مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1793
تاریخ اجراء:01ذوالحجۃ الحرام 1445ھ/08جون2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی شخص کو اپنی دعا قبول نہ ہونے پر اپنی ذات پرغصہ آجائے اور یہ خیال کرے کہ شاید مجھ میں کسی کمی کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہورہی، پھر وہ کسی نیک بندے سے دعا کرنے کا کہے ، تو کیا اس پر کوئی حکمِ کفر لگے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر صرف اپنی ذات پر ہی غصہ آیا کہ مجھ میں کسی کمی کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہورہی اور پھر اسی حالت میں کسی ولی اللہ یا نیک بندے سے دعا کی درخواست کی ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے متعلق کوئی شکوہ وغیرہ کے الفاظ نہیں کہے، تو حکم کفر نہیں۔
واضح رہےکہ دعا اگر بظاہر قبول نہ بھی ہو ،تو رائیگاں نہیں جاتی جیسا کہ حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:” ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاه الله بها إحدى ثلاث : إما أن يعجل له دعوته وإما أن يدخرها له في الآخرة وإما أن يصرف عنه من السوء مثلها۔ قالوا : إذن نكثر قال : الله أكثر “یعنی جو بھی مسلمان دعا کرتا ہے جس میں گناہ یا قطعِ رحمی نہ ہو، تو اللہ پاک اسے تین باتوں میں سے کوئی ایک عطافرماتا ہے۔ یا تو اس کی مانگی ہوئی چیز جلدی عطا کردیتا ہے یا اس کی دعا کو اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کر دیتا ہے یا اس سے اسی کی مثل کوئی برائی دور فرما دیتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی :تب تو ہم دعا میں کثرت کریں گے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اس سے زیادہ عطا فرمائے گا۔(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، جلد 5، صفحہ 134، مطبوعہ:بیروت)
مستدرک للحاکم میں ہے:”قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : فلا يدع الله دعوة دعا بها عبده المؤمن إلا بين له إما أن يكون عجل له في الدنيا و إما أن يكون ادخر له في الآخرة قال : فيقول المؤمن في ذلك المقام : يا ليته لم يكن عجل له في شيء من دعائه “ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اس دعا کو نہیں چھوڑتا جو بندۂ مؤمن کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے لئے ظاہر فرمادیتا ہے یا تو اس کو دنیا میں عطا کردیتا ہے یا اس کی دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ فرما دیتا ہے، فرمایا: مؤمن اس مقام (آخرت میں دعا کے اجر کو دیکھ کر)یہ کہے گا:اے کاش دنیا میں اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔(المستدرک علی الصحیحین، حدیث 1819،جلد1، صفحہ 671، مطبوعہ:بیروت )
لہذا بندے کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ، دنیاوی حکام ، عہدہ داران کے پاس لوگ کئی کئی چکر لگاتے ہیں ، پھر بھی امید لگائے ہوئے ہوتے ہیں ، وہ ذات تو پھر بے نیاز ہے، ہمارا رب ہے ، اس سے ناامیدی کس بات کی؟ لہٰذا دعا میں کثرت کرنی چاہئے اور اس پاک بارگاہ سے ہمیشہ امید ہونی چاہئے کہ بظاہر دنیا میں دعا کی قبولیت نہ بھی ظاہر ہوئی ، توبحکمِ حدیث آخرت میں کثیر اجر وثواب حاصل ہوگا ۔
دعا کی قبولیت کے آداب، اسباب اور اوقات سے متعلق معلومات کے لئے کتاب ”فضائل دعا“ کا مطالعہ فرمائیں ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟