مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD:8660
تاریخ اجراء:22جمادی الاولیٰ 1445ھ/07 دسمبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ لبرل کہتے ہیں کسی چیز کے حلال و حرام یا غلط و صحیح ہونے کے لئے اسلام کے ہی اصول و قوانین لازمی نہیں ، اس طرح تو ملک و معاشرہ ترقی نہیں کرتا ،دیگر ذرائع سے بھی اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صرف اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات(Universe) کا حقیقی خالق و مالک ہے؛اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،اللہ تعالیٰ نے اس کائنات اور خصوصاً انسان کو نہ صرف پیدا فرمایا ،بلکہ اپنے کلام اور اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیج کر اس کائنات میں رہنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔یہ سلسلہ قرآن پاک اور حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ختم فرمایا ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی مکمل زندگی کا دستور بیان کردیا اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ذات کوہر درجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے بہترین نمونہ بنا کربھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مالک و خالق کی جانب سے انسانیت کی بہتری کے لئے فراہم کردہ اصول وقوانین کو عملی زندگی میں اَپنا کر مکمل طور پر سمجھا بھی دیا ،کائنات اور انسان کے لیے تمام ضروری اصول وقوانین اجمال یا اختصار کے ساتھ مکمل طور پر بیان کردئیے۔قرآن پاک اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو اللہ تعالیٰ نے اسلام قرار دیا، ،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معتبر صرف یہی دین ’’اسلام‘‘ہے،دین اسلام ہی وہ واحد کامل و اکمل دین ہے کہ جس میں زندگی کی ہر مشکل و مسئلے کا حل موجود ہے،اسی دین اسلام کو انسانوں کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا۔
جب خالق ومالک نے ہمارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا اور دنیاوآخرت میں کامیابی و کامرانی کا معیار قرار دیا ،تو دین اسلام کو چھوڑ کے اس کے برعکس و مخالف کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا اپنے خالق ومالک سے بغاوت بھی ہے اور ناشکری بھی ،خالق ومالک نے اشرف المخلوقات انسان کو دین اسلام کو ہی اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور دین اسلام اور اسلامی احکامات کو چھوڑ کر کوئی دوسرا دین اور طریقہ اختیار کرنے پر اپنے قہر و جلال اور درد ناک عذاب کی وعید بھی سنائی ہے جو کہ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کرنے والے اوردین اسلام کو چھوڑ کرکسی اسلام کے مخالف قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے انسان کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ، فاسق و ظالم اور اسلامی احکامات کا انکار کرتے ہوئے فیصلہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے کافر قرار دیا ہے۔مسلمان تو ہوتا ہی وہ ہے جو دل میں تنگی محسوس کیے بغیر کھلے دل کے ساتھ اپنی زندگی کے جملہ مسائل و حادثات میں صرف و صرف اسلا م قوانین کو ہی معیار بنائے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد یعنی سر تسلیم خم کرلینے کے بعد سرکشی کرتے ہوئے اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسلام کے مخالف قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کا اصلا ً ہی اختیار نہیں رہتا۔
لہٰذا مسلمان کے پاس کسی بھی چیز کو حلال و حرام یا صحیح و غلط قرار دینے کا واحد و آخری اصول اسلام ہی ہے اور اسلام ہی کے ذریعے انسانیت کی ترقی ممکن ہے ،اسلام کے مخالف کسی بھی اصول و قانون کو اختیار کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
عقل و دانش کا بھی یہی تقاضا ہے کہ فقط اسلامی قوانین کو ہی اختیار کیا جائے ، کیونکہ اسلامی قوانین کی بنیاد وحی الہی پر ہے، اسی لیے یہ ان تمام نقائص سے پاک ہے جو انسانی قوانین میں موجود ہیں۔ اسلامی قوانین میں وہ ضروری خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا کسی دوسرے قوانین میں پایا جانا، ناممکن ہے ۔ ذیل میں چند ایک خصوصیات درج کی جارہی ہیں تاکہ اسلامی قوانین کی حقانیت مزید واضح ہوسکے:
(1)اسلامی قوانین میں جامعیت وہمہ گیری پائی جاتی ہے کہ انسانوں کی بنیادی اور اہم ضروریات اور انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کو منظم کرنے اور ان سب کے بارے میں رہنمائی کا سامان اسلامی قوانین میں موجود ہے۔ معاملہ عقائد وعبادات کاہو، اخلاق وتمدن کاہو، سیاست وحکومت کاہو، ملازمت و تجارت کاہو، تعلیم وتربیت کاہو، شادی بیاہ کاہو، سیروتفریح اور غم ومصیبت کاہو، غرضیکہ انسانی زندگی سے متعلق جس قسم کا بھی معاملہ ہو اسلامی قوانین اس میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔
(2)اسلامی تعلیمات کا روئے سخن کسی خاص قوم یا علاقہ کی طرف نہیں، بلکہ” یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ“ کہہ کر تمام روئے زمین کے انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کسی خاص قوم ، علاقہ یا زمانہ کے لئے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ آپ خاتم النبیین ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت تک تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے،یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ کسی بھی مزاج،قوم یا زمانے سے ہو اسلام اس کی کامل رہنمائی کرتا ہےجبکہ دنیا کے کسی دوسرے قانون میں یہ وسعت نہیں پائی جاتی کہ وہ بغیر کسی تغیر و تبدل کے ہر قوم،جنس، طبقے اور ہرزمانے پر لاگو ہوسکے۔
(3)اللہ تعالیٰ نے انسان کےجسم اور مزاج کو پیدا فرمایا،اللہ تعالیٰ انسان سے بڑھ کر انسان کی فطرت کو جاننے والا ہے،اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قوانین مردو عورت،بچے،بوڑھے،جوان کی فطرت اور ضرورت سے مکمل ہم آہنگ ہیں،یہ خصوصیت صرف اسلامی قوانین میں پائی جاتی ہے،جبکہ انسان کے خودساختہ قوانین میں فطرت سے بغاوت اور خواہشات کے غلبہ کا رجحان ہرجگہ نمایاں ہے اور آج کا جدید انسان بھی یہ بخوبی جان چکا ہے کہ فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لیے نقصان وخسران اور تباہی وبربادی کا سبب بناہے۔
(4)اسلامی قوانین کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ہم آہنگی اوراعتدال ہے یعنی انسانی زندگی کے جتنے تقاضے ہیں، ان سب کے درمیان اس طرح ہم آہنگی رکھی گئی ہو کہ کوئی اہم تقاضا مجروح نہ ہونے پائے۔ کسی ایک تقاضے کی قیمت پر دوسرے تقاضے کی تکمیل کا سامان نہ کیا گیا ہو۔ اس باب میں دنیا کا کوئی قانون اسلامی قوانین کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سیکولر نظاموں نے انسانوں کی مادی اور جسمانی ضروریات پر زیادہ زور دیا۔ روحانی تقاضوں کو چھوڑ دیا۔ بعض قدیم مذاہب نے روحانی اور اخلاقی تقاضوں پر زور دیا اور مادی اور جسمانی تقاضوں کو نظر انداز کردیا۔ بعض اقوام نے محض اخلاقی ہدایات کو کافی سمجھا اور تعلق مع اللہ اور روحانیات کی تربیت کو غیر ضروری قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے محض تعلق باللہ اور روحانیات کو کافی سمجھا اور بقیہ تفصیلات کو چھوڑ دیا۔فی الوقت دنیا میں اسلام کے علاوہ مذاہب اور غیر اسلامی قوانین میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔
(5)اسلامی قوانین کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس میں قانون اور اخلاق دست بدست چلتے ہیں، قانون اخلاق کا پاسدار ہے اور اخلاق قانون کا محافظ ہے۔اسلامی قوانین میں اعلیٰ اخلاقیات کے ساتھ جو ہم آہنگی اور ربط پایا جاتا ہے وہ بے مثال ہے،جبکہ جدید دنیا میں قانون اور اخلاق کو جدا جدا بلکہ کئی ایک جگہوں پر قانون اور اخلاق کو ایک دوسرے کی ضد تصور کیا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اکثر طور پر اعلیٰ اخلاق سے عاری نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں،علمائے اہلسنت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ، یہاں پر مختصر طور پر چند ایک خصوصیات کو ذکر کیا گیا ہے۔
اب دلائل ترتیب سے ذکر کیے جاتےہیں:
اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کو انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنی کتابیں دے کر بھیجا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ-وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْۚ-فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖؕ-وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۲۱۳)﴾ ترجمہ کنزالعرفان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات میں فیصلہ کردے اورجن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے ہی اپنے باہمی بغض و حسد کی وجہ سے کتاب میں اختلاف کیا (یہ اختلاف )اس کے بعد(کیا) کہ ان کے پاس روشن احکام آچکے تھے تو اللہ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے اُس حق بات کی ہدایت دی جس میں لوگ جھگڑ رہے تھے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔(پارہ2،سورۃ البقرۃ ،آیت213)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک ذات ہر درجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱)﴾ترجمہ کنز العرفان: بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔(پارہ21،سورۃ الاَحزاب،آیت 21)
قرآن پاک میں دنیا کےہر مسئلے کا حل موجود ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں ہر علم کو جمع فرمایا،جیسا کہ سورہ النحل کی آیت نمبر 89 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان :اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔(پارہ14،سورہ النحل،آیت 89)
یونہی سور ہ انعام کی آیت نمبر38 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔(پارہ7،سورہ الاَنعام،آیت 38)
اسی بات کو اللہ تعالیٰ سورہ یوسف میں یوں بیان فرماتا ہے کہ:﴿مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠(۱۱۱)﴾ترجمہ: کنزالعرفان: یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو خود بنالی جائے لیکن (یہ قرآن) ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے تھیں اور یہ ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔(پارہ 13،سورہ یوسف،آیت111)
دین اسلام کامل و اکمل ضابطہ حیات ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ترجمہ کنز العرفان: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا کیا۔(پارہ 6،سورہ المائدۃ،آیت 3)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معتبر صرف دین اسلام ہی ہےجیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-﴾ترجمہ کنز العرفان:بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔(پارہ3،سورۃ اٰل عمران،آیت 19)
دين اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)﴾ترجمہ کنز العرفان: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔(پارہ3،سورۃ اٰل عمران،آیت 85)
مسلمانوں پر اپنے مسائل اور اختلافات کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے فراہم کردہ اصول و قوانین کے مطابق ہی حل کرنے کرنے کا حکم ہے اور یہی انسان کے لئے بہتر ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے تواگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔(پارہ5،سورۃ النساء،آیت 59)
حدود اللہ کو پامال کرنے والے ظالم ہیں ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان:اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(پارہ2،سورہ بقرۃ،آیت229)
اللہ تعالیٰ کے نازل شدہ احکامات کے خلاف فیصلہ کرنے والے ظالم ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان:اور جواس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔(پارہ6،سورۃ المائدۃ،آیت 45)
اللہ تعالیٰ کے نازل شدہ احکامات کے خلاف فیصلہ کرنے والے نافرمان ہیں :﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان :اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا تووہی لوگ نافرمان ہیں۔(پارہ6،سورۃ المائدۃ،آیت 47)
قرآن و حدیث کو چھوڑ کر شریعت کے مخالفین سے فیصلہ کروانے والے دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(۶۰)﴾ترجمہ کنز العرفان: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اُس پر ایمان لے آئے ہیں جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا ، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے شیطان کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے بالکل نہ مانیں اورشیطان یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں بھٹکاتا رہے۔(پارہ5،سورۃالنساء،آیت 60)
اللہ تعالیٰ کے نازل شدہ احکامات کے خلاف،انکار کرتے ہوئے فیصلہ کرنے والے کافر ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان:اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا تو وہی لوگ کافر ہیں۔(پارہ6،سورۃ المائدۃ،آیت 44)
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فراہم کردہ قوانین کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرنے والے سب بڑے گمراہ بھی ہیں:﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْؕ-وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠(۵۰)﴾ترجمہ کنز العرفان :پھر اگر وہ یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کی پیروی کررہے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو الله کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے ۔بیشک الله ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(پارہ20،سورۃ القصص،آیت 50)
حبیب ِ خدا، محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو تسلیم کرنا فرضِ قطعی ہے۔ جو شخص تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، ایمان کا مدار ہی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنے پر ہے اور مسلمان وہی ہے کہ جو اپنے مسائل اور جھگڑوں میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوہی حاکم تسلیم کرے، نہ صرف حاکم تسلیم کرے بلکہ اپنے دلوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے متعلق کوئی رکاوٹ نہ پائیں اور دل و جان سے تسلیم کرلیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵)﴾ترجمہ کنز العرفان:تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں۔(پارہ5،سورہ النساء،آیت 65)
اپنے آپ کو مومن کہلوانے کے بعد اسلام سے پھر جانے والے اور اللہ و رسول عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰ لہ و سلم کے اصول و قوانین کے مطابق فیصلہ کروانے سے روگرادنی کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ منافق ہیں:﴿وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَؕ-وَ مَاۤ اُولٰٓىٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ(۴۷)وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان:اور (منافقین) کہتے ہیں: ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت کی پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد پھر جاتا ہے اور (حقیقت میں ) وہ مسلمان نہیں ہیں ۔اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اسی وقت ان میں سے ایک فریق منہ پھیر نے لگتا ہے۔(پارہ18،سورۃ النور،آیت 47،48)
احکام اسلام کو پس پشت ڈال کر اسلام کے مخالف احکاما ت کواپنانا عذاب الہیٰ کا سبب ہے :﴿وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان : اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں خبر (بھی) نہ ہو۔(پارہ 24،سورۃ الزمر،آیت 55)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کو فتنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے:﴿لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًاۚ-فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ترجمہ کنز العرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے، بیشک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں تو رسول کے حکم کی مخالفت کرنے والے اس بات سے ڈریں کہ انہیں کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں دردناک عذاب پہنچے۔(پارہ18،سورہ النور،آیت 63)
مسلمان ہونے کے بعد کسی بھی مسلمان کو اللہ و رسول عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف، کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا﴾ترجمہ: کنزالعرفان:اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کاحکم نہ مانے تووہ بیشک صر یح گمراہی میں بھٹک گیا۔(القرآن،پارہ 22،سورۃ الاحزاب،آیت36)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟