Islami Ahkam Ki Tashreeh Mein Ikhtilaf Hai Tu Phir Islam Par Amal Kyun Karen

اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے تو پھر اسلام پر عمل کیوں کریں؟

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری        

فتوی نمبر:LHR-1429B

تاریخ اجراء:12جمادی الاولیٰ 1445ھ/27 نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سیکولر لوگوں کے اس اعتراض کا کیا جواب ہے:” کون سا اِسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا جب تک یہ اختلاف ختم نہیں ہوجاتے، اسلام کو اجتماعی نظم سے باہر رکھو۔“

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اسلامی احکامات کی تشریح میں مختلف آراء ہونا کوئی مذموم شے نہیں ، بلکہ یہ اسلام کا حُسن  وآسانی ہے اور احادیث میں اس کی تائید موجود ہے۔ اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف کوئی ایسی شے نہیں جس کا ظہور آج پہلی دفعہ ہوگیا ہے،یہ تو قُرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک چلتا رہا ہے۔ تو اگر ان تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمان تیرہ سوسال تک حکومتیں چلاتے رہے ہیں، تو آج یہ یکایک کیوں ناممکن نظر آنے لگا ہے؟ اگر اجتماعی نظم میں اختلاف کو دور رکھنا چاہیے تویہ نظریہ فقط اسلام ہی کے متعلق کیوں ہے؟

   دراصل سیکولر و لبرل  طبقہ کا خود ساختہ  مفروضہ یہ ہے کہ جس امر اور اصول میں اختلاف ہو اجتماعی زندگی میں ناصرف یہ کہ وہ قابل عمل نہیں، بلکہ اسے باہر رکھنا بھی ضروری ہے، جب تک کہ متعلقہ ماہرین علم کا اس پر اجماع نہ ہوجائے۔ درحقیقت یہ علمی دلیل نہیں بلکہ دین پر عمل نہ کرنے کا بہانہ ہے ، کیونکہ اگر یہ اصول زندگی کے ہر پہلو اور شعبے پر لاگو کردیا جائے تو یقین مانیے زندگی کا وجود صفحہ ہستی سے ہمیشہ کےلیے مِٹ جائے گا۔ مثلاً اسی منطق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ :

   1.چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ زری ومالیاتی پالیسی کس طرح بنائی جانی چاہیے؟ لہٰذا اسٹیٹ بینک، پلاننگ کمیشن ،  ایف بی آر اور فنانس منسٹری وغیرہ کو اس وقت تک تالالگا دیاجائے جب تک تمام ماہرین معاشیات کااجماع نہ ہوجائے۔

   2.چونکہ ماہرین معاشیات کا غربت کی تعریف، اس کے اسباب و وجوہات اور اس کا سدباب کرنے کے طریقوں کے بارے میں اختلاف ہے ،لہٰذا ساری دنیا میں غربت مٹانے والے پروگرام فی الفور بند کردیئے جائیں جب تک کہ اِجماع نہ ہوجائے۔

   3.چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ملکیت کا کون سا نظام (نجی یا پبلک) اجتماعی ترقی کا ضامن ہے ، لہٰذا دنیا میں ملکیتوں کے تمام نظام معطل کردیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے۔

   4.چونکہ ماہرین طب (ایلوپیتھ،ہومیوپیتھ،حکمت) کا بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے درست طریقہ کار کے بارے میں اختلاف ہے،لہٰذا تمام ماہرین طب کو فی الفور علاج سے روک دیا جائےجب تک کہ اس پر اجماع نہ ہوجائے۔

   5.چونکہ ماہرین سیاسیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ریاست کی تعمیروتشکیل کے لیے کون سا نظام ریاست (آمریت، جمہوریت، اور اگر جمہوریت تو اس کی کون سی شکل) درست ہے ، لہٰذا دنیا میں ریاست کاری کے عمل کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے۔نیز جن سیاسی پارٹیوں کا باہم اختلاف ہے ان سب کو ختم کردیا جائے جب تک ان میں اتحاد نہیں ہوجاتا۔

   6.چونکہ ماہرین قانون کا آئین کی بہت سی بنیادی شقوں کی تشریح میں اختلاف ہے،لہٰذا آئین کو ایک طرف کردیاجائے۔

   7.سیکولر و لبرل جس سائنس کو حرف آخر سمجھتے ہیں اس سائنسی نظریات  میں بھی  آئے دن اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈارون کا نظریہ ہے کہ بندر سے انسان بنا ہے کئی سالوں سے یہی   سائنس کا بنیادی نظریہ رہا  ، لیکن اب کئی سائنسدان اس سے بہت زیادہ اختلاف کرتے ہیں۔ چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:

   ٭ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے کہ گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں۔

   ٭ڈی وریز (De Viries) ارتقاء کو باطل قرار دیتا ہے۔وہ اس کے بجائے انتقال نوع (Mutation) کا قائل ہے ، جسے آج کل فجائی ارتقاء (Emergence Evelution)کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ علت و معلول کی کڑیاں ملانے سے آزاد ہے۔

   ٭ولاس (Wallace) عام ارتقاء کا تو قائل ہے لیکن وہ انسان سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔

   ٭فرحو کہتا ہے کہ انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اور یہ کہنا لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔

   ٭میفرٹ کہتا ہے کہ ڈارون کے مذہب کی تائید ناممکن ہے اور اس کی رائے بچوں کی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔

   ٭آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارون کا مذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

   ٭دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء (اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا) محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔

   ٭پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth)نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے. اِس نظریے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے خود ساختہ سائنس کو  اِختیار کیا ہے۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔(ماخوذ از: نظریہ ارتقاء کے مخالف سائنسدانhttps://ur.wikipedia.org/wiki/)

   یہ لِسٹ درحقیقت نہ ختم ہونے والی کڑی ہے۔ ذرا تصور کیجئے یہ تمام امور کس قدر اہم شعبہ جات زندگی سے متعلق ہیں۔ انسانی زندگی و صحت کی قدر وقیمت سے کون انکاری ہوسکتا ہے اور ان اطباء کی آئے دن کی فاش علمی غلطیوں سے لوگ اپنی زندگی و مال و دولت سے محروم ہورہے ہیں، اسی طرح غربت کا خاتمہ ، نظام ملکیت کی بنیاد، ریاستی زری و مالیاتی پالیسی کاانتظام و انصرام اور سب سے بڑھ کر خود نظم ریاست کی بنیاد میں کون سا امر غیرضروری ہے؟ اب سوچئے کہ اگر ان شعبہ جات وعلوم کے یہ ”بنیادی اختلافات“ ہمیں دنیا بھر میں ان کی معاشرتی وریاستی ادارتی صف بندی (institutionalization) سے نہیں روک رہے ، تو دینی طبقے کے اختلافات کیوں ہمیں اس عمل سے روکتے ہیں؟ اصل بات نیت کی ہے اور سچ ہے کہ جب ایک عمل کرنے کےلیے انسان کی نیت نہ ہوتو اسے بہانہ بھی دلیل نظر آتا ہے۔

   کنز العمال میں ہے:”اختلاف امتی رحمة“ترجمہ:میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔(کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال،جلد 10، صفحہ 136 ، الرقم: 28686، مطبوعہ بیروت)

   احکام القرآن لابن العربی میں ہے:”فَأَمَّا الْاِخْتِلَافُ فِي الْفُرُوعِ فَهُوَ مِنْ مَحَاسِنِ الشَّرِيعَةِ“ترجمہ:فروعی مسائل میں اختلاف محاسن شریعت میں شمار ہوتا ہے۔‌‌حکام القرآن لابن العربی جلد 2  صفحہ111 مطبوعہ بیروت)

   جامع البیان میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:”یسرّنی لو أن أصحاب محمد لم یختلفوا؛ لأنھم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة ترجمہ:مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہ رہتی۔(جامع بیان العلم وفضلہ جلد 2 صفحہ 87 مطبوعہ بیروت)

   الاعتصام میں ہے امام شاطبی  فرماتے ہیں:”ووجدنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعده قد اختلفوا في أحكام الدين ولم يتفرقوا ولا صاروا شيعا“ترجمہ:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دین کے احکام میں اختلاف ضرور کیا ہے، لیکن ان کا یہ اختلاف ان کے باہمی افتراق اور گروہ بندی کا سبب نہیں بنا۔(الاعتصام جلد 2 صفحہ 231 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   صحیح بخاری  کی حدیث پاک ہے: عن ابن عمر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهمترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ احزاب سے واپسی پر ہمیں فرمایا : تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنی قریظہ   پہنچ کر پڑھے۔ اب نماز کا وقت راستے میں آ پہنچا تو بعض نے کہا: ہم تو جب تک بنی قریظہ کے پاس نہ پہنچ لیں گے، عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعض نے کہا: ہم نماز پڑھ لیتے ہیں، کیونکہ حضور علیہ السلام کے ارشاد کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کریں، پھر بارگاہ رسالت  میں اس واقعہ کا ذکر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی پر خفگی نہیں کی۔(یعنی ہر ایک کے عمل کو درست قرار دیا۔)(صحیح البخاری، باب صلاة الطالب والمطلوب راكبا وإيماء ،جلد2،صفحہ15،دارطوق النجاۃ،مصر)

   عبد الرحیم بن حسین عراقی اپنی کتاب” الأربعین العشاریۃ“میں فرماتے ہیں:”الاختلاف فی مسائل العقیدۃ المتفق علیھا عند أھل السنۃ والجماعۃ :فھذا اختلاف مذموم لأن العقیدۃ ثابتۃ بنصوص قطعیۃ فی الکتاب والسنۃ وقد أجمع علیھا الصحابۃ فلا یصح أن یکون فیھا اختلاف بین المسلمین“ ترجمہ: اہل سنت وجماعت کے متفق عقائد میں اختلاف مذموم ہے ، اس لیے کہ یہ عقائد نصوص قطعیہ کتاب وسنت اور اجماع صحابہ سے ثابت ہیں، جن میں اختلاف صحیح نہیں ہے۔(الأربعین العشاریۃ،جلد1،صفحہ3،دار ابن حزم،بیروت)

   ابن ماجہ کی شرح میں ہے:”واما اختلاف المجتھدین فیما بینھم وکذلک اختلاف الصوفیۃ الکرام والمحدثین العظام والقراء الاعلام فھو اختلاف لا یضلل أحدھم الاخر ۔۔۔ قال امام المحدثین السیوطی فی إتمام الدرایۃ نعتقد ان امامنا الشافعی ومالکا وأبا حنیفۃ وأحمد رضی اللہ تعالی عنھم وسائر الأئمۃ علی الھدی من ربھم فی العقائد۔۔۔ ونعتقد ان طریقۃ أبی القاسم الجنید سید الطائفۃ الصوفیۃ علما وعملا طریق مقدم فھو خال عن البدعۃ“ترجمہ:مجتہدین ،صوفیائے کرام،محدثین عظام، قراء حضرات کا باہمی اختلاف ایک دوسرے کو گمراہ نہیں ٹھہراتا۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہاتمام الدرایۃ  میں فرماتے ہیں کہ ہمارے امام شافعی،مالکی،ابو حنیفہ احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ کرام رب تعالیٰ کی طرف سے عقائد میں ہدایت پر تھے۔ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ابو القاسم جنید بغدادی صوفی علما و عملی طور پر صحیح راہ پرتھے ، بدعت والے اعمال سے خالی تھے۔(شرح سنن ابن ماجہ،جلد1،صفحہ283،مطبوعہ کراچی)

   میزان الشریعہ الکبری میں ہے:”ان اشارع بین لنا بسنتہ ما اجمل فی القرآن وکذلک الائمہ المجتھدین بینو لنا ما اجمل فی احادیث الشریعہ ولو لا بیانھم لنا ذلک لبقیت الشریعہ علی اجمالھا وھکذا القول فی اھل کل دور بالنسبہ للدور الذین قبلھم الی یوم القیامہ فان الاجمال لم یزل ساریا فی کلام علماء الامہ الی یوم القیامہ ولولا ذلک ما شریعت الکتب ولا عمل علی الشروح حواش“ترجمہ:شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی سنت کے ساتھ قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل کی ہے اور ایسے ائمہ مجتہدین نے ہمارے لیے احادیث شریعت کے اجمال کو بیان فرمایا ہے اور بالفرض ان کا بیان نہ ہوتا تو شریعت اپنے اجمال پر باقی رہتی اور یہی بات ہر اہل دور کی بہ نسبت اپنے پہلے دور والوں کی ہے قیامت تک اس لیے کہ اجمال علماء امت کے کلام میں قیامت تک جاری رہتا اگر ایسا نہ ہوتا ، تو کتابوں کی شرحیں اور شرحوں پر حواشی نہ لکھے جاتے۔(میزان الشریعۃ الکبری جلد 1 صفحہ 46 مطبوعہ مصطفی البابی ، مصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم