مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fam-423
تاریخ اجراء: 29 ذو القعدۃ الحرام1445ھ/07جون2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کفر والی بات کرے اور سننے والے کو یہ کافی حد تک لگتا ہو کہ یہ بات کفریہ ہے ،لیکن وہ اس پر حکم لگانے سے پہلے کسی سنی عالم دین سے کنفرم کروالےکہ کیا واقعی یہ کفر ہے یا نہیں،تو کیا سننے والے کے لیے ایسا کرنا درست ہے یا پھر سننے والے پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اسی وقت ایسا بولنے والے کو کہے کہ یہ جملہ کفریہ ہے اور وہ کافر ہوگیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عام آدمی کے لیے کسی شخص پرحکمِ کفر لگانا،لازم ہونا تو دور کی بات ،ایسا کرنا ہی درست نہیں،کیونکہ بعض دفعہ عوام کسی بات کو کفریہ سمجھ رہی ہوتی ہے،جبکہ حقیقت میں وہ بات کفریہ نہیں ہوتی،پھر کئی جُملے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بعض پہلو کفر کی طرف جا رہے ہوتے ہیں اوربعض اسلام کی طرف، اور کہنے والے کی نیت و مراد کا علم نہیں ہوتا کہ اُس نے اپنی اُس بات سے کون سا پہلو مُرادلیا ہے،لہذا صرف اپنے گمان اور اٹکل سے کسی مسلمان کو کافر نہیں کہاجا سکتا۔ایسی صورتحال میں جبکہ سننے والے کو کوئی بات ایسی معلوم ہورہی ہو کہ جو اس کے گمان اور علم کے مطابق کفریہ ہوسکتی ہے، تو اُسے چاہئے کہ وہ بولنے والے کو احتیاطاً توبہ و تجدید ایمان کا کہہ کر، مزید اس بات کے متعلق کسی سنی عالم دین سے رہنمائی حاصل کرنے کا کہہ دے،محض اپنے علم کی بنیاد پر ہرگز حکم کفر نہ لگائے ۔
کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب نامی کتاب میں ہے:’’(عام آدمی ) صِرف اپنی اٹکل سے ہرگز ہرگز ہرگز کسی مسلمان کو کافر نہ کہے، کیونکہ کئی جُملے ایسے ہوتے ہیں جن کے بعض پہلو کفر کی طرف جا رہے ہوتے ہیں اوربعض اسلام کی طرف اور کہنے والے کی نیّت کا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اُس نے کون سا پہلو مُرادلیا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’ہمارے ائمّہ رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں 99 اِحتمال کُفرکے ہوں اور ایک اسلام کا تو واجِب ہے کہ احتمالِ اسلام پر کلام محمول کیا جائے جب تک اس کا خِلاف ثابِت نہ ہو۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد14،صفحہ605،604)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’کسی کلام میں چند معنی بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں،بعض اسلام کی طرف ،تو اُس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی،ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل(کہنے والے)نے معنئ کفر کا ارادہ کیا مَثَلاً: وہ خود کہتا ہے کہ میری مُراد یہی(کفریہ معنی والی)ہے، تو (اب )کلام کا مُحْتَمَل ہونا (یعنی کلام میں تاویل کا پایا جانا)نفع نہ دے گا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافِر ہونا ضَرور نہیں۔‘‘( بھارِ شریعت، حصّہ 9 ،ص 173) (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،صفحہ62،61،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟