مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12987
تاریخ اجراء:24 صفر المظفر1445ھ/11ستمبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ یہ تو معلوم ہے کہ دنیا
میں نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی کو دیدارِ الٰہی
نہیں ہوا، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا دنیا میں اللہ
پاک کادیدار ممکن بھی ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اہلِ سنت کا مؤقف یہی ہے کہ دنیا
میں حالتِ بیداری میں اللہ عزوجل کا دیدار ممکن
ہےاور اس کا امکان خود قرآنِ مجید سے ثابت ہے۔ جہاں تک اس کے وقوع کی بات ہے،توجمہور
اہل سنت کے مطابق اس کا وقوع صرف
نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ خاص ہے،نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی اور کے لیے دیدار کا وقوع ماننا
متکلمین، محدثین، فقہا و صوفیاء کے اجماع کے خلاف ہے،حتیٰ
کہ اگر کوئی اپنے لیے بیداری کی حالت میں
دیدارِ الٰہی کا دعویٰ کرے توعلما نے اس پر کفر کا
حکم لگایا اور ایک قول کے مطابق ایسا شخص گمراہ ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا
دیدار ہر سُنی مسلمان کو ہوگا
اور دنیا میں خواب
میں اللہ پاک کا دیدار انبیا ئےکرام ،بلکہ اولیائے کرام
کو بھی حاصل ہوا ہے۔
دنیا میں اللہ
پاک کا دیدار ممکن ہے،اس کے متعلق خاتم المحققین حضرت علامہ
مولانا فضل الرسول
رحمۃ اللہ علیہ المعتقد المنتقد میں فرماتے ہیں:”لا خلاف عندنا انہ تعالیٰ یری ذاتہ المقدسۃ و ان
رؤیتنا لہ سبحانہ جائزۃ عقلا فی الدنیا والآخرۃ
۔۔۔۔ واختلفوا فی وقوعھا فی الدنیا،قال
صاحب الکنز:قد صح وقوعھا لہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
وھذا قول جمھور اھل السنۃ وھو الصحیح“یعنی ہمارے نزدیک اس بات میں
کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدسہ کو
دیکھا جا سکتا ہے اور دنیا و آخرت میں ہمارا اللہ سبحانہ
و تعالیٰ کو دیکھنا عقلاً ممکن ہے،البتہ دنیا میں اس کے وقوع پذیر
ہونےمیں اختلاف ہے، صاحبِ کنز نے فرمایا: نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے اس کا واقع ہونا صحیح ہے ،
یہی جمہور اہلِ سنت کا قول ہے
اور یہی صحیح ہے۔(المعتقد المنتقد،صفحہ 56،رضا اکیڈمی، ھند)
شیخ الاسلام،عارف باللہ علامہ ابنِ حجر مکی
شافعی رحمۃ اللہ
علیہ فتاویٰ
حدیثیہ میں فرماتے ہیں:” والذی علیہ اھل السنۃ انھا ممکنۃ عقلا وشرعا فی
الدنیا “یعنی اہلِ سنت
کا مؤقف یہ ہے کہ دنیا میں اللہ پاک کا دیدار
عقلاً و شرعاً ممکن ہے۔(فتاویٰ حدیثیۃ، صفحہ 108، دار الفکر ،
بیروت)
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی
لِمِیۡقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ
رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ
اَنۡظُرْ اِلَیۡکَ
ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ
وَلٰکِنِ انۡظُرْ
اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیۡ
ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ
دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی
صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیۡکَ
وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیۡنَ﴾ترجمۂ کنز الایمان:’’ اور جب
موسیٰ ہمارے وعدے پر حاضر ہوا
اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا ۔ عرض کی :اے رب میرے !
مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں ۔ فرمایا
تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ، ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ ۔
یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے
گا۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر
اپنا نور چمکایا ، اسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ گرا بے
ہوش ۔ پھر جب ہوش ہوا بولا پاکی ہے تجھے میں تیری
طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔‘‘(پارہ 9، سورۂ اعراف، آیت 143)
دنیا میں اللہ پاک کا دیدار ممکن
ہے، اس پر مذکورہ آیت سے استدلال
کرتے ہوئےمفسرین نے چند دلائل ذکر فرمائے ہیں:
پہلی دلیل:حضرت موسیٰ علیہ
السلام کا اللہ پاک سے
یوں دعا کرنا :” اے رب مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے
دیکھوں“ کیونکہ اگر اللہ
پاک کا دیدار ممکن نہ ہوتا، تو حضرت موسیٰ علیہ
السلام اس کی دعا ہرگز نہ
فرماتے کہ نا ممکن امر کی دعا کرنا
حرام ہے،جبکہ انبیاء گناہوں سے معصوم ہیں۔
دوسری دلیل:اللہ رب العالمین نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی دعا کے جواب
میں فرمایا:” تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا “اس
آیت میں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے دیکھنے
کی نفی فرمائی۔
یہ نہ فرمایا کہ مجھے دیکھا ہی نہیں جا
سکتا، اگردیکھنا ممکن نہ ہوتا، تو اللہ پاک یوں فرماتا کہ مجھے دیکھا نہیں جاسکتا۔
تیسری دلیل:اللہ پاک نے حضرت
موسیٰ
علیہ السلام سے فرمایا:” ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ ،
یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے
گا “یہاں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے دیکھنے کو پہاڑ
کے اپنی جگہ برقرار رہنے پر معلق کیا ۔ پہاڑ کا پھٹنا اگر ممکن ہے، تو اس کا
اپنی جگہ برقرار رہنا بھی ممکن ہے اور جو چیز ممکن پر موقوف ہو
وہ بھی ممکن ہوتی ہے۔
امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ
اللہ علیہ ﴿ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرْ
اِلَیۡکَ ﴾کے تحت فرماتے ہیں:”وھو دلیل لاھل السنۃ علی جواز الرؤیۃ فان
موسیٰ علیہ السلام اعتقد ان اللہ تعالیٰ
یری حتی سالہ واعتقاد جواز ما لا یجوز علی اللہ کفر“یعنی (حضرت موسیٰ علیہ
السلام کا اللہ پاک کی بارگاہ میں دیدار کا
سوال کرنا) دیدارِ الٰہی کے ممکن ہونے پر اہلسنت کی
دلیل ہے ، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کا اعتقاد تھا کہ اللہ
پاک کو دیکھا جا سکتا ہے جبھی انہوں نے اللہ پاک سے سوال کیا
۔ اور جو اللہ تعالی کے لیے ناجائز ہو ، اس چیز کو ممکن
ماننا کفر ہے۔
امام نسفی رحمۃ
اللہ علیہ نے﴿ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ ﴾ کے تحت فرمایا:”وھو دلیل لنا ایضا لانہ لم یقل لن اری لیکون
نفیا للجواز ولو لم یکن مرئیا لاخبر انہ لیس بمرئی“یعنی (اللہ پاک کا فرمان :تو مجھے ہرگز نہ
دیکھ سکے گا) یہ بھی (دیدارِ باری
تعالیٰ کے ممکن ہونے پر)ہماری دلیل ہے، کیونکہ اللہ
پاک نے لن اری(مجھے ہرگز نہیں دیکھا جا سکتا) نہیں
فرمایا جس سے امکان کی
نفی ہو، اگر اللہ پاک کو دیکھنا ممکن نہ ہوتا تو ضرور اللہ پاک حضرت موسی علیہ
السلام کو بیان کر
دیتا کہ اسے دیکھا نہیں جا سکتا ۔
مزید﴿ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ
فَسَوْفَ تَرٰىنِیۡ﴾ کے تحت فرمایا:”وھو دلیل لنا ایضا لانہ
علق الرؤیۃ باستقرار الجبل وھو ممکن وتعلیق الشیئ بما ھو
ممکن یدل علی امکانہ“یعنی یہ بھی ہماری
دلیل ہے کیونکہ اللہ پاک نے دیدار کو پہاڑ کے اپنی
جگہ برقرار رہنے پر معلق کیا جو کہ
ممکن ہے اور کسی شے کو ممکن پر معلق کرنا اس شے کے ممکن ہونے پر دلالت کرتا
ہے۔(تفسیر نسفی،
جلد 1،صفحہ 602،بیروت)
دعائے موسیٰ علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے تحت مفتئ دیارِ روم ، امام ابو سعود عمادی
آفندی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:”ھو دلیل علی ان رؤیتہ جائزۃ فی الجملۃ
لما ان طلب المستحیل مستحیل من الانبیاء“یعنی یہ اس بات پر دلیل ہے کہ
فی الجملہ دیدارِ باری تعالیٰ ممکن ہے ،کیونکہ
محال چیز کا مطالبہ کرنا انبیائے کرام سے محال ہے۔ (تفسیر ابی سعود، جلد 3،صفحہ 269، مطبوعہ بیروت)
فخر المتکلمین والدین امام رازی رحمۃ
اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:”أنه تعالى جائز الرؤية وذلك لأنه تعالى لو كان مستحيل الرؤية لقال : لا أرى ۔
ألا ترى أنه لو كان في يد رجل حجر فقال له
إنسان ناولني هذا لآكله ، فإنه يقول له هذا لا يؤكل ، ولا يقول له لا تأكل . ولو
كان في يده بدل الحجر تفاحة ، لقال له : لا تأكلها أي هذا مما يؤكل ، ولكنك لا
تأكله . فلما قال تعالى : ﴿ لَنۡ
تَرٰىنِیۡ ﴾ ولم يقل لا أرى ، علمنا أن هذا يدل على أنه تعالى في ذاته جائز الرؤية “یعنی اللہ پاک کا دیدار ممکن ہے،کیونکہ
اللہ تعالیٰ کو دیکھنا اگر محال ہوتا، تو اللہ
تعالیٰ ضرور فرماتاکہ :مجھے نہیں دیکھا جا
سکتا۔ کیا آپ نہیں
دیکھتے کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ میں پتھر ہو اور اسے
کوئی کہے کہ یہ مجھے کھانے کے لیے دو ، تو وہ اس کو کہے
گا کہ اس کو کھایا نہیں جا
سکتا ، یہ نہیں کہے گا کہ تو اسے نہیں کھا سکتا ،لیکن اگر کسی کے ہاتھ میں پتھر کی
جگہ سیب ہو، تو وہ اس کو یوں
کہتا کہ تو اس کو نہیں کھائے گا یعنی یہ کھائی جانے
والی چیزوں میں سے ہے، لیکن تم اسے نہ کھاؤ۔ جب اللہ پاک نے فرمایا : تو مجھے ہر گز
نہ دیکھ سکے گا ، یہ نہ فرمایا کہ مجھے نہیں دیکھا
جا سکتا، تو ہم نے جان لیا کہ
یہ معاملہ اللہ پاک کا دیدار فی ذاتہٖ ممکن ہونے پر دلیل ہے۔(تفسیر کبیر،جلد14،صفحہ 355،بیروت)
صحابہ کرام علیہم
الرضوان کے درمیان اس بات میں اختلاف تھا
کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے معراج کی رات رب تعالیٰ کا
دیدار کیا یا نہیں ؟ (راجح یہی ہے کہ
دیدار کیا )، تو صحابہ کا یہ اختلاف بھی دیدارِ
باری تعالیٰ کے ممکن ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ
اگر یہ محال و نا ممکن ہوتا ، تو صحابہ کا
عدمِ رؤیت پراتفاق
ہوتا۔
شرح عقائد ونبراس میں ہے:”(اختلف الصحابۃ رضی اللہ عنھم فی ان النبی صلی
اللہ علیہ وسلم ھل رای ربہ لیلۃ المعراج ام لا ؟
والاختلاف فی الوقوع دلیل الامکان) فان الرؤیۃ لو کانت
محالا لاتفقت الصحابۃ علی عدم وقوعھا “یعنی صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کا اس
میں اختلاف ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے معراج کی رات
اپنے رب کو دیکھا یا
نہیں؟ دیدارِ الہٰی کے وقوع میں اختلاف اس بات
کی دلیل ہے کہ رب تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے،
کیونکہ رؤیتِ باری تعالیٰ محال ہوتی تو صحابہ کا عدمِ وقوع پر
اتفاق ہوتا۔(النبراس شرح شرح العقائد، صفحہ 357،مکتبۃ یاسین،
ترکیا)
دنیا میں دیدارِ الٰہی اگرچہ
ممکن ہے،لیکن نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی کو دیدارِ الہٰی
حاصل ہونا، جائز نہیں،اس پر امت کا
اجماع ہے۔اس کے متعلق شرح مسلم، نجاح القاری، فتح الالہ، مرقاۃ
المفاتیح وغیرہ کتب میں ہے والنظم لمرقاۃالمفاتیح:”أما رؤية اللہ تعالى في الدنيا فممكنة ولكن الجمهور من السلف والخلف من
المتكلمين وغيرهم على أنها لا تقع في الدنيا “یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے،
لیکن متکلمین وغیرہ جمہور علمائے سلف و خلف اس پر ہیں کہ
دنیا میں اس کا وقوع نہیں ہے۔ (مرقاۃالمفاتیح، جلد 9،صفحہ 3601،بیروت)
شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:”رؤیتہ تعالیٰ فی الدنیا ایضا جائزۃ
علی القول المختار ولکنہ غیر واقع بالاتفاق الا لسید
المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم“یعنی مختار قول کے مطابق دنیا میں
اللہ پاک کا دیدار ممکن ہے، لیکن بالاتفاق نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے واقع نہیں۔(لمعات التنقیح، جلد9،صفحہ 136،مطبوعہ دارالنوادر، دمشق)
فتاویٰ حدیثیہ میں ہے:”الرؤیۃ وان کانت ممکنۃ عقلا و شرعا عند اھل السنۃ
لکنھا لم تقع فی ھذہ الدار لغیر نبینا صلی اللہ
علیہ وسلم“یعنی دیدارِ باری
تعالیٰ اگرچہ اہلِ سنت کے نزدیک شرعاً و عقلاًممکن ہے، لیکن اس دنیا میں نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے واقع نہیں ہوا۔(فتاوی حدیثیہ، صفحہ 108، دار الفکر ، بیروت)
اسی میں ایک اور مقام پر ہے:” والامام الربانی المترجم بشیخ الکل فی الکل ابوالقاسم
القشیری رحمہ اللہ تعالیٰ یجزم بانہ لا یجوز
وقوعھا فی الدنیا لاحد غیر نبینا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ولا علی وجہ الکرامة ،وادعی
ان الامة اجتمعت علی ذلک فاذا اجمعوا علی امتناع وقوعھا کان زاعمہ
لنفسہ مخالفا للاجماع“یعنی امام ربانی جنہیں شیخ
الکل فی الکل ابو القاسم قشیری رحمۃ
اللہ علیہ کہا جاتا ہے،نے اس بات پر جزم کیا کہ دنیا
میں(جاگتے ہوئے) ہمارے نبی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی کے لیے بھی اللہ
تعالیٰ کے دیدار کا وقوع جائز نہیں،کرامت کے طور پر
بھی جائز نہیں ۔ انہوں نے اس بات پر امت کے اجماع کا
دعویٰ کیا، تو جب اس کا وقوع ممتنع ہونے پر اجماع ہوگیا،
تو جو اپنے لیے دیدارِ الٰہی کا دعویٰ کرے ،
تو وہ اجماع کی مخالفت کرنے والا ہے ۔(فتاویٰ حدیثیہ، صفحہ 109،دار الفکر ، بیروت)
علامہ عبد العزیز فرہارویرحمۃ
اللہ علیہ نبراس میں فرماتے ہیں:”عدم وقوعھا لغیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثابت
باجماع المتکلمین والمحدثین
والفقھاء والصوفیۃ وقالوا من ادعاہ
فھو زندیق“یعنی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے اس کا عدمِ وقوع
متکلمین، محدثین، فقہا اور صوفیاء کے اجماع سے ثابت ہے اور
انہوں نے فرمایا :جو اس کا دعوی کرے وہ زندیق ہے۔(النبراس شرح شرح العقائد، صفحہ 357،مکتبۃ یاسین،
ترکیا)
﴿ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ
﴾ علامہ علی بن سلطان القاری رحمۃ
اللہ علیہ منح الروض الازھر میں فرماتے ہیں:”ان الامۃ قد اتفقت علی انہ تعالیٰ لا یراہ احد
فی الدنیا بعینہ ولم یتنازعوا فی ذلک الا
لنبینا صلی اللہ علیہ وسلم حال عروجہ علی ما صرح بہ
فی شرح عقیدۃ الطحاوی“یعنی امت اس بات پر متفق ہے کہ اللہ تعالیٰ
کو کسی بھی شخص نے دنیا میں اپنی آنکھ سے نہیں
دیکھا، اس میں صرف ہمارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی اختلاف ہوا کہ انہوں نے معراج
کی حالت میں دیدار الہی کیا یا نہیں ؟جیسا
کہ شرح عقیدہ ٔ طحاوی میں اس کی تصریح کی۔ (منح الروض الازھر، صفحہ 354، بیروت)
مزید ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”الذین اثبتوھا فی الدنیا خصوا وقوعھا لہ صلی اللہ
علیہ وسلم فی لیلۃ الاسراء“یعنی جن لوگوں نے دنیا میں
دیدارِ الٰہی کے ممکن ہونے کو ثابت کیا ہے،انہوں نے معراج
کی رات نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور
خاص اس کا وقوع تسلیم کیا
ہے۔(منح الروض الازھر، صفحہ
353، مطبوعہ بیروت)
جو شخص دنیا میں جاگتی آنکھوں سے
دیدارِ الٰہی کا دعویٰ کرے اس کے متعلق منح الروض
الازھر اور لمعات التنقیح میں ہے:”قال الاردبیلی فی کتابہ الانوار : ولو قال: انی
اری اللہ تعالیٰ عیانا فی الدنیا او
یکلمنی شفاھا کفر“یعنی امام اردبیلی نے اپنی
کتاب ”الانوار“ میں فرمایا: اگر کوئی کہے کہ میں نے
دنیا میں اللہ تعالیٰ کو جاگتی آنکھوں سے
دیکھا، یا اللہ تعالی مجھ سے بذات خود کلام کرتا ہے تو وہ کافر ہے۔ (منح الروض الازھر، صفحہ 356، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے:”دنیا میں
بیداری میں اﷲ عزوجل کے دیدار یا کلامِ
حقیقی سے مشرف ہونا، اِس کا جو اپنے یا کسی ولی کے
لیے دعویٰ کرے، کافر ہے۔ “(بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 270، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
کتاب”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال
جواب“میں ہے:”دنیامیں جاگتی آنکھوں سے پروردگارعزوجل
کادیدارصرف، صرف سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدارصلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کاخاصہ ہے،لہٰذااگرکوئی شخص
دنیامیں جاگتی حالت میں دیدارِ الہی
کادعویٰ کرے،اس پرحکمِ کفرہے،جبکہ ایک قول اس کے بارے میں
گمراہی کابھی ہے۔“(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،صفحہ228،
مکتبۃالمدینہ،کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے:”آخرت میں ہر
سنی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع ہے ، رہا قلبی دیدار
یا خواب میں، یہ
دیگر انبیا علیہم
السلام بلکہ اولیاء کے
لئے بھی حاصل ہے۔“ (بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 20۔21، مکتبۃ المدینہ،
کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟