Halat e Naza Mein Iman Qabool Karne Ka Hukum

حالتِ نزع میں ایمان قبول کرنا معتبر ہے یا نہیں ؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1132

تاریخ اجراء: 20جمادی الاول1445 ھ/05دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا حالتِ غرغرہ یعنی جب بندہ نزع کی حالت میں پہنچ جائے اور اس وقت ایمان قبول کرے،تو اس کا ایمان قبول کرنا مانا جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حالتِ غرغرہ یعنی جب بندے کی روح  نکل کر حلق تک پہنچ جائے اور اسے اپنی موت کا یقین ہوجائے ،اس وقت اگر کوئی کافر ایمان قبول کرتا ہے، تو اس کا ایمان مقبول نہیں کہ ایمان کا بالغیب ہونا ضروری ہے جبکہ اس مقام پر وہ غیب کا مشاہدہ کرچکا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فرعون نے جب سمندر میں ڈوبتے وقت ایمان لانا چاہا، تو اس کا ایمان لانا مقبولِ بارگاہ نہ ہوا ۔البتہ یہ بات واضح رہے کہ اس موقع پر اگر کوئی مسلمان شخص اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، تو اس کی توبہ اس وقت بھی مقبول ہے۔ اللہ پاک  ہمیں ایمان پر موت نصیب فرمائے۔

   تفسیر روح البیان میں آیت کریمہ:”فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا“کے تحت ہے:”لا يقبل الايمان حال الغرغرة“یعنی حالتِ غرغرہ کا ایمان مقبول نہیں۔

   اسی  میں ہے:”واما ايمان البأس بالياء المثناة التحتية وهو الايمان بعد مشاهدة احوال الآخرة ولا تكون الا عند الغرغرة ووقت نزع الروح من الجسد ففى كتب الفتاوى انه غير مقبول بخلاف توبة البأس فانها مقبولة على المختار“یعنی عذاب اور آخرت کے معاملات کو دیکھ کر ایمان لانا جو کہ غرغرے کے وقت اور روح کی جسم سے جدائی کے وقت ہوتا ہے تو اس کے متعلق کتب فتاوی ناطق ہیں کہ اس وقت کا ایمان لانا مقبول نہیں،ہاں مذہبِ مختار کے مطابق اس وقت کی توبہ ضرور مقبول ہے۔(روح البیان،جلد8،صفحہ223، دار الفكر ،بيروت)

   مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم نے ارشاد فرمایا :” إن اللہ يقبل توبة العبد ما لم يغرغر “یعنی اللہ پاک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک وہ غرغرہ کو نہ پہنچے۔ (مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، حدیث 2343، جلد 5،صفحہ 250، مطبوعہ:بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”أي ما لم تبلغ الروح إلى الحلقوم يعني ما لم يتيقن بالموت فإن التوبة بعد التيقن بالموت لم يعتد بها “یعنی جب تک اس کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے یعنی جب تک اسے موت کا یقین نہ ہو جائے کیونکہ موت کا یقین ہوجانے کے بعد توبہ کسی شمار میں نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح، حدیث 2343، جلد 5،صفحہ 250۔251، مطبوعہ:بیروت)

   مراۃ المناجیح میں ہے :”نزع کی حالت کو جبکہ موت کے فرشتے نظر آجائیں غرغرہ کہتے ہیں،اس وقت کفر سے توبہ قبول نہیں کیونکہ ایمان کے لیے ایمان بالغیب ضروری ہے، اب غیب مشاہدہ میں آگیا، اسی لیے ڈوبتے وقت فرعون کی توبہ قبول نہ ہوئی، مگر گناہوں سے توبہ اس وقت بھی قبول ہے، اگر توبہ کا خیال آجائے اور الفاظ توبہ بن پڑیں۔ اسی لیے مرقات نے یہاں فرمایا کہ عبد سے مراد بندۂ کافر ہے کہ غرغرہ کے وقت اس کی توبہ قبول نہیں ، رب تعالیٰ فرماتا ہے: حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الۡـٰٔن.. الخ بعض علماء نے فرمایا کہ ملک الموت ہر مرنے والے کو نظر آتے ہیں مومن ہو یا کافر، خیال رہے کہ قبض روح پاؤں کی طرف سے شروع ہوتا ہے تاکہ بندہ کی اس حالت میں دل و زبان چلتے رہیں گنہگار توبہ کرلیں کہا سنا معاف کرالیں۔ کوئی وصیت کرنی ہو تو کرلیں یہ بھی خیال رہے کہ غرغرہ کے وقت گناہوں سے توبہ کے معنے ہیں گزشتہ گناہوں پر شرمندہ ہوجانا، اب آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد بے کار ہے کہ اب تو دنیا سے جارہا ہے، گناہ کا وقت ہی نہ پاسکے گا، مگر یہ توبہ اس وقت کی قبول ہے کہ رب تعالیٰ غفار ہے۔“(مراۃالمناجیح جلد3،صفحہ 365،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم