثالی ایک وقت میں متعددمقامات پر بھی ہو سکتے ہیں۔

   بعض علمائےکرام نے جسم حقیقی و مثالی کی پہچان  کا ایک طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ جس شخص نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا دیدار  ایسی صورت و ہیئت میں کیا ، جو معروف ہے (یعنی جو ہیئت احادیث میں بیان کی گئی ہے) ، تو اس نے جسمِ حقیقی کودیکھا اور جس نے اس معروف صورت و ہیئت کے علاوہ پر دیدار کیا ، تو اس نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلامکے جسمِ مثالی کو دیکھا ۔

   البتہ بیداری میں دیدار کرنے والے کو صحابی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ صحابی وہ ہے،جو نبی کریم  علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کی معروف حیاتِ ظاہری میں ایمان کے ساتھ آپ کی زیارت کرے اور جو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے وصالِ ظاہری  کے بعد آپ کی زیارت کرے، خواہ وہ بیداری میں کرے،وہ صحابی نہیں۔

بیداری میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دیدار:

   صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،سنن ابی داؤد ، معجم کبیر للطبرانی ، کنزالعمال اور دیگر کتبِ حدیث میں ہے:”أن أبا هريرة قال:سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم يقول: من رآنی فی المنام فسيرانی فی اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي“ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے فرمایا: میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا ، تو عنقریب وہ مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری مثل نہیں بن سکتا۔(صحیح البخاری ،کتاب التعبیر، ج06 ، ص 2567 ، مطبوعہ دار ابن كثير)

   مذکورہ بالاحدیث کے بارے میں سبل الہدی والرشاد میں ہے:”قال الامام أبو محمد بن أبي جمرة في (تعليقه)  على الأحاديث التي انتقاها من البخاري هذا الحديث يدل على أن من رآه صلی اللہ علیہ وسلم في النوم فسيراه في اليقظة وهل هذا على عمومه في حياته وبعد مماته أو هذا في حياته؟ وهل ذلك لكل من رآه مطلقا أو خاص بمن فيه الأهلية والاتباع لسنته، واللفظ على العموم ومن يدعي الخصوص فيه بغير مخصص منه صلی اللہ علیہ وسلم فمتعسف“ترجمہ:امام ابو احمد بن ابو جمرہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بخاری کی منتخب احادیث پر اپنی تعلیق میں فرمایا :یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خواب میں دیکھا ، وہ عنقریب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو بیداری میں بھی دیکھے گا   اور کیا یہ بات  آپ کی حیات اور ظاہری وصال کے بعد(دونوں) کو عام ہے یا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی حیات کے ساتھ (ہی خاص ) ہے؟ اور کیا یہ فضیلت مطلقاً  ہر دیکھنے والے کے لیے ہے  یا اس کے ساتھ خاص ہے کہ جس میں اہلیت ہو اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی سنت کی اتباع ہو؟ (جواب یہ ہے کہ حدیث کے) لفظ عام ہیں اور جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے خاص کیے بغیر خود سے اس حدیث کے خاص ہونے کا دعوی کرے ،وہ زیادتی  کرنے والا ہے۔(سبل الھدی والرشاد، ج 10 ، ص 465 ، مطبوعہ  دار الكتب العلميہ ،لبنان)

   علامہ عبد الرؤوف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:قال جمع منهم ابن أبي جمرة: بل يراه في الدنيا حقيقة ۔۔۔ وقد نص على إمكان رؤيته بل وقوعها أعلام منهم حجة الإسلام “ ترجمہ:ایک جماعت نے کہا ، جن میں سے ابن ابو جمرہ بھی ہیں کہ (جس نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو خواب میں دیکھا) وہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو دنیا میں حقیقتاً دیکھے گا ۔۔۔حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو (بیداری میں)  دیکھنے کے ممکن ہونے  ، بلکہ اس کے واقع ہونے پر بہت سے علماء نے نص وارد کی ہے،جن میں سے حجۃ الاسلام (امام غزالی عَلَیْہِ الرَحْمَۃ) بھی ہیں۔(فیض القدیر شرح جامع الصغیر ، ج60 ، ص 132، مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبری ،مصر)

   علامہ فضلِ رسول بدایونی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:اعلم انہ لا خلاف بین الحفاظ فی جواز رؤیتہ صلی اللہ علیہ وسلم یقظۃ و مناما “ترجمہ:جان لو کہ نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو بیداری اور خواب میں دیکھنے کے جائز ہونے کے بارے میں حفاظ الحدیث  کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔   (المعتقد المنتقد ، صفحہ 132 ، مطبوعہ دار اھل السنہ)

نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا بیداری میں انبیائےکرام علیہم السلام کا  دیدار کرنا:

   حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جسم حقیقی کے ساتھ دیکھنے کے متعلق حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:”مررت   على موسىٰ ليلة اسری بي عند الكثيب الاحمر وهو قائم يصلي في قبره “ترجمہ:معراج کی  رات  میں  موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کی قبر مبارک کے پاس سے گزرا جو (ریت کے )سرخ ٹیلے کے پاس واقع ہےتو وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح المسلم، ج07،ص102،مطبوعہ  دار الطباعة العامرہ ، تركيا)

   مذکورہ حدیث پاک کے تحت الحاوی للفتاوی میں ہے:وهذا صريح فی اثبات الحياة لموسى فانه وصفه بالصلاة وانه كان قائما ومثل هذا لا يوصف به الروح وانما وصف به الجسد وفی تخصيصه بالقبر دليل على هذا فانه لو كان من اوصاف الروح لم يحتج لتخصيصه بالقبر فان احدا لم يقل ان ارواح الانبياء مسجونة فی القبر مع الاجساد وارواح الشهداء او المؤمنين فی الجنة“ترجمہ: اور یہ حدیث پاک   حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کی حیات  کے ثبوت میں صریح ہےکہ ان کے  کھڑے ہو کر  نماز پڑھنے (کی حالت) کو بیان کیا گیا ہے اور اس صورت (یعنی کھڑے  ہو کر نماز پڑھنے) کو روح سے نہیں، بلکہ جسم کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے  اور   موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کے نماز پڑھنے کو قبر مبارک کے ساتھ خاص  کرنے میں اس بات پر  دلیل ہے کہ اگر حیات روح کے اوصاف سے ہوتی، تو اِسے قبر مبارک کے ساتھ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کہ کسی نے  بھی اس انداز سے بیان نہیں کیا  کہ انبیاء کی روحیں اپنے جسموں کے ساتھ قبر میں قید ہیں  حالانکہ شہدا اور مومنین کی روحیں جنت میں  ہیں۔( الحاوی للفتاوی، ج02،ص251،مطبوعہ  دار الكتب العلميہ، بیروت)

   حضرت یونس علیہ السلام کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہماسے روایت ہے:” قال سرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بين مكة والمدينة فمررنا بواد فقال: ای واد هذا؟ فقالوا: وادی الازرق، فقال: كاني انظر الى موسى  علیہ السلام فذكر من لونه وشعره شيئا لم يحفظه داود واضعا اصبعيه في اذنيه له جؤار الى اللہ بالتلبية مارا بهذا الوادی  قال: ثم سرنا حتى اتينا على ثنية فقال: ای ثنية هذه؟ قالوا: هرشى، او لفت، فقال: كاني انظر الى يونس على ناقة حمراء عليه جبة صوف خطام ناقته ليف خلبة مارا بهذا الوادی ملبيا “ترجمہ:ہم نے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان رات کے وقت سفر کیا، ہم ایک وادی سے گزرے، توآپ نے پوچھا:یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے کہا: وادی ازرق ہے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:گویا کہ میں موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کو دیکھ رہا ہوں،   تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےموسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کے رنگ اور بالوں کے بارے میں کچھ بتایا، جو امام داؤد کویاد نہیں رہے اور موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈال کر اس وادی سے گزرتے ہوئے اللہ پاک کے سامنے   گڑاگڑاتے ہوئے تلبیہ کے ساتھ  جارہے ہیں ، حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہمانے  فرمایا کہ پھر ہم  چلے ، حتی کہ ہم ایک اور گھاٹی پر پہنچے، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:یہ کون سی گھاٹی ہے؟لوگوں نے جواب دیا: ہرشی یا لفت، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: گویا کہ میں یونس عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کو سرخ اونٹنی پر سوار دیکھ رہا ہوں، ان کے بدن پر اون کا جبہ ہے، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے،  وہ تلبیہ کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔(الصحیح لمسلم، ج01، ص105، مطبوعہ  دار الطباعة العامرہ، تركيا)

   الحاوی للفتاوی میں ہے: وقال القرطبی فی التذكرة فی حديث الصعقة نقلا عن شيخه: الموت ليس بعدم محض وانما هو انتقال من حال الى حال ويدل على ذلك ان الشهداء بعد قتلهم وموتهم احياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الاحياء فی الدنيا، واذا كان هذا فی الشهداء فالانبياء احق بذلك واولى وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء وأنه صلی اللہ علیہ وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الاسراء فی بيت المقدس وفی السماء ورأى موسى قائما يصلی فی قبره، واخبر صلی اللہ علیہ وسلم انه يرد السلام على كل من يسلم عليه الى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بان موت الانبياء انما هو راجع الى ان غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وان كانوا موجودين احياء وذلك كالحال فی الملائكة فانهم موجودين احياء ولا يراهم احد من نوعنا الا من خصه اللہ تعالى بكرامته ترجمہ: امام قرطبی نے ”التذکرۃ“ میں حدیث صعقہ کے متعلق اپنے شیخ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ  موت عدم محض کو نہیں کہتے، بلکہ وہ  خاص ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں، روزی دیئے جاتے ہیں، ہشاش بشاش رہتے ہیں  اور یہ صفت دنیا میں زندہ رہنے والوں کی ہے  اور جب شہدا ء کا یہ حال ہے، تو ابنیائےکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں،  اور یہ بات بھی پایہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ کے اَجسام کو نہیں کھاتی ، نیزنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  شبِ معراج  انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ سے بیت المقدس اور  آسمانوں میں ملاقات کی  اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہیں اور خود  پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا، میں اسے اس کے سلام کا جواب  دیتا ہوں۔ اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں، ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ کے ظاہری وصال  کا نتیجہ  یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں  کہ ہم ان کا ادراک نہیں کر سکتے،ا گرچہ وہ  زندہ و موجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کی طرح ہے کہ وہ زندہ  وموجود ہیں، ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھ سکتا سوائے ان اولیاء کے جن کو اللہ پاک نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا۔( الحاوی للفتاوی، ج02،ص250،مطبوعہ  دار الكتب العلميہ، بیروت)

بیداری میں صحابہ کرام  کارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا دیدار کرنا:

   حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کا بیداری میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دیدار کرنے کے متعلق الحاوی للفتاوی میں ہے:”قال عبد اللہ بن سلام: ثم أتيت عثمان لأسلم عليه   وهو محصور  فقال: مرحبا بأخي، رأيت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في هذه الخوخة فقال: يا عثمان حصروك؟ قلت: نعم، قال: عطشوك؟ قلت: نعم، فأدلى لي دلوا فيه ماء فشربت حتى رويت حتى إني لأجد برده بين ثديي وبين كتفي، فقال: إن شئت نصرت عليهم، وإن شئت أفطرت عندنا، فاخترت أن أفطر عنده، فقتل ذلك اليوم۔۔۔وهذه القصة مشهورة عن عثمان   مخرجة في كتب الحديث بالإسناد   أخرجها الحارث بن أبي أسامة في مسنده وغيره، وقد فهم المنصف منها أنها رؤية يقظة“ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں  کہ میں حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس سلام کرنے کے لیے حاضر ہوا ، درحال کہ ان کا گھراؤ کر لیا گیا تھا ، تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  نے فرمایا :میرے بھائی ! خوش آمدید۔میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اس روشن دان میں دیکھا ، تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: اے عثمان ! لوگوں نے تمہارا گھراؤ کرلیا ہے؟ میں نے عرض کی :جی، فرمایا :تمہیں پیاسا رکھا ہے ،عرض کی :جی، تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے میری طرف ایک ڈول بڑھایا، جس میں پانی تھا ، میں نے  اس سے پانی پیا ، یہاں تک کہ میں سیراب ہوگیا ، میں اس کی ٹھنڈک اپنے سینے اور کندھوں کے درمیان محسوس کرتا ہوں، پھر حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے فرمایا: اگر تم چاہو تو تمہاری ان لوگوں کے خلاف مدد کی جائے اور اگر چاہو تو ہمارے پاس افطار کرو ، تو میں نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس افطار کرنے کو اختیار کیا، پھر حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اسی دن شہید کردیا گیا۔۔۔اور یہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  کا مشہور واقعہ ہے جو کتبِ حدیث میں اسناد کے ساتھ منقول ہے،اس واقعے کو حارث بن ابی سلمہ نے اپنی مسند میں اور ان کے علاوہ نے نقل کیا اور مصنف نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ یہ دیدار بیداری کی حالت میں تھا۔     (الحاوی للفتاوی ، ج 02 ، ص315 ، مطبوعہ  دار الفكر ، بيروت،لبنان)

   حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا بیداری میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دیدار کے متعلق المجالس الوعظیۃ میں ہے:”حكي عن ابن عباس رضی اللہ عنہ أنه رأى النبي صلی اللہ علیہ وسلم في النوم فتذكر هذا الحديث، وبقي يفكر فيه، ثم دخل على بعض أزواج النبي صلی اللہ علیہ وسلم وهي ميمونة فقص عليها قصته، فقامت وأخرجت له مرآته صلی اللہ علیہ وسلم قال : فنظرت في المرأة فرأيت صورة النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولم أر لنفسي صورة“ترجمہ: حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے  مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو خواب میں دیکھا ، تو انہیں یہ حدیث (جس نے مجھے خواب میں دیکھا ، تو وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا)یاد آئی اور وہ اس بارے میں غور وفکر کرتے رہے ، پھر وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی کسی زوجہ حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے پاس گئے اور انہیں اپنا واقعہ بیان کیا ، تو حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا اٹھیں اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا آئینہ نکالا ، حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: جب میں نے اس آئینے میں دیکھا ، تو میں نے رسول اللہ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی صورت کو دیکھا ، اپنے آپ کو نہ دیکھا۔(المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البريہ  ، ج 02 ، ص 191 ، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت ، لبنان)

   الحاوی للفتاوی میں ہے:”قد ذكر عن بعض الصحابة أظنه ابن عباس  أنه رأى النبي صلی اللہ علیہ وسلم  في النوم فتذكر هذا الحديث وبقي يفكر فيه ثم دخل على بعض أزواج النبي أظنها ميمونة   فقص عليها قصته، فقامت وأخرجت له مرآته صلی اللہ علیہ وسلم  قال : فنظرت في المرآة فرأيت صورة النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولم أر لنفسي صورة“ترجمہ:بعض صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَ کے بارے میں،  میرے خیال میں حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں  مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو خواب میں دیکھا ، تو انہیں یہ حدیث (جس نے مجھے خواب میں دیکھا ، تو وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا)یاد آئی اور وہ اس بارے میں غور وفکر کرتے رہے ، پھر وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی کسی زوجہ ، میرا خیال ہے کہ حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے پاس گئے اور انہیں اپنا واقعہ بیان کیا ، تو حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا اٹھیں اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا آئینہ نکالا ، (حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ)جب میں نےا س آئینے میں دیکھا ، تو میں نے رسول اللہ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی صورت کو دیکھا ، اپنے آپ کو نہ دیکھا۔(الحاوی للفتاوی ، ج 02 ، ص308 ، مطبوعہ  دار الفكر ، بيروت،لبنان)

صالحین ِ امت کا بیداری میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دیدار کرنا:

   حضرت علی  بن محمد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیداری میں دیدار مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کرنے کے متعلق امام شہاب الدین قسطلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نقل کرتے ہیں:” كنت وأنا ابن خمس سنين أقرأ القرآن على رجل يقال له الشيخ يعقوب، فأتيته يوما فرأيت إنسانا يقرأ عليه سورة الضحى۔۔۔ فرأيت النبى صلی اللہ علیہ وسلم يقظة لا مناما وعليه قميص أبيض قطن، ثم رأيت القميص على فقال لى: اقرأ فقرأت عليه سورة والضحى وأ لم نشرح ثم غاب عنى، فلما بلغت إحدى وعشرين أحرمت بصلاة الصبح بالقرافة فرأيت النبى صلی اللہ علیہ وسلم قبالة وجهى فعانقنى فقال لى: وأما بنعمة ربك فحدث“ترجمہ: میری عمر پانچ سال تھی اور میں شیخ یعقوب کے پاس قرآنِ پاک پڑھتا تھا ،  میں ایک دن ان کے پاس آیا ، تو میں نے ایک شخص کو دیکھا جو سورہ والضحی پڑھ رہا تھا ۔۔۔ پھر میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو بیداری میں دیکھا،  نہ کہ خواب میں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے جسم اطہر پر سفید سوتی قمیض تھی ، پھر میں نے وہ قمیض اپنے اوپر دیکھی ، تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے مجھ سے فرمایا :پڑھو ، تو میں نے سورۃ الضحی اور الم نشرح  کی تلاوت کی ، پھر حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام مجھ سے روپوش ہوگئے ۔جب میں اکیس سال کا ہوا ، تو میں نے مقام قرافہ میں فجر کی نماز کی نیت باندھی ، تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اپنے سامنے پایا ، حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے مجھے گلے سے لگایااورفرمایا  : وأما بنعمة ربك فحدث(اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔(المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیہ ، ج02 ، ص373 ، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیہ ، القاھرہ ، مصر)

   شیخ خلیفہ نہر ملکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق سبل الہدی والرشاد میں ہے:”قال الشيخ سراج الدين بن الملقن في طبقات الأولياء في ترجمة الشيخ خليفة النهر ملكي: كان كثير الرؤية لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يقظة ومناما فكان يقال: أن أكثر أفعاله متلقاة منه بأمر منه إما يقظة وإما مناما “ترجمہ:شیخ سراج الدین بن الملقن نے"طبقات الاولیاء" میں شیخ خلیفہ نہر ملکی کے تعارف میں لکھا ہے کہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ خواب اور بیداری میں کثرت سے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی زیارت کرنے والے تھےاور کہا جاتا تھاکہ آپ کے اکثرافعال بیداری یا خواب میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے دیے گئے حکم سے ہیں ۔    (سبل الھدی والرشاد، ج 10 ، ص 467 ، مطبوعہ  دار الكتب العلميہ، بيروت ،لبنان)

   علامہ محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   لکھتےہیں:وقعت رؤيته صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الامة والاخذ منه يقظة قال الشيخ سراج الدين بن الملقن في طبقات الاولياء: قال الشيخ عبدالقادر الكيلاني قدس سره: رايت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قبل الظهر فقال لي: يا بني لم لا تتكلم؟ قلت: يا ابتاه أنا رجل اعجم كيف اتكلم على فصحاء بغداد فقال: افتح فاك ففتحته فتفل فيه سبعا وقال: تكلم على الناس وادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة فصليت الظهر وجلست وحضرني خلق كثير فارتج علي فرايت عليا كرم اللہ تعالى وجهه قائما بازائي في المجلس فقال لي: يا بني لم لا تتكلم؟ قلت: يا أبتاه قد أرتج علي فقال: افتح فاك ففتحته فتفل فيه ستا فقلت: لم لا تكملها سبعا قال: أدبا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم توارى عني“ترجمہ:رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد  اس امت سے  ایک سے زیادہ کاملین نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی  ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیداری میں فیض حاصل کیا ہے۔ شیخ سراج الدین بن ملقن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے "طبقات الاولیاء "میں لکھا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے بیان کیا کہ میں نے  ظہر سے پہلےحضور سیدِعالم،نورِمجسم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے فرمایا: بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟میں نے عرض کیا: اے میرے نانا جان(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)!میں ایک عجمی مرد ہوں، بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے فرمایا:  بیٹا !اپنا منہ کھولو۔میں نے اپنا منہ کھولا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ  لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ،      پھر میں نے نمازِ ظہراداکی اور بیٹھ گیا، میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے، اس کے بعدمیں نے حضرت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اے میرے والد! لوگ مجھ پر چلاتے ہیں ، پھر آپ نے فرمایا:اے میرے فرزند! اپنا منہ کھولو۔    میں نے اپنا منہ کھولا، تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا ؟تو انہوں نے فرمایا:رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب کی وجہ سے، پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔(تفسیر روح المعانی، ج11، ص 214، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اِ سی میں ہے:الشيخ خليفة بن موسى النهر ملكي: كان كثير الرؤية لرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم يقظة ومناما فكان يقال: إن أكثر أفعاله يتلقاه منه صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم يقظة ومناما ورآه في ليلة واحدة سبع عشرة مرة قال له في إحداهن: يا خليفة لا تضجر مني فكثير من الأولياء مات بحسرة رؤيتي، وقال الشيخ تاج الدين بن عطاء اللہ في لطائف المنن: قال رجل للشيخ أبي العباس المرسي يا سيدي صافحني بكفك هذه فإنك لقيت رجالا وبلادا فقال: واللہ ما صافحت بكفي هذه إلا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال: وقال الشيخ لو حجب عني رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم طرفة عين ما عددت نفسي من المسلمين، ومثل هذه النقول كثير من كتب القوم جدا“ترجمہ: شیخ خلیفہ بن موسیٰ نہر ملکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِرسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند اور بیداری میں بکثرت زیارت کرتے تھے اور انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نیند اور بیداری میں اکثر افعال حاصل کیے اور ایک بار انہوں نے ایک رات میں آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سترہ مرتبہ زیارت کی، ایک دفعہ  نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ان سے فرمایا: اے خلیفہ! میری زیارت کے لیے بےقرار نہ ہوا کرو، کیونکہ بہت سے اولیاء میری زیارت کی حسرت میں وفات پا گئے ۔ اور شیخ تاج الدین بن عطا ء اللہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے "لطائف المنن" میں لکھا ہے کہ ایک شیخ نے شیخ ابو العباس مرسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا: یا سیدی! اپنے اس ہاتھ سے میرے ساتھ مصافحہ کیجئے، انہوں نے کہا : میں نے اس ہاتھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی اور سے مصافحہ نہیں کیا۔ شیخ سراج الدین بن ملقن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اور  شیخ مرسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ اگر رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پلک جھپکنے کی مقدار بھی میری نظروں سے اوجھل ہوں، تو میں اپنے آپ کو مسلمان شمار نہیں کرتا، اس طرح کے بہت سے اقوال   کتابوں میں منقول ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی، جلد11، صفحہ 214، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   فتاوی حدیثیہ میں ہے:”(وسئل) نفع اللہ بعلومه ورضى عنه هل يمكن الآن الاجتماع بالنبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم في اليقظة والتلقي منه (فاجاب) بقوله نعم يمكن ذلك فقد صرح بأن ذلك من كرامات الأولياء الغزالي والبارزي والتاج السبكي والعفيف اليافعي من الشافعية والقرطبي وابن أبي جمرة من المالكية وقد حكى عن بعض الأولياء أنه حضر مجلس فقيه فروى ذلك الفقيه حديثا، فقال له الولي هذا الحديث باطل قال ومن أين لك هذا قال هذا النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واقف على راسك يقول إني لم أقل هذا الحديث وكشف للفقيه فرآه “ترجمہ:علامہ  ابن حجر ہیتمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال کیا گیا کہ کیا اب بھی نبی  پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیداری میں ملاقات اور علم کا  حصول ممکن ہے؟ تو جواب ارشاد فرمایا: ہاں! یہ ممکن ہے اور یہ اولیاء اللہ رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ کی کرامات میں سے ہے۔ علمائے شافعیہ میں سے امام غزالی، بازری، تاج الدین سبکی اور عفیف یافعی، علمائے مالکیہ میں سے امام قرطبی اور ابن ابی جمرہ رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ نے اس کی تصریح کی ہے، منقول ہے کہ ایک ولی اللہ کی مجلس میں ایک فقیہ آئے، پھر انہوں نے ایک حدیث بیان کی ، اس ولی اللہ نے کہا: یہ حدیث باطل ہے، فقیہ نے پوچھا: آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ کہا کہ آپ کے سر کے پاس نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ میرا فرمان نہیں ہے  ، پھر اس ولی اللہ نے اس  فقیہ کے لیے پردے اٹھوا دئیے اور فقیہ نے بھی نبی  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کر لی۔ ( الفتاوى الحديثيہ، صفحہ 211، مطبوعہ دار الفكر، بیروت)

   سبل الھدی والرشاد میں ہے:” ثم قال فذكر عن السلف والخلف وهلم جرا عن جماعة ممن كانوا رأوه صلی اللہ علیہ وسلم في النوم وكانوا مما يصدقون بهذا الحديث فرأوه بعد ذلك يقظة وسألوه عن أشياء كانوا منها متشوشين فأخبرهم بتفريجها ونص لهم على الوجوه التي منها يكون فرجها“ترجمہ : پھر فرمایا کہ سلف سے لے کر خلف تک مسلسل ایک جماعت سے منقول ہے کہ جنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو خواب میں دیکھا اور وہ اس حدیث کی تصدیق کرتے تھے ، پھر انہوں نے اس کے بعد حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو بیداری میں بھی دیکھا اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام سے   ان مسائل و مشکلات کے متعلق سوال کیا ، جن  میں وہ  پریشانی کا شکار  تھے ، تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے انہیں ، مشکلات کے حل کے طریقے بتائے ۔ (سبل الھدی والرشاد، ج 10 ، ص 465 ، مطبوعہ  دار الكتب العلميہ ،لبنان)

   الحاوی للفتاوی میں ہے:”قال البارزي: وقد سمع من جماعة من الأولياء في زماننا وقبله أنهم رأوا النبي صلی اللہ علیہ وسلم في اليقظة حيا بعد وفاته“ترجمہ:علامہ بارزی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا : ہمارے اور پچھلے زمانے کے اولیاء کی ایک جماعت سے یہ بات سنی گئی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو آپ کے وصالِ ظاہری کے بعد بیداری میں زندہ دیکھا ہے۔(الحاوی للفتاوی ، ج 02 ، ص 311 ، مطبوعہ  دار الفكر ، بيروت،لبنان)

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جسم حقیقی ،روحانی یا مثالی کی زیارت اور پہچان :

   علامہ جلال الدین عبدالرحمن بن ابوبکر سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بیداری میں جسم حقیقی و مثالی کی زیارت کے متعلق احادیث و اقوالِ ائمہ نقل کرنے کے بعدان سب کا ماحصل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”فحصل من مجموع هذه النقول والأحاديث أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم حي بجسده وروحه، وأنه يتصرف ويسير حيث شاء في أقطار الأرض وفي الملكوت وهو بهيئته التي كان عليها قبل وفاته لم يتبدل منه شيء، وأنه مغيب عن الأبصار كما غيبت الملائكة مع كونهم أحياء بأجسادهم، فإذا أراد اللہ رفع الحجاب عمن أراد إكرامه برؤيته رآه على هيئته التي هو عليها، لا مانع من ذلك، ولا داعي إلى التخصيص برؤية المثال“ترجمہ:ان تمام احادیث اور اقوال کے مجموعے کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اپنے جسم اطہر اور روحِ مبارک کے ساتھ زندہ ہیں ، تصرف کرتے  اور زمین و آسمان میں جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اسی ہیئت پر ہیں جس پر ظاہری وصال سے پہلے تھے  کہ اس میں کچھ تبدیلی نہ ہوئی اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہماری آنکھوں سے اسی طرح پردے میں ہیں ، جس طرح ملائکہ اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہونے کے باوجود پردے میں ہیں  ۔ جب اللہ تعالی کسی کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے دیدار سے عزت دینے کے ارادے سے پردے کو اٹھانا چاہتا ہے ، تو وہ شخص حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو اسی ہیئت پر دیکھ لیتا ہے جس پر آپ ہیں ، نہ تو کوئی چیز اس سے مانع ہے اور نہ ہی جسم مثالی کو دیکھنے کی تخصیص  کا کوئی داعی ہے۔(الحاوی للفتاوی ، ج 02 ، ص 319 ، مطبوعہ دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت،لبنان )

   مزید قاضی ابوبکر بن عربی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے لکھتے ہیں:”فصل القاضي أبوبكر بن العربي فقال: رؤية النبي صلی اللہ علیہ وسلم بصفته المعلومة إدراك على الحقيقة، ورؤيته على غير صفته إدراك للمثال، وهذا الذي قاله في غاية الحسن، ولا يمتنع رؤية ذاته الشريفة بجسده وروحه، وذلك لأنه صلی اللہ علیہ وسلم وسائر الأنبياء أحياء ردت إليهم أرواحهم بعد ما قبضوا وأذن لهم بالخروج من قبورهم “ترجمہ:قاضی ابو بکر بن عربی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ كو آپ کی معلوم صفت پر دیکھنا آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی حقیقت کا ادراک کرنا ہے اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو آپ کی معلوم صفت کے علاوہ پر دیکھنا ، آپ کی مثال کا ادراک کرناہے اور  یہ بات نہایت عمدہ ہے ۔ اورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی ذات مقدسہ کو جسم اور روح کے ساتھ دیکھنا ، ناممکن نہیں ، اس لیے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور تمام انبیاء زندہ ہیں ، ان کی ارواح قبض کیے جانے کے بعد دوبارہ لوٹا دی گئیں اور انہیں قبروں سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ۔       (الحاوی للفتاوی ، ج 02 ، ص 316-317، مطبوعہ دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت،لبنان )

   علامہ عبدالرؤوف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:سئل شيخ الاسلام زكريا۔۔۔هل المرئي ذاته صلی اللہ علیہ وسلم أو روحه أو مثل ذلك؟ أجاب۔۔۔رؤية المصطفى صلی اللہ علیہ وسلم بصفته المعلومة إدراك لذاته ورؤيته بغير صفته إدراك لمثاله “ترجمہ:شیخ الاسلام زکریا رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا گیا  کہ  نظر آنے والی نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی ذات ہوتی ہے یا روح یا مثال ہوتی ہے؟تو آپ نے جواب دیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کوآپ کی معلوم صفت پر دیکھنا آپ علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کی حقیقت کا ادراک کرنا ہے اور آپ  علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو آپ کی معلوم صفت کے علاوہ پر دیکھنا آپ کی مثال کا ادراک کرنا ہے۔(فیض القدیر شرح جامع الصغیر ، جلد6 ، صفحہ 132، مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبری ،مصر)

   روح المعانی میں ہے :’’ المرئي إما روحه صلی اللہ علیہ وسلم التي هي أكمل الأرواح تجردا وتقدسا بأن تكون قد تطورت وظهرت بصورة مرئية بتلك الرؤية مع بقاء تعلقها بجسده الشريف الحي في القبر السامي المنيف على حد ما قاله بعضهم من أن جبريل علیہ السلام  مع ظهوره بين يدي النبي صلی اللہ علیہ وسلم في صورة دحية الكلبي أو غيره لم يفارق سدرة المنتهى“ترجمہ:جو چیز دیکھنے میں آتی ہے وہ یا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح مبارک ہےجو پاکیزگی و تقدس کے لحاظ سے تمام روحوں میں سب سے زیادہ کامل ہے۔ اس طرح  کہ وہ روح مبارک صورتِ مرئیہ میں  اس رؤيت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے  ، یوں کہ روح اقدس کا تعلق حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس جسد مبارک کے ساتھ باقی ہے جو قبر مبارک میں زندہ ہے۔ یہ قول بعض محققین کے اس قول کے بالکل مطابق ہے کہ جبریل جب رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے سامنے حضرت دحیہ کلبی وغیرہ کی صورت میں حاضر ہوتے تھے ، تو سدرۃ المنتہی سے جدا نہ ہوتے تھے۔ (یعنی جبریل امین زمین پر بھی ہیں اور اسی وقت سدرۃ المنتہی پر بھی موجود ہیں)۔   (روح المعانی ، ج 11 ، ص 215-216، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   مدارج النبوۃ میں ہے:”اس کے بعد اگر کہیں کہ رب تعالیٰ نے حضور کے جسم پاک کو ایسی حالت و قدرت بخشی ہے کہ جس مکان میں چاہیں تشریف لے جائیں،خواہ بعینہٖ اس جسم سے،خواہ جسم مثالی سے ،خواہ آسمان پر ،خواہ قبر میں تو درست ہے۔“(مدارج النبوۃ،ج02،ص450،مطبوعہ  مرکزِ اھلسنت برکاتِ رضا)

   جاء الحق میں ہے:”قوتِ قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالمِ کو اپنے کف ِ دست کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور صدہا کوس پر حاجتمندوں کی حاجت روائی کرے،یہ رفتار خواہ صرف روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو جو قبر میں مدفون ہےیا کسی جگہ موجود ہے۔“(جاء الحق،صفحہ349،مطبوعہ مکتبہ غوثیہ،کراچی)

   مقالاتِ کاظمی میں ہے:”حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جمال دیکھنے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دیکھنے والے نے حضور کی ذات اقدس اور روح مبارک کو دیکھا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جمال محمدی دیکھنے والا حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس مبارک جسم مثالی کو دیکھ رہا ہے ،جس کے ساتھ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح مجردہ قدسیہ متعلق ہے اور اس امر سے کوئی شے مانع نہیں ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مثالی اجسام بے شمار تعداد میں متعدد ہو جائیں ۔“(مقالات کاظمی ، ج 03 ، ص197 ، مطبوعہ کاظمی پبلی کییشنز)

اجسام مثالیہ کا تعدد:

   فقہاء اور صوفیاء اجسام مثالیہ کے تعدد کا اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں،جسے امام احمد علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب”مسندِ احمد“میں نقل کیا،چنانچہ حضرت قرۃ مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:” أن رجلا كان يأتی النبی صلى اللہ عليه وسلم ومعه ابن له، فقال له: النبی صلى اللہ عليه وسلم: أتحبه؟  فقال: يا رسول اللہ، أحبك اللہ كما أحبه، ففقده النبی صلى اللہ عليه وسلم، فقال ما فعل ابن فلان؟ قالوا: يا رسول اللہ، مات، فقال النبی صلى اللہ عليه وسلم لأبيه: أما تحب أن لا تأتي بابا من أبواب الجنة، إلا وجدته ينتظرك؟فقال رجل: يا رسول اللہ، أله خاصة أم لكلنا؟ قال: بل لكلكم“ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی ہوتا ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟ اس نے کہا : اللہ آپ سے اتنی محبت کرے جتنی میں اس سے محبت کرتا ہوں، پھر پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے بیٹے کو نہیں دیکھا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا: فلاں شخص کے بیٹے کو کیا ہوا: صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: وہ فوت ہو گیا ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے باپ سے فرمایا: کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے جس دروازہ سے بھی داخل ہو تمہارا بیٹا اس دروازہ پر (پہلے سے) موجود تمہارا انتظار کر رہا ہو۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! یہ بشارت اس شخص کے لیے خاص ہے یا ہم سب کے لیے؟ آپ نے فرمایا: بلکہ تم سب کے لیے ہے۔(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج24، ص 361، مطبوعہ مؤسسة الرسالہ،بیروت)

   مذکورہ بالا حدیث کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:وفيه إشارة إلى خرق العادة من تعدد الأجساد المكتسبة، حيث إن الولد موجود في كل باب من أبواب الجنةترجمہ: اس حديث ميں یہ اشارہ ہے کہ بطور خرقِ عادت اجسادِ مثالیہ متعدد ہوتے ہیں، کیونکہ وہ بچہ (بیک وقت) جنت کے ہر دروازہ پر موجود ہوگا۔(مرقاۃ المفاتیح، ج3، ص1253، مطبوعہ  دار الفكر، بيروت)

   ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:ولا تباعد من الأولياء حيث طويت لهم الأرض، وحصل لهم أبدان مكتسبة متعددة، وجدوها في أماكن مختلفة في آن واحد“ترجمہ:جب اولیاء اللہ کے لیے زمین لپیٹ دی جاتی ہے، تو ان کے لیے ایسے اجساد مثالیہ کا تعدد بعید نہیں ہے جو آنِ واحد میں مختلف مقامات پر موجود ہوتے ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج03، ص1183، مطبوعہ  دار الفكر، بيروت)

   تفسیر روح المعانی میں ہے:”جسد مثالي تعلقت به روحه صلی اللہ علیہ وسلم المجردة القدسية، ولا مانع من أن يتعدد الجسد المثالي إلى ما لا يحصى من الأجساد مع تعلق روحه القدسية عليه من اللہ تعالى ألف ألف صلاة وتحية بكل جسد منها ويكون هذا التعلق من قبيل تعلق الروح الواحدة بأجزاء بدن واحد ولا تحتاج في إدراكاتها وإحساساتها في ذلك التعلق إلى ما تحتاج إليه من الآلات في تعلقها بالبدن في الشاهد“ترجمہ: جسم مثالی جس کے ساتھ پاکیزہ و مقدس روح متعلق ہے اور اس سے کوئی شے مانع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے مثالی جسم لا تعد اد ہو جائیں اور روح قدسیہ کا تعلق ہر جسم سے رہے، (ہر جسم پر) لاکھوں سلامتیاں اور رحمتیں نازل ہوں۔ اور یہ تعلق بالکل ایسا ہے ،جیسا کہ ایک روح ایک بدن کے الگ الگ اجزاء واعضاء سے بیک وقت پورا پورا تعلق رکھتی ہے اور مثالی جسموں میں وہ روح اپنے ادراکات واحساسات میں ان آلات کی قطعا محتاج نہیں ہوتی، جن کی ضرورت اسے کسی مشاہدہ کرنے والے شخص میں اس کے بدن کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔(روح المعانی ، ج 11 ، ص 215-216، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

   شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:”بعض محققین ابدال کی وجہ تسمیہ میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں جب کسی جگہ جانا مقصود ہوتا ہے، تو وہ پہلی جگہ اپنے بدلے میں اپنی مثال چھوڑ کر جاتے ہیں اور سادات صوفیہ کے نزدیک عالمِ اجسام اور ارواح کے درمیان ایک عالمِ مثال بھی ثابت ہے، جو عالمِ اجسام سے لطیف اور عالمِ ارواح سے کثیف ہوتا ہے اور روحوں کا مختلف صورتوں میں متمثل ہونا اسی عالم مثال پر مبنی ہے ۔“(جذب القلوب  ، صفحہ 193،مطبوعہ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی، لاھور)

بیداری میں زیارت رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کرنے والے کا صحابی نہ ہونا:

   السراج المنیر شرح جامع الصغیر میں ہے:”حمله ابن أبي جمرة وطائفة على أنه يراه في الدنيا حقيقة ويخاطبه وإن ذلك كرامة من كرامات الأولياء وقال ابن حجر هذا مشكل جدا لأنه يلزم أن يكون هؤلاء أصحابه وتبقى الصحابة إلى يوم القيامة ولأن جمعا ممن رآه في المنام لم يره في اليقظة والخبر الصادق لا يختلف وأقول الجواب على الأول منع الملازمة لأن شرط الصحبة أن يرآه وهو في عالم الدنيا وذلك قبل موته وامارؤيته بعد الموت وهو في عالم البرزخ فلا تثبت بها الصحبة وعن الثاني أن الظاهر ان من لم يبلغ درجة الكرامات ممن هو في عموم المؤمنين إنما تقع له رؤيته قرب موته عند طلوع روحه۔۔۔ويكرم الله به من شاء قبل ذلك فلا يتخلف الحديث وأما أصل رؤيته صلی اللہ علیہ وسلم في اليقظة فقد نص على إمكانها ووقوعها جماعة من الأئمة “ترجمہ:ابن ابو جمرہ اور ایک گروہ نے اسے اس بات پر محمول کیا ہے کہ وہ (خواب میں زیارت کرنے والا) دنیا میں حقیقتاً زیارت اور کلام بھی کرے گا اور یہ بات اولیاء کی کرامت کے قبیل سے ہے اور امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ یہ بات نہایت دشوار ہے، کیونکہ حقیقت میں دیکھنے کی صورت میں لازم آئے گا کہ دیکھنے والے صحابی ہوجائیں اور یوں   صحابہ تاقیامت باقی رہیں گے اور دوسری بات یہ کہ جنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو خواب میں دیکھا ، ان سب نے آپ کو بیداری میں نہیں دیکھا اور خبرِ صادق تو مختلف نہیں ہوتی۔اس کے جواب میں، میں یہ کہتا ہوں کہ پہلی بات (کہ حقیقت میں دیکھنے والے کا صحابی بن جانا)یہ لازم نہیں ، کیونکہ صحابی ہونے کی شرط یہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کو عالمِ دنیا میں دیکھنا اور یہ بات آپ علیہ السلام کے وصالِ ظاہری سے پہلے ہی ممکن تھی ، وصالِ ظاہری کے بعد دیکھنا ، جبکہ آپ عالم برزخ میں ہوں ، اس سے صحابیت ثابت نہیں ہوتی۔ اور دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ جو شخص کرامات کے درجے کو نہ پہنچا ہو کہ جو عام مومن ہو ، اسے (بیداری میں زیارت) اس کی موت کے قریب روح نکلتے وقت نصیب ہوگی ۔۔۔اور جسے اللہ چاہے ، اس سے پہلے نواز دے اوربہرحال نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی بیداری میں اصلاً زیارت کرنے کے ممکن ہونے اور واقع ہونے پر ائمہ کی جماعت نے نص وارد کی ہے۔ (السراج المنیر شرح جامع الصغیر ، ج3، ص359 ، مطبوعہ دارالنوادر ،لبنان)

   علامہ عبد الرؤوف مناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: قول ابن حجر يلزم عليه أن هؤلاء صحابة وبقاء الصحبة للقيامة رد بأن شرط الصحبة رؤيته على الوجه المتعارف“ترجمہ: امام ابن حجر کا یہ قول کہ اس(بیداری میں زیارت رسول کے ممکن ہونے) سے لازم آئے گا کہ وہ صحابہ ہوجائیں اور یوں صحابیت قیامت تک باقی رہے گی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابیت کی شرط معروف طریقے سے(ظاہری حیات میں)دیدار کرنا ہے۔(فیض القدیر شرح جامع الصغیر ، ج6 0، ص 132، مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبری ،مصر)

   یونہی نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری میں ہے :”میں کہتا ہوں : جن کاملین نے خواب میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی زیارت کے بعد بیداری میں آپ کی زیارت کی ، اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ ان پر صحابہ کا اطلاق کیا جائے، کیونکہ صحابہ وہ ہیں جو رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی حیات ظاہری میں ایمان کے ساتھ آپ کی زیارت کریں اور جو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے وصال کے بعد آپ کی زیارت کریں ان کا صحابی ہونا لازم نہیں آتا۔“(نعمۃ الباری ، ج 15 ، ص799 ، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم