Halaku Khan Ne Jab Baghdad Par Hamla Kya Tha To Ulama Aapas Me Munazre Kar Rahe Thy?

ہلاکو خان نے جب بغداد پر حملہ کیا تھا تو علماء آپس میں مناظرے کر رہے تھے؟

مجیب:محمد احمد سلیم مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-8781

تاریخ اجراء:09شعبان المعظم 1445ھ/20 فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مشہور اعتراض علماء پر ہوتا ہے کہ  مذہبی رہنماؤں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہ ہو گیا ہے، سنا ہے کہ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو مذہبی رہنما کوے کے حلال و حرام ہونے اور مسواک کی لمبائی پر مناظرے کر رہے تھے، شرعی رہنمائی فرما دیں کہ کیا واقعی معاشرے کی تباہی کے پیچھے مذہبی رہنماؤں کے آپسی اختلافات ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال کے جواب سے پہلے تمہیداً یہ جان لیا جائے کہ علمائے کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہمیں کیا درس و نصیحت فرماتے ہیں اور علماء کے اوصاف قرآن و حدیث میں کس انداز سے بیان ہوئے ہیں۔

   علماء کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِترجمہ: اور اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔ (القرآن، سورۃ آل عمران، پارۃآیت 18)

   اس آیت مبارکہ سے علماء کی اہمیت کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے علماء کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور علماء کو اپنی وحدانیت کا گواہ بنایا اور ان کی گواہی کو اپنے معبود ہونے کی دلیل قرار دیا اور علماء کی گواہی کو فرشتوں کی گواہی کی طرح معتبر ٹھہرایا۔

   علماء کی فضیلت کے بارے ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور کئی کتب احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فضل العالم على العابد، كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب، وإن العلماء ورثة الأنبياء “ترجمہ: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت دیگر ستاروں پر ہے اور بے شک علماء، انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔(سنن ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث على طلب العلم، حدیث نمبر 3641 ، جلد 3، صفحہ 317، مطبوعہ بیروت)

   علم و علماء کے بارے میں المعجم الاوسط للطبرانی، شرح مشکل الآثار، حلیۃ الاولیاء، شعب الایمان اور کئی کتب احادیث میں روایت ہے”عن أبي بكرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اغد عالما، أو متعلما، أو مستمعا، أو محبا، ولا تكن الخامسة فتهلك “ترجمہ: حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عالم بن جاؤ یا طالب علم بن جاؤ یا علم سننے والے بن جاؤ یا (علم و علماء) سے محبت رکھنے والے بن جاؤ، پانچویں قسم نہ بننا، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔(المعجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، جلد 5، صفحہ 231، مطبوعہ قاھرۃ)

   اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد "جامع بیان العلم وفضلہ" میں ہے”الخامسة التي فيها الهلاك معاداة العلماء، وبغضهم ومن لم يحبهم فقد أبغضهم أو قارب ذلك وفيه الهلاك“ترجمہ: پانچویں قسم کہ جس کے لئے ہلاکت ہے، وہ علماء سے دشمنی اور ان سے بغض رکھنا ہے اور جو علماء سے محبت نہیں رکھتا، تو وہ ان سے بغض رکھتا یا اس کے قریب قریب ہوتا ہے اور اس میں ہلاکت ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، جلد 1، صفحہ 147، مطبوعہ عرب)

   اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر فرد کو غور کر لینا چاہیے کہ وہ ان پانچوں اَقسام میں سے کس قسم میں داخل ہے اور علماء کے بارے میں اس کا طرز عمل کیسا ہے؟ دراصل آج کل کے دور کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ علمائے دین کے بارے میں جملے کَسنا اور ان کے خلاف بولنا ایک فیشن سا بنتا جا رہا ہے، جسے بھی اپنی ذاتی اَنا کی تسکین کرنی ہو، وہ علماء اور دینی اَحکام پر ہرزہ سرائی شروع کر دیتا ہے اور جو شخص لبرل زدہ ذہنیت کا حامل ہو اور قسمت سے ایک عدد موبائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی استطاعت رکھتا ہو، وہ علماء پر تنقید کو اپنا فرض منصبی سمجھ لیتا ہے اور پھر علماء کرام کو بدتمیزی، الزام تراشی، طعنہ زنی، تحقیر و تذلیل اور انگشت نمائی سے مشق ستم بنانا ضروری سمجھتا ہے، کبھی علماء کے لباس پر اعتراض، کبھی مدارس پر اعتراض، کبھی ان کی گفتگو پر اعتراض کیا جاتا ہے اور علماء کو مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمہ دار، جدید دور سے ناواقف و نابلد اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے، چاہے اس کام کے لئے ایسے افراد کو جھوٹ اور  بہتان تراشی کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے اور معاذ اللہ دینی احکام کو چھوٹا و غیر اہم ہی کیوں نہ ثابت کرنا پڑے، وہ اس سے گریز نہیں کرتے، یہ اعتراضات در اصل حسد، اسلام دشمنی اور جہالت پر مبنی ہوتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس کے لئے ایسے بے تکے جملوں اور مفروضوں کا سہارا لیا جاتا ہے، جو ایسی ذہنیت والوں کے کانوں کی تسکین تو ہوتے ہیں، مگر ان کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور اگر ان بے بنیاد جملوں کو کھنگالا جائے تو یہ مغالطے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے۔ اس صورت حال کی عکاسی شاعر کا یہ شعر کرتا ہے کہ

ہم اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

   انہیں بے سرو پا جملوں میں سے ایک جملہ کہ جس کا ہر دوسرے لبرل شخص نے رَٹا لگایا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ "جب بغداد پر حملہ ہوا، تو علماء کوے کے حلال و حرام ہونے اور مسواک کی لمبائی پر مناظرے کر رہے تھے" یہ ایسا جملہ ہے کہ جس کے لفظ لفظ سے علماء کے بارے میں حقارت جھلکتی ہے اور دینی احکامات پر بحث کرنے کو بڑے بھونڈے انداز میں غیر اہم و فضول بحث ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

   اس حوالے سے چند ایک باتیں پیش خدمت ہیں:

   (1) اولاً یہ کہ اس واقعے یا اس سے ملتے جلتے وہ واقعات کہ جو علماء پر ہرزہ سرائی کے لئے مشہور کیے جاتے ہیں، اگر ان کی سند اور ان کے ثبوت کو تلاش کیا جائے کہ یہ واقعہ حقیقت میں وقوع پذیر ہوا بھی تھا یا نہیں؟ تو کھنگالنے پر پتہ چلے گا کہ یہ واقعہ آج سے بیس تیس سال پہلے کسی لبرل زدہ ذہنیت کے مالک مصنف نے کسی کتاب میں از خود بیان کیا اور اس سے پہلے اس واقعے کا سینکڑوں سال کی تاریخ میں کوئی ثبوت ہی نہیں ہے اور اس بیس تیس سال پرانے اختراع کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور مارکیٹ میں پھیلا دیا گیا، اب جس سے بھی اس واقعے کا کوئی حوالہ پوچھا جائے ، تو وہ کہے گا کہ فلاں صاحب نے بغیر کسی ثبوت کے اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا، یا یہ جواب ملے گا کہ دس سال پہلے فلاں دانشور نے بغیر کسی تاریخی حوالے کے اپنی کتاب میں لکھ دیا تھا، یا فلاں نے علماء کی عیب جوئی کرتے ہوئے اسے اپنے اخباری کالم کا حصہ بنایا تھا، یعنی سینکڑوں سال پہلے کسی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی تاریخی ثبوت و حوالہ نہیں ملے گا اور بات یہیں آ کر ختم ہو جائے گی کہ علماء سے بغض رکھنے والے کسی فرد نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ بیان کیا اور پھر سب نے مکھی پر مکھی مارتے ہوئے اسے پھیلانا شروع کر دیا، جبکہ کسی نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے بیان کیا جانے والا یہ واقعہ سراسر جھوٹ، تعصب اور شر انگیزی پر مبنی ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اولاً تو ایسی باتیں عام طور پر محض سنی سنائی اور گھڑی ہوئی ہوتی ہیں، اس لئے اگر کوئی یہ واقعہ بیان کرے، تو سب سے پہلے اس سے ثبوت مانگا جائے کہ کوئی سی مستند تاریخی کتاب میں یہ واقعہ پڑھا ہے؟

   (2) اور ثانیاً یہ کہ اگر بالفرض اس فرضی کہانی کو چند لمحوں کے لئے درست مان بھی لیا جائے کہ واقعتاً ایسا ہی ہوا ہو گا، تو عرض یہ ہے کہ ہر ذی فہم یہ بات جانتا ہے کہ ہر ایک کی ترجیحات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اس لئے ہر بات ہر ایک کے لئے یکساں اہمیت کی حامل نہیں ہوتی، اگر تین کسان مل بیٹھ کر کسی خاص جڑی بوٹی کے نقصانات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوں تو یہ گفتگو کسی انجینئر کے لئے بالکل فضول ہو گی کہ زراعت اس کے لئے قابل توجہ بات ہی نہیں ہو گی۔ اگر چند ڈاکٹر مل کر کسی مخصوص دوائی پر گفتگو کر رہے ہوں، تو یہ بحث کسی سائنسدان کے لئے بالکل غیر اہم ہو گی۔اور اگر چند سائنس دان مل کر کسی سیارے پر زندگی کے ہونے یا نہ ہونے پر بحث و مباحثہ کر رہے ہوں، تو کسان کے لئے یہ وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔ یعنی اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کے لیے بظاہر چھوٹی سی بات پر بحث و مباحثہ کرنا، کسی فرد کے لئے سب سے اہم گفتگو اور کسی فرد کے لئے بالکل فضول گفتگو ہو گی، کیونکہ ہر ایک کی ترجیحات مختلف ہیں اور ہر کوئی اپنے اعتبار سے چیز کے اہم و غیر اہم ہونے کو پرکھتا ہے۔

   اسی طرح جس کی زندگی میں دین کی اہمیت ہو گی، تو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ ہر معاملے میں یہ معلوم ہو سکے کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام ہے اور اسلام کی اس بارے میں کیا تعلیم ہے اور رب کی رضا کس طرح حاصل ہو سکتی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِترجمہ: اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے، جو اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے۔(القرآن، سورۃ البقرۃ، پارۃآیت 207)

   اور مسلمان کی اولین ترجیح ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے حلال و حرام اور سنت رسول کو جانے اور اس کا جینا مرنا رب کے لیے ہو، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَترجمہ: تم فرماؤ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔(القرآن، سورۃ الانعام، پارۃآیت 162)

   اور جب مسلمان کا جینا مرنا رب تعالی کے لیے ہے، تو رب تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کے لیے اور اسلام کے حلال و حرام اور سنت کے بارے میں علماء سے پوچھا جائے گا، تو ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیں اور اگر کوئی اس جواب سے اختلاف کرے تو علمی مباحثے سے اپنا موقف دوسرے کے سامنے بیان کرے اور  اگر کوئی اپنی الگ رائے قائم کرے تو فریق مخالف کو اپنے دلائل بیان کرنا، ایک عام دنیا دار شخص کے لیے غیر اہم کام تو ہو سکتا ہے، مگر یہی گفتگو کسی دوسرے مسلمان کے لئے بہت اہمیت کی حامل بھی ہو سکتی ہے کہ کہیں اس کا کوئی عمل اسلام سے ہٹ کر نہ ہو۔

   جیسے ایک بار اسی نوعیت کا ایک اعتراض کفار کی جانب سے دور صحابہ میں بھی کیا گیا کہ مسلمانوں کے نبی نے ان کو استنجاء کرنے کا طریقہ جیسی چیزیں بھی بتائی ہیں؟ تو جواب میں صحابی رسول نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ہاں !ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بھی بتایا ہے کہ کس ہاتھ سے استنجاء کرنا ہے اور کتنے پتھروں سے کرنا ہے اور کس طرف منہ کر کے کرنا ہے، یعنی اسلام نے کسی چیز کو مبہم نہیں رکھا، بلکہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بیان فرمایا ہے، اس لیے دین سے دور کسی شخص کے لئے یہ بحث غیر اہم تو ہو سکتی ہے، مگر دین سے محبت رکھنے والے مسلمان کے لئے کوئی بھی دینی بحث غیر اہم نہیں ہوتی، لہٰذا علماء کے کسی چیز کے حلال و حرام ہونے یا سنت پر عمل کے صحیح طریقہ کو جاننے کی بحث کو بالکل فضول سمجھ کر اسے بطور حقارت بیان کرنا، ہرگزدرست طرز عمل نہیں۔

   اور یاد رہے کہ ایسے افراد کے سامنے اگر کوئی اسلام کے کسی بھی شرعی حکم کے بارے میں کوئی گفتگو کرے گا، تو ایسے افراد کے لئے وہ بھی فضول کام ہی ہو گا اور یہ جملہ سننے کو ملے گا کہ کسی بھی چیز کے حلال و حرام ہونے کی بحث کو چھیڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یعنی ایسے افراد کا اصل مسئلہ کوے کے حلال حرام ہونے کی بحث نہیں، بلکہ اسلام کے جملہ احکامات سے ہوتا ہے، کیونکہ اسلام ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہوتا۔

   (3) ثالثاً یہ کہ سقوطِ بغداد کے حوالے سے یہ کہنا کہ جب بغداد پر حملہ ہوا تو علماء ان مسائل میں الجھے ہوئے تھے، تو اس پر عرض یہ ہے کہ شہروں اور ملکوں کی حفاظت کی ذمہ داری تو حکمرانوں اور افواج کی ہوتی ہے، تو کسی دوسرے گروہ پر یہ ذمہ داری کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ اور ہمیں یہ بھی بتا دیا جائے کہ بغداد کی سرحد اور قلعوں کی حفاظت کرنا، فوج کی ذمہ داری تھی یا علماء کی؟ اور شہر کی حفاظت کے لئے تدبیر کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری تھی یا علماء کی؟ تو جب شہر کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اور لڑنا بھی علماء کا کام نہیں اور فوج کو عسکری تربیت دینا اور اسلحہ جمع کرنا بھی علماء کی ذمہ داری نہیں، اور نہ ہی حملہ روکنے کی پلانگ کرنا ان کے فرائض میں تھا، تو پھر شہر پر عسکری حملے کا ملبہ علماء پر کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟

   (4) رابعاً یہ کہ یہ جملہ محض ایک مغالطہ ہے، جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے، کیونکہ شہر کی عسکری تباہی کا علماء کی ابحاث سے کیا لینا دینا؟ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر یوں کہا جائے کہ جنگ عظیم دوم میں فلاں ملک کی تباہی کے وقت وہاں کے ڈاکٹرز مریضوں کو کھانسی کا علاج بتانے میں مصروف تھے یا یوں کہا جائے کہ جب ہیرو شیما پر ایٹم بم برسائے گئے، تو وہاں کے کسان کھیتوں میں پانی لگانے کی باتوں میں الجھے ہوئے تھے۔ یا جب ناگا ساکی پر حملہ ہوا تو وہاں کے جج فریقین کے دلائل سننے میں مصروف تھے۔ یا جب امریکہ پر نائن الیون ہوا، تو وہاں کے قانون دان اساتذہ اپنے طلباء کو قانون کی پیچدگیاں بتانے میں الجھے ہوئے تھے۔کیا ان باتوں کو کوئی صاحبِ عقل سنجیدہ لے گا؟ نہیں اور ہرگز نہیں، بلکہ ہر عقل مند شخص یہی کہے گا کہ یہ بات ہی بذات خود ایک فضول اور لغو بات ہے، کیونکہ یہ اَفراد تو اپنی اپنی فیلڈ کے مطابق اپنا اپنا کام ہی کر رہے تھے، ورنہ ان شہروں اور ملکوں کی تباہی کا وہاں کے کسان، ڈاکٹر، علماء و اساتذہ وغیرہ کی گفتگو اور کام کاج سے کیا لینا دینا ہے؟ کیونکہ سوال تو اس پر ہونا چاہیے کہ جب فلاں شہر پر حملہ ہوا، تو وہاں کی فوج لڑنے کی بجائے کن کاموں میں مصروف تھی یا وہاں کے حکمران جنگی پالیسی بنانے کی بجائے کن غیر ضروری کاموں میں لگے ہوئے تھے؟ لیکن اس کے برعکس علماء کو عسکری ناکامیوں میں دھکیل دینا بالکل لا یعنی سی بات ہے۔

   (5) خامساً یہ کہ جہاں تک علماء کے آپسی علمی اختلاف پر اعتراض کرنے کا تعلق ہے، تو ذرا یہ بھی بتا دیا جائے کہ اگر اختلاف اور بحث و مباحثہ صرف علماء میں ہی ہوتا ہے تو کیا سارے سائنس دان متفق الخیال ہوتے ہیں؟ کیا سبھی ڈاکٹرز کے منہ سے نکلی ہوئی بات ایک ہی ہوتی ہے؟کیا ملک کے سیاست دان ایک ہی پالیسی بنانے پر زور آزمائی کر رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہر روز میڈیا کے ٹاک شوز میں صحافی ایک دوسرے کی عزت اچھالتے اور جملے بازی کرتے ہوئے مکروہ قسم کی بحث و مناظرے نہیں کر رہے ہوتے؟ کیا ہر نام نہاد دانشور دوسرے دانشور سے اختلاف اور بحث کرنے کو اپنا محبوب مشغلہ نہیں سمجھتا؟ کیا سوشل میڈیا اور کرنٹ میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے سیاست دان، صحافی اور اینکرز لفظی گولہ باری کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے نظر نہیں آتے؟ اگر یہ روشن خیال کہلانے والے افراد، دوسروں کی ذاتیات پر حملے کرنے ، انہیں گالیاں بکنے اور لفظی جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی قوتِ بازو سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود خود کو روشن خیال، مہذب اور حالات زمانہ کے موافق کہلوانا پسند کرتے ہیں اور پھر اس سارے طوفانِ بدتمیزی کے کچھ دیر کے بعد ہی یہ فرما رہے ہوں کہ جی بغداد پر حملے کے وقت علماء مناظرے کر رہے تھے، تو یہ جملہ منافقت اور بے شرمی کی بہت بڑی مثال ہے۔

   (6) اور سادساً یہ کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ معاشرے کی خرابی کے پیچھے علماء ہیں، تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ عام طور پر معاشرے کی خرابی سے مراد کرپشن، رشوت، ظلم، انصاف نہ ملنا، نا اہل کو عہدے دینا، مالی فراڈ کرنا، وغیرہ امور مراد لئے جاتے ہیں، اب ذرا باری باری ان جرائم کا جائزہ لے لیا جائے کہ ان میں سے کتنے کام علماء کرتے ہیں؟

   کرپشن عام طور پر سرکاری خزانے میں خرد برد کر کے کی جاتی ہے، تو یہ بتا دیا جائے کہ کیا روڈ، عمارتیں، پُل، پارک وغیرہ بنانے کے سرکاری کاموں کے ٹھیکے دینے اور ٹھیکے لینے والے لوگ علماء ہیں؟ یا پھر یہ سیاست دان اور سیاست دانوں کو الیکشن میں چندہ دینے والے لوگ ہوتے ہیں؟تو جواب یہ ہو گا کہ کرپشن تو سیاست دانوں کے چندہ دہندگان کرتے ہیں اور ان کی پشت پر خود سیاست دانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔

   اور اگر معاشرتی خرابی میں رشوت کو دیکھ لیا جائے تو مختلف سرکاری محکموں اور اداروں میں رشوت خور افراد کیا علماء ہیں؟ یا کہ اعلی دنیاوی تعلیم یافتہ بیرو کریٹ ہیں؟ اور یہ محاورہ کہ سرکاری محکموں میں فائلوں کے نیچے پہیے لگائے بغیر فائل ٹیبل سے آگے نہیں بڑھتی، یعنی وہاں رشوت دینی پڑتی، یہ اصطلاح کبھی کسی عالم کے بارے میں کسی نے سنی ہے؟

   اور اگر معاشرتی تباہی میں ظلم کو دیکھ لیا جائے، تو ظلم و جبر کی مثال بننے والے جاگیر دار اور وڈیرے کیا علماء ہیں؟ کیا آئے روز یہ خبریں سننے کو نہیں ملتیں کہ فلاں دانشور اور صحافی نے اپنے گھر کی نوکرانی کا مار مار کر برا حال کر دیا اور فلاں اعلی افسر نے اپنے ڈرائیور کی اتنے ماہ سے ظلماً تنخواہ روکی ہوئی ہے، کیا یہ سب ظلم کرنے والے علماء ہیں؟

   اور اگر معاشرے کی خرابی میں انصاف نہ ملنے کی بات کی جائے، تو کیا وہ عدالتیں کہ جس کا کام مظلوم کو انصاف دینا اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے، وہاں مظلوم بھی اس ڈر سے نہ جانے کی بات کرتا ہو کہ کورٹ کچہریوں سے اللہ بچائے، کیا ان عدالتوں میں جج دنیاوی تعلیم یافتہ ہیں یا علماء ہیں؟

   اسی طرح میرٹ کی بجائے سفارش پر بڑے بڑے عہدے بانٹنے والے اور سیاسی سفارشات پر بھرتی کرنے اور کروانے علماء ہیں؟ اور کروڑوں اربوں کے مالی فراڈ میں ملوث ملکی و انٹر نیشنل کمپنیاں کیا علماء چلاتے ہیں؟ یا ان کمپنیوں کے CEO کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں؟

   اگر ہمارے ملک میں ان تمام جرائم میں مرتکب افراد کا جائزہ لیا جائے تو معاشرے کے ان مجرموں میں دور دور تک کسی عالم کو تلاش کرنا، تقریباً ناممکن سا لگے گا، تو جب یہ سارے جرائم ان افراد کے ہیں، جو ملکی سطح پر اعلی دنیاوی تعلیم یافتہ یا بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں، تو پھر معاشرے کی خرابی اور تباہی کا ذمہ دار علماء کو کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یقینا یہ سارے جرائم ان افراد کے ہیں جو نہ صرف خود علماء سے نفرت کرتے، بلکہ لوگوں کے سامنے علماء کی کردار کشی کر کے ان کی عزت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر بڑے بھونڈے انداز سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ علماء معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔

   لہذا اس طرح کی جملے بازی اور اعتراضات سے یقیناً اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ ایسا کرنے والوں کا اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے اور علماء پر طعنہ زنی کرنا اور سنی سنائی باتوں کو ان سے منسوب کر کے اور ان پر زبان درازی کر کے اپنی دانشوری اور علمیت ظاہر کرنا، جہالت کے سوا کچھ نہیں، ہر مسلمان کو ایسی تمام حرکات سے اجتناب کرنا چاہیئے، جن میں اصحابِ علم کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو، اللہ کریم ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نصیب فرمائے اور علم و علماء سے محبت کرنے والا بنائے۔ آمین۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم