Ijtihadi Khata Kise Kehte Hain?

اجتہادی خطا کسے کہتے ہیں ؟

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3179

تاریخ اجراء:08ربیع الثانی1446ھ/12اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اجتہادی خطا کسے کہتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی حکم کوپہچاننے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرنا،اجتہادکہلاتاہے ۔اوراپنی پوری طاقت صرف کرنے کے باوجوداصل شرعی حکم تک پہنچنے میں مجتہدسے خطاہوجائے تویہ خطا،خطائے اجتہادی کہلاتی ہے۔لیکن یہ یادرہے کہ مجتہدسےپوری طاقت صرف کرنے کے بعدخطاہوجائے تواس کوشش پربھی اس کوایک اجر ملتاہے اوراگروہ درست حکم تک پہنچ جائے تواسے دواجر ملتے ہیں،ایک کوشش کرنے کااوردوسرادرست حکم تک پہنچنے کا۔

   چنانچہ علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ اجتہاد کی لغوی تعریف کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:’’الاجتهاد وهو في اللغة تحمل الجهد اي المشقة‘‘ترجمہ: اجتہاد کا لغوی معنی کوشش کرنا یعنی مشقت اٹھانا ہے۔(شرح التلویح علی التوضیح ،ج2،ص234، مكتبة صبيح بمصر)

   علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح البخاری میں اجتہاد کی اصطلاحی تعریف تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اصطلاحا  بذل الوسع للتوصل الى معرفة الحكم الشرعي‘‘ ترجمہ: اصطلاح میں اجتہاد حکم شرعی کی معرفت کے حصول کے لیے طاقت کو استعمال کرنے کا نام ہے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری ،ج13 ،ص 299، دار المعرفۃ، بیروت)

   مزید تفصیل کے لئے  بہار شریعت وغیرہ کتب کا مطالعہ کر لیا جائے۔

   مجتہد درستی کوپہنچے یانہ پہنچے ،بہرصورت وہ ماجور ہی ہوتا ہے یعنی اسے اجر دیا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:’’عن عمرو بن العاص انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:اذا حكم الحاكم فاجتهد ثم اصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد ثم اخطا فله اجر‘‘ ترجمہ: حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ  انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جب حاکم اجتہاد کر کے حکم(فیصلہ) کرے اور درستی کو پہنچے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب اجتہاد کر کے حکم (فیصلہ) کرے اور خطا کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔(صحیح البخاری، ج09، ص 108 ،حدیث نمبر 7352، دار طوق النجاۃ)

   نور الانوار میں ہے”أنه اتي بما كلف به في ترتيب المقدمات و بذل جهده فيها فكان مصيبا فيه وان أخطأ في آخر الأمر وعاقبة الحال فكان معذورا بل ماجورا لأن المخطى له أجر و المصيب له اجران ترجمہ: خطا کرنے والے مجتہد نے بھی،جس کا وہ مکلف تھا  ترتیب مقدمات میں اس نے کیا اور اپنی ساری کوشش صرف کی اور اس میں حق بجانب رہا، اب اگر آخری مرحلے و نتیجہ ظاہر کرنے میں اس سے  خطا ہوئی  تو وہ معذور بلکہ ماجور ہوگا کیونکہ مجتہد  مخطی کو ایک ثواب اور مصیب(درستی کو پہنچنے والے)کو دو ثواب ملتے ہیں۔(نور الانوار،مبحث الاجتھاد،ص 251،مطبوعہ لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم