Deeni Tabqa Secular Aur Liberal Logon Ki Mukhalifat Kyun Karta Hai?

دینی طبقہ سیکولر اور لبرل لوگوں کی مخالفت کیوں کرتا ہے ؟

مجیب:ابو احمد محمد انس رضا عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری        

فتوی نمبر: LHR-12429

تاریخ اجراء:22ربیع الآخر   1445ھ/07نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ   دینی طبقہ سیکولر و لبرل ازم کی مخالفت کس وجہ سے کرتا ہے، جبکہ سیکولر و جدت پسند طبقہ مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دیتا ہے،شریعت اسلامیہ اس  حوالے سے کیا فرماتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دینی طبقہ سیکولر و لبرازم کا مخالف اس وجہ سے ہے کہ  یہ دونوں نظریات فرد و معاشرے کی بگاڑ کا سبب اور انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور ان کی تعلیمات کے منافی ہیں۔مذہب کو ذاتی مسئلہ قرار دینے سے مراد سیکولر ولبر ل طبقہ یہ لیتا ہے کہ احکام شرعیہ پر عمل کرنے یا نہ کرنے میں وہ آزاد ہے؛ ایک   انسان کو اختیار ہےکہ وہ جن عقائد کو اختیار کرنا چاہے،جس مذہب میں جانا چاہے اسے اجازت ہے کہ یہ ا س کا ذاتی مسئلہ ہے تو اسلام مسلمانوں کو اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

   تفصیل اس میں یہ ہے کہ:

   لبرل  ازم میں آزادی اظہار، آزادی رائے، کسی بھی مذہب کو رکھنے یا نہ رکھنے کی آزادی،  سیکولر گورنمنٹ، فری مارکیٹ اکانومی، شہری حقوق، صنفی مساوات (Gender equality)، گلوبل ازم وغیرہ شامل ہیں۔ سیکولرازم یہ ہے کہ مذہب کسی بھی فرد کا ذاتی مسئلہ ہے، اسے اجتماعی معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔ کوئی فرد چاہے نماز پڑھے چاہے زندگی میں ایک بھی نہ پڑھے، سیکولرازم اس سے بےنیاز ہے۔ سیکولر گورنمنٹ یا سیکولر ریاست سے مراد بھی ایک ایسی ریاست ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس کے آئین و قوانین میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ وہ مکمل طور پر انسانی عقل و دانش اور تجربات سے اخذ کیے گئے ہوں۔

   اسلامی فکر کے مطابق انسان دنیا میں ایک خاص مدت کے لیے آیا ہے، یہ کھیتی ہے، یہاں نیک عمل اور خیر کی فصل کاشت کرنا مقصود ہے، جس کا صلہ روزِ آخرت ملے گا۔ نیک لوگوں کو جنت کا انعام ، جبکہ گناہ گاروں اور ظالموں کے حصے میں دوزخ جیسی بدترین جگہ آئے گی، جہاں انہیں خوفناک سزائیں ملیں گی۔انسان کو یہی مقصد یاد کروانے کے لیے انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے رہے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مکمل  دین عطاکیا جس میں عبادت کے ساتھ زندگی کے تمام معاملات میں شرعی رہنمائی کی گئی ہے۔اسلام صرف عبادات کے طریقے نہیں بتاتا ، بلکہ   زندگی کے دیگر معاملات اور اخلاقیات بھی سکھاتا ہے، لہٰذا انسان کو عبادات کے ساتھ معاملات و اخلاقیات ا س طریقہ پر اپنانے ہوں گے جس کی تعلیم اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے تاکہ وہ آخرت میں کامیابی حاصل کرسکے۔ اسلامی ریاست کا اہم ترین مقصد اسلامی تصورات کو متشکل کرنا اور انھیں ایک باقاعدہ فریم ورک میں لانا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک تصور علم، تصور اخلاق، تصور معیشت، تصور معاشرت، تصور شہریت ہے۔

   لہٰذا جب اسلام ایک مکمل دین ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ اس میں مکمل داخل ہو ایسا نہیں کہ  صرف عبادات کے لیے  اسے خاص کردے اور بقیہ اخلاقی ،معاشی ،معاشرتی اور سیاسی   معاملات میں اپنی مرضی کرے اور احکام شرعیہ کو پس پشت ڈال دے۔نیزعقائد میں اختیار(Choice)  نہیں کہ بندہ جو چاہے عقائد اپنا لے،جس مذہب کو چاہے قبول کرلے بلکہ اسلام  کے عقائد و نظریات لازم ہیں جن کو چھوڑنا مسلمان کے لیے  ہلاکت ہے۔ دین اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو ایک کامل دین میں ہونی چاہئیں،اب دیگر اَدْیان کو نہ اچھاسمجھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان کے کسی   عقیدہ یافعل کو اپنے گمان میں اچھا سمجھ کر اپنانے کی  اجازت ہے ۔اللہ عزوجل نے واضح طور پر قرآن پاک میں دیگر ادیان کو باطل قرار دیتے ہوئے اسلام کو حق مذہب قرار دیا ہے۔ اب خود کو مسلمان کہلوانے والاکسی دوسرے دین کی طرف جھکے تو وہ دوزخ میں جائے گا۔ کثیر احادیث میں مشرکین سے مشابہت کرنے،شرک کرنے سے منع کیا اوردیگر مذاہب کے بارے میں یہ عقیدہ دیا کہ وہ ان میں جانے کو ایسا ناپسند کرے جیسے آگ میں جانے کو ناپسند کرتا ہے۔

   قرآن پاک میں ہے﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والواسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(سورۃ البقرہ،سورۃ2،آیت208)

   صراط الجنان میں ہے:”﴿ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً: اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ ﴾ شانِ نزول:اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے اصحاب، تاجدار رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے بعد شریعت مُوسَوی کے بعض احکام پر قائم رہے، ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے، اس روز شکار سے لازماً اِجتناب جانتےاور اونٹ کےدودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مُباح یعنی جائز ہیں، ان کا کرنا ضروری تونہیں جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے، تو ان کے ترک کرنے میں اسلام کی مخالفت بھی نہیں ہے اور شریعت مُوسَوی پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیاکہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہوگئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔

   یاد رکھیں کہ داڑھی منڈوانا، مشرکوں کا سا لباس پہننا ، اپنی معاشرت بے دینوں جیسی کرنا بھی سب ایمانی کمزوری  کی علامت ہے، جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہروباطن، عبادات ومعاملات، رہن سہن، میل برتاؤ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں مگر یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا بڑا سخت جرم ہے۔ کافروں کو راضی کرنے کیلئے گائے کی قربانی بند کرنابھی اسی میں داخل ہے۔ یونہی کسی جگہ اذان بند کرنا یا اذان آہستہ آواز سے دینا سب اسی میں داخل ہے۔(صراط الجنان، جلد1، صفحہ326،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   اللہ عزوجل فرماتا ہے:﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ترجمہ کنزالایمان:آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔(سورة المائدہ ،سورة5 ،آیت3)

   قرآن پاک  میں ہے:﴿ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-﴾ترجمہ کنزالایمان:بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔(سورة آل عمران،سورة3،آیت19)

   اللہ عزوجل فرماتا ہے:﴿ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)ترجمہ کنزالایمان:اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں سےہے۔(سورة آل عمران،سورة3،آیت85)

                                                                      بخاری و مسلم کی حدیث پاک ہے:”عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللہُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلّٰہِ  وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يكره أَن يلقى فِي النَّار“ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا :جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا:اﷲعزوجل اور رسول  علیہ السلام تمام چیزوں سے زیادہ  محبوب ہوں۔جوبندے سے صرف اﷲتعالیٰ کے لیے محبت کرے۔جو کفر میں لوٹ جانا جبکہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان ،باب: من کرہ أن یعود فی الکفر کما یکرہ أن یلقی فی النار من الإیمان، جلد1،صفحہ13،حدیث21،دار طوق النجاة،مصر)

) صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان خصال من اتصف بھن وجد حلاوة الإیمان، جلد1، صفحہ 66، حدیث 67، دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

                                                                                          حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں جب توریت کے ایک نسخے کو پڑھا گیا تو آپ نے فرمایا:«وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي، لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي، لَاتَّبَعَنِي»ترجمہ: اس کی قسم جس کے قبضے میں محمدمصطفےٰ (ﷺ)کی جان ہے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام آج ظاہر ہوجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے   اور میری نبوت پاتے تو میری پیروی کرتے۔(سنن الدارمی،باب ما يتقى من تفسير حديث النبي صلى الله عليه وسلم، وقول غيره عند قوله صلى الله عليه وسلم،جلد1، صفحہ403، حدیث 449،دار المغني،عرب شریف)

سیکولر و لبرل ا زم کی تردید نہ کرتے ہوئے   مذہب کو اگر ذاتی مسئلہ قرار دیا جائے  تو کثیرخرابیاں لازم آئیں گی،چند پیش خدمت ہیں:

   مذہب کو ذاتی مسئلہ قرار دینے میں قرآن وحدیث  کی حیثیت بےمعنیٰ ہوجاتی ہے کہ  اگر یہ ذاتی ہی مسئلہ تھا ، تو دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح حضور علیہ السلا م کو کیوں بھیجا گیا،قرآنی آیات  میں  توحید کی دعوت اور شرک کی مذمت کیوں کی گئی، مشرکین جن میں کئی حضور علیہ السلام کے رشتہ دار تھے انہوں نے کس وجہ سے آپ علیہ السلام اور مسلمانوں کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ جنگیں بھی کیں؟

   مذہب کو ذاتی مسئلہ  قرار دینے سے ایک خرابی یہ لازم آئے گی کہ  ان تمام احادیث کا انکار کردیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایسے ارشادات فرمائے”خیرکم“(تم میں سے بہتر وہ ہے) وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ارشادات کو ماننے کا واضح مطلب یہ ماننا ہے کہ معاشرے میں افراد کی درجہ بندی میں مذہبی اقدار حتمی حیثیت کی حامل ہیں اور یہ وہ بات ہے جو جمہوری اقدار (آزادی اور مساوات) نیز اس دعوے کہ مذہب ذاتی مسئلہ ہے کا عین ضد ہے۔

   مذہب کا ذاتی مسئلہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تعلقات کی تشکیل و تعمیر میں مذہبی شناخت و اقدار کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ آسان لفظوں میں اس کی تفصیل یوں سمجھئے کہ لوگ تعلقات قائم کرتے ہوئے مذہبی شناخت و اخلاقِ حمیدہ کی صفات وغیرہ کو پسِ پشت ڈال دیں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ جس کے ساتھ ان کا تعلق ہے وہ مسلمان، متقی، عابد وغیرہ ہے یا مرتد، کافر، بدکار، فاسق و فاجر ہے۔ اب ذرا اس بات کو قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں پرکھیے جس میں  حکم دیا گیا:﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا۔اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہوا ہے اور مَیں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔(سورۃ الانعام،سورۃ 6،آیت162،163)

   نیز  قرآن پاک میں ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳)﴾ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو !اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔(سورۃ التوبہ، سورۃ9، آیت23)

   مذہب کو اگر نجی مسئلہ قرار دیا جائے تو  نیکی اور بدی برابر ہیں۔ مذہبی احکام کی بجاآوری مہمل اور بے معنیٰ ہے۔ بندہ اگر کسی یونیورسٹی کا استاد ہے تو اپنی ذاتی زندگی میں چاہے تو جمناسٹک کلب جائے، کرکٹ کا تماشائی بنے، فلموں کا تماش بین بنے، شراب خانے جائے یا نماز پڑھے، ان تمام باتوں کا اس کی اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ ذاتی زندگی میں افراد کی خواہشات کی تمام ترجیحات مساوی طور پر بے معنیٰ متصور کی جاتی ہیں، لہٰذا نیکی اور بدی بذات خود کوئی شے نہیں اور اپنی ذات کے اعتبار سے دونوں ہی مساوی قدریں ہیں۔ اب قرآن کا یہ اعلان سامنے رکھیے:﴿اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ﳳ-لَا یَسْتَوٗنَؐ(۱۸)﴾ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو بے حکم ہے ،یہ برابر نہیں۔(سورۃ السجدۃ،سورۃ32،آیت 18)

   دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ﴾ترجمہ کنزالایمان:اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی۔(حٰٓم سجدہ،سورۃ41،آیت34)

   مذہب کو فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دینے کا لازمی تقاضایہ بھی ہے کہ ہم مان لیں کہ کسی بھی فرد کو مذہب کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کے عمل پر تنقید کرنے یا اسے تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے کاحق حاصل نہیں۔ یہاں تک کہ ایک باپ کو نماز کے لئے اپنے بچوں پر جبر کرنے کاحق حاصل نہیں ہوسکتا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تمام افراد کی ذاتی خواہشات کی ترتیب اور زندگی گزارنے کے طریقے مساوی ہیں، تو ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خواہشات کا احترام کرے اور اسے برداشت کرے۔ دوسری طرف قرآن وحدیث کے کثیر احکام  جونیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے منع کرنے،خود اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچانے  پر ہیں ،ان سب احکام کو چھوڑنا پڑے گا۔ اول تو یہ ماننا ہوگا کہ  برائی کوئی شے ہی نہیں، اور اگر  کسی کو کوئی عمل اپنے تئیں برائی نظر آتی بھی ہے تو  اسے برداشت کرو، نہ کہ اسے روکنے کی فکر اور تدبیر کرنے لگو۔ بلکہ لبرل نظریات کا   مقصد  تو یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کے ہر عمل کو قابلِ قدر نگاہ سے دیکھوں، اگر وہ اپنی ساری زندگی بندروں کےحالات جمع کرنے میں صرف کردے تو کہوں کہ واہ جناب! کیا ہی عمدہ تحقیقی کام کیا ہے  ۔ناچنے گانے والوں اور دیگر خرافات کرنے والوں کو ملک و قوم کا سرمایہ سمجھو اور ان کے لیے تعریفی کلمات کہو۔

   مذہب کو نجی مسئلہ قرار دینے پر  نیکیوں  کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ افراد کو معاشرے میں زیادہ نیکیاں اور گناہ کم کمانے کا معاملہ  بیکار ہے ، کیونکہ جوں ہی نیکی اور گناہ کا سوال اٹھایا جائے گا تو مذہب ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی زندگی میں آجاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو نیکیاں کرکے  جنت میں جانے کے مواقع زیادہ فراہم ہیں یا گناہ کرکے جہنم میں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات شادی وغیرہ یا کئی دوسری محافل میں دورانِ طعام بیٹھنے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شرکاء محفل کو کھانا کھڑے ہوکر کھانا پڑتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس موقع پر یہ بات کہے کہ بہتر یہ تھا کہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا انتظام ہوتا، تو لوگ طرح طرح کے  اعتراضات کرنےلگتے ہیں۔ ایک عام جواب یہ ہوتا ہے کہ بھائی بیٹھ کر کھانا فرض یا واجب تو نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ آیا یہ عمل فرض ہے یا واجب، بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے کی ادارتی صف بندی میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا یا نہیں کہ آیا اس کے نتیجے میں لوگوں کو زیادہ نیکیاں کمانے کا موقع میسر آئے یا کم؟ اگر ایک عمل کو کئی طریقوں سے کرنا ، ممکن ہے تو سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سا اختیار کیا جائے گا؟ ظاہر ہے مسلمان کے لئے بہتر طریقہ وہ ہے جس میں اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہو،تاکہ زیادہ نیکیاں کمائی جاسکیں کیونکہ یہ نیکیاں ہی تو وہ شے ہیں جو آخرت میں کامیابی کا اصل سامان ہیں، ایسے ہی اسلامی معاشرے میں نیکیوں کا فروغ اور گناہوں کا سدباب کرنا ہی تو ریاست کا بنیادی کام ہوتا ہے۔

   قرآن میں اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کی ایک نشانی یہ بتائی کہ ﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(۴۱)﴾ ترجمہ کنز العرفان:وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو نما زقائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے قبضے میں سب کاموں کا انجام ہے۔(سورۃ الحج،سورۃ22،آیت41)

   مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ مرنے کے بعد جنت و جہنم میں جانا بےکار کے سوالات ہیں، اس کے مقابلے میں اسلام میں سب سے اہم اور پہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائے گا؟ ریاست کو اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، کہ افراد جنتیوں والے اعمال کررہے ہیں یا جہنمیوں والے، اسے تو صرف ایک شے سے غرض ہوتی ہے اور وہ ہے عوام میں ہر طرح کی آزادی   کو عام کرکے اپنے گمان میں بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔  معاشرے میں لوگوں میں جب آخرت کا تصور ختم ہوگا تو سود،رشوت،ڈاکہ زنی جیسے قبیح افعال میں اضافہ ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم