Ghairat Ke Naam Par Hone Wale Qatal Ko Islam Aur Ulama Ki Taraf Mansoob Karna

غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو اسلام اور علماء کی طرف منسوب کرنا

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-12727

تاریخ اجراء:25شعبان المعظم1445ھ/07 مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ غیرت کے نام پر قتل وغیرہ کے واقعات کو لبرل لوگ بہت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اس میں علماء و اسلامی قوانین پر اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کے اعتراضات کا جواب کیا دیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام نے   صراحت کی ہے کہ  حد و تعزیر نافذ کرنا حاکم اسلام یا اس کے مقررکردہ حکام کا کام ہے، لہٰذا اس طرح کے واقعات پر لبرل لوگوں کا علمائے کرام اور اسلامی قوانین  پر تنقید کرنا جہالت و بُغض ہے۔

   فتاوی رضویہ میں  کسی مسلما ن کو بلاوجہ کافر کہنے کے متعلق ہے:” کسی شخصِ مسلم پر بلا وجہ شرعی حکمِ تکفیر بحسب ظواہر احادیث صحیحہ و نصوص صریحہ جمہورفقہاءخود قائل کے لئے مستلزم کفر ہے”قال صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فقد باء بہ احد ھما حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ''اوکافر '' کہے، تو وہ کفر دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹ پڑتاہے۔

   اور اس پر ضرور تعزیر شرعی لازم ہے کہ حاکمِ اسلام کی رائے پر ہے ؛سلطان اسلام یا اس کے مقرر کردہ حکام ضرب وحبس سے قتل تک اسے تعزیر دے سکتے ہیں، تعزیر ہم لوگوں کے ہاتھ میں نہیں، ہمارے پاس اسی قدر ہے کہ اس سے میل جول سلام کلام ترک کریں۔ ”قال صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم فایاکم و ایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم  وقال تبارک وتعالیٰ :﴿وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : (لوگو!) گمراہوں سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ تمہیں گمراہ نہ کریں اورتمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں، اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :اگر تمہیں شیطان بھلادے تو پھر یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس مت بیٹھو۔“ (فتاوی رضویہ،جلد21،صفحہ252،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مراۃ المناجیح میں ہے:”حدود شرعیہ صرف حاکم اسلام ہی قائم کرسکتا ہے ، نہ خود مجرم اپنے کو سزا دے اور نہ کوئی اور۔“(مراۃ المناجیح،باب مالا یدعی علی المحدود،باب محدود کو بددعا نہ کی جائے ، جلد5، صفحہ 322 ،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   امیر اہل سنت فرماتے ہیں:” شَریعتِ مطہرہ  میں چوری کی سزا ہاتھ کٹنا ہے ، جبکہ چوری کی تمام شَرائط پائی جائیں اور شراب پینے والے کوا َسّی  کوڑے مارنا ہے مگر یہ سزا دینے کا  ہر ایک کو اِختیار حاصِل نہیں بلکہ یہ سزا دینا حاکمِ اسلام کا کام ہے ۔  اب اِسلامی سَلطَنت نہ ہونے کی وجہ سے  یہ سزا نہیں دی جا سکتی ۔  فی زمانہ اِن جَرائم کے سَدِّباب کے لیے اِس کاحکم بیان کرتے ہوئے فَقیۂ مِلَّت حضرتِ علّامہ مولانا مفتی جلالُ الدِّین احمد اَمجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں  : اگر حکومت ِ اِسلامیہ ہوتی تو چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جاتا اور شراب پینے والے کواَسّی دُرّے مارے جاتے ۔  موجودہ صورت میں ان کے لیے یہ حکم ہے کہ مسلمان ان کا بائیکاٹ کریں ان کے ساتھ کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا اور کسی قِسم کے اِسلامی تَعَلُّقات نہ رکھیں تاوقتیکہ وہ لوگ توبہ کر کے اپنے اَفعالِ قبیحہ سے باز نہ آ جائیں ۔   اگر مسلمان ایسا  نہ کریں گے تو وہ بھی گنہگار ہوں گے ۔“ (مدنی مذاکرہ، قسط 29،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   صراط الجنان میں ہے: ”چند صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں حاکمِ اسلام کے لیےمجرم کو قتل کرنے کی اجازت ہے جیسے قاتل کو قصاص میں ، شادی شدہ زانی کو رجم میں اور مرتد کو سزا کے طور پر قتل کرنا ، البتہ یہ یاد رہے کہ قتلِ برحق کی جو صورتیں بیان ہوئیں ، اِن پر عام لوگ عمل نہیں کر سکتے ، بلکہ اس کی اجازت صرف حاکمِ اسلام کو ہے۔“ (صراط الجنان،جلد3،صفحہ240،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم