Sahaba Me Khalifa e Awwal Kon Hain?

 

صحابہ میں خلیفہ اول کون ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-5512

تاریخ اجراء:09جمادی الاولی1439ھ/27جنوری2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں یا حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ؟ اور اس بارے میں امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کیا فرماتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اہلسنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ انسانوں  میں سے انبیاء  اور مرسلین علیہم السلام  کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سب سے افضل اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کے حقدار ہیں، پھر حضرت سیدنا فاروق اعظم، پھرجمہور اہلسنت کے نزدیک حضرت سیدنا عثمان غنی اور پھر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ہیں ( رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔ ان کی خلافت بر ترتیب فضیلت ہے،یعنی جو عند اللہ  افضل و اعلیٰ  تھا ،وہی خلافت پاتا گیا۔

   حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت و خلافت پر کثیر دلائل موجود ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

   اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمۡ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِہِمْ  وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا  یَعْبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشْرِکُوۡنَ بِیۡ شَیْـًٔا  وَ مَنۡ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوۡنَ ترجمہ: اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا، جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لیے جما دے گا ،ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے ،تو وہی لوگ بے حکم ہیں۔‘‘ ( پارہ 18، سورۃ النور، آیت 55)

   اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر خازن میں ہے: ’’ وفي الآية دليل على صحة خلافة ابي بكر الصديق والخلفاء الراشدين بعده، لان في ايامهم كانت الفتوحات العظيمة وفتحت كنوز كسرى وغيره من الملوك، وحصل الامن والتمكين وظهور الدين عن سفينة ‘‘ ترجمہ: اس آیت کریمہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آپ کے بعد ہونے والے خلفائے راشدین کی خلافت پر دلیل ہے، کیونکہ ان کے زمانے میں عظیم فتوحات ہوئیں اور کسرٰی وغیرہ ملوک کے خزائن مسلمانوں کے ہاتھ آئےاور امن و تمکین اور دین کا غلبہ حاصل ہوا ۔‘‘ ( تفسیر خازن، پارہ 18، سورۃ النور، تحت آیت 55، جلد 3، صفحہ 360، مطبوعہ پشاور)

   ایک اور مقام پہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی ترجمہ: اور بہت اس سے دور رکھا جائے گا ،جو سب سے بڑا پرہیزگار ۔‘‘( پارہ 30، سورۃ اللیل، آیت 17)

   اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر کبیر میں ہے: ’’اجمع المفسرون منا علی ان المراد منہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ‘‘ ترجمہ: ہمارے مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہاں اتقی سے مراد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ ( تفسیر کبیر، پارہ 30، سورۃ اللیل، تحت آیت 17، جلد 31، صفحہ 187، مطبوعہ بیروت)

   جامع ترمذی میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لا ینبغی لقوم فیھم ابو بکر ان یؤمھم غیرہ‘‘ ترجمہ: کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کی موجودگی میں کوئی اور امامت کرے ۔‘‘ ( جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، جلد 2، صفحہ 208، مطبوعہ  کراچی)

   اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’ وفيه دليل على انه افضل جميع الصحابة، فاذا ثبت هذا فقد ثبت استحقاق الخلافة‘‘ ترجمہ: اس حدیث میں دلیل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ کرام سے افضل ہیں، پھر جب افضلیت ثابت ہو گئی، تو خلافت کا حقدار ہونا بھی ثابت ہو گیا ۔‘‘ ( مرقاۃ المفاتیح، کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ، جلد 11، صفحہ 182، مطبوعہ  کوئٹہ)

   جامع ترمذی اور المستدرک میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اقتدوا   بالذین من   بعدی ابی بکر وعمر‘‘ ترجمہ: میرے بعد ابو بکر و عمر ( رضی اللہ عنہما) کی پیروی کرنا۔‘‘ ( جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، جلد2، صفحہ 207، مطبوعہ  کراچی)

   بخاری شریف میں ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کنا نخیر بین الناس فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فنخیر ابا بکر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم‘‘ ترجمہ: ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل سمجھتے تھے، پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفان کو ( رضی اللہ عنہم اجمعین)۔‘‘   ( صحیح البخاری، ابواب المناقب، باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، جلد 1، صفحہ 516، مطبوعہ  کراچی)

   اسی میں ہے،حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد گرامی ( حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم) سے پوچھا: ’’ای الناس خیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قال: ابو بکر، قلت: ثم من؟ قال: ثم عمر، وخشیت ان یقول عثمان، قلت: ثم انت؟ قال: ما انا الا رجل من المسلمین‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سے افضل کون ہے؟ تو فرمایا : ابوبکر، میں نے عرض کی پھر کون؟ فرمایا: عمر، میں نے سوچا کہ اس کے بعد آپ عثمان کا نام لیں گے، تو میں نے پوچھا: عمر کے بعد آپ ہوں گے؟ فرمایا: میں تو محض مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں۔‘‘( صحیح البخاری، ابواب المناقب، باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم، جلد 1، صفحہ 518، مطبوعہ  کراچی)

   سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: ’’لا اجد احداً فضلنی علی ابی بکر وعمرالا جلدتہ حد المفتری‘‘ ترجمہ: میں جسے پاؤں گا کہ مجھے ابو بکر و عمر سے افضل کہتا ہے، اسے الزام تراشی کی سزا کے طور پر کوڑے ماروں گا۔‘‘ ( صواعق المحرقہ، جلد 1، صفحہ 177،  مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   شرح فقہ اکبر میں ہے: ’’(افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر الصدیق ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علی بن ابی طالب) واولی ما یستدل بہ علی افضلیۃ الصدیق فی مقام التحقیق نصبہ علیہ الصلوۃ والسلام لامامۃ الانام مدۃ مرضہ فی اللیالی والایام، ولذا قال اکابر الصحابۃ رضیہ صلی اللہ علیہ وسلم لدیننا، افلا نرضاہ لدنیانا‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابو بکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر علی ( رضی اللہ عنہم اجمعین)اور پہلی دلیل جس سے افضلیت ابو بکر صدیق پر استدلال کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تکلیف کے دنوں اور راتوں میں لوگوں پر امام مقرر فرمایا تھا، اسی لیے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا تھا کہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا دینی رہنما پسند فرمایا، ہم اسے اپنا دنیاوی رہنما کیوں نہ پسند کریں۔ ( شرح فقہ اکبر، صفحہ 182 تا 186، دار البشائر الاسلامیہ، بیروت)

   عقائد النسفیہ میں ہے: ’’افضل البشر بعد نبینا ابوبکر الصدیق، ثم عمر الفاروق، ثم عثمان ذو النورین، ثم علی رضی اللہ عنھم، وخلافتھم علی ھذا الترتیب ایضاً‘‘ ترجمہ: انبیائے کرام کے بعد سب سے افضل ابو بکر صدیق، پھر عمر فاروق پھر عثمان ذو النورین پھر علی المرتضیٰ ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) ہیں اور ان کی خلافت بھی اسی ترتیب سے ہے۔‘‘ ( شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 321 تا 324، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ’’ہم مسلمانانِ اہلسنت و جماعت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت و امامتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ بالقطع والتحقیق ( قطعاً یقیناً تحقیقاً) حقہ راشدہ ہے۔‘‘ ( فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 381، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے : ’’ان کی خلافت بر ترتیب فضلیت ہے، یعنی جو عند اللہ افضل و اعلیٰ واکرم تھا وہی پہلے خلافت پاتا گیا، نہ کہ افضیلت برترتیب خلافت۔ ‘‘ ( بھار شریعت، حصہ 1، صفحہ 247، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم