مجیب: عبدالرب شاکرعطاری
مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-6090
تاریخ اجراء: 15رجب المرجب1439 ھ/02اپریل2018ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کاحالتِ
بیداری میں دیدارکیایانہیں؟کیانبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علاوہ کسی
اورکودنیامیں حالتِ بیداری میں دیدارہوسکتاہے؟کیاخواب
میں رب عزوجل کادیدارہوسکتاہےیانہیں؟
سائل:محمدنبیل
عطاری(فیصل آباد)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سرکارِ دوعالم،نورمجسم،شاہ بنی
آدم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج
حالتِ بیداری میں اپنے رب عزوجل کادیدارکیا،جس
پرمتعددآیاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ سے
تائید ملتی ہےاوراس پر اقوالِ صحابہ بھی موجودہیں اوریہ
دیداردنیاوی زندگی کے اندرحالتِ بیداری
میں صرف اورصرف نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم کے ساتھ خاص ہے،کسی اورکونہیں ہوسکتا۔جوشخص دنیاوی
زندگی میں حالتِ بیداری میں رب عزوجل
کودیکھنے کادعوی کرے ،اس پر علماء نے گمراہی اور کفر کا حکم
دیاہے،ہاں خواب میں رب عزوجل کادیدارممکن ہے،بلکہ بہت سے اولیائےکرام
کوہوابھی ہے،جیسے سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ
اللہ تعالی علیہ نے خواب میں سوباراللہ عزوجل کادیدارکیا۔
چنانچہ شبِ معراج نبی کریم
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اللہ تعالی کودیکھنے
کے بارے میں قرآن مجیدمیں ہے:﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَاطَغٰی﴾
ترجمۂ کنز الایمان:آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے
بڑھی۔(پارہ27،سورة النجم،آیۃ17)
علامہ محمدبن احمدمالکی قرطبی
علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”ولوکان منامالقال بروح عبدہ
ولم یقل بعبدہ،وقولہ﴿مازاغ البصروماطغی﴾یدل علی
ذلک،ولوکان منامالماکانت فیہ آیۃ ولامعجزۃ
،ولماقالت لہ ام ھانی: لاتحدث الناس فیکذبوک،ولافضل ابوبکربالتصدیق،ولماأمکن
قریشاالتشنیع والتکذیب،وقدکذبہ قریش فیماأخبربہ
حتی ارتدأقوام کانواآمنوا،فلوکان بالرؤیالم یستنکر“ترجمہ:اوراگریہ
خواب کاواقعہ ہوتا،تواللہ تعالی یوں ارشادفرماتا:”بروح عبدہ“
اور”بعبدہ“ نہ
فرماتا،نیزاللہ تعالی کافرمان﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی﴾بھی
اس پردلالت کرتا ہے کہ یہ بیداری کاواقعہ
تھا،نیزاگریہ خواب کاواقعہ ہوتا،تواس میں اللہ تعالی
کی کوئی نشانی اورمعجزہ نہ ہوتااورآپ سے حضرت ام
ہانی یہ نہ کہتیں کہ آپ لوگوں سے یہ واقعہ
بیان نہ کریں، کہ وہ آپ کی تکذیب کریں گے ،اورنہ
حضرت ابوبکرکی تصدیق کرنے میں کوئی خاص فضیلت
ہوتی اورنہ قریش کے طعن وتشنیع اورتکذیب کی
کوئی وجہ ہوتی،حالانکہ جب آپ نے معراج کی خبردی،توقریش
نے آپ کی تکذیب کی اورکئی مسلمان مرتدہوگئے
اوراگریہ خواب ہوتا،توکوئی اس کاانکارنہ کرتا۔
(الجامع لاحکام القرآن،ج10،ص134،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)
علامہ
محمداسماعیل حقی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے
ہیں:”ان
رؤیة اللہ کانت بعین بصرہ علیہ السلام یقظة بقولہ﴿ما زاغ البصر﴾الخ لان وصف البصر بعدم
الزیغ یقتضی ان ذلک یقظة ولو کانت الرؤیة
قلبیة لقال ما زاغ قلبہ واما القول بأنہ یجوز ان یکون
المراد بالبصر بصر قلبہ فلا بدلہ من القرینة وھی ھھنا معدومة“ترجمہ:
﴿مازاغ
البصر﴾کے
فرمان سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ
عزوجل کو دیکھنا جاگتے ہوئے ظاہری آنکھوں کے ساتھ تھا،کیونکہ
بصر کو عدمِ زیغ(یعنی آنکھ کے کسی طرف نہ پھرنے)
سے موصوف کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ معاملہ جاگتے ہوئے تھااور اگر
رؤیت قلبیہ ہوتی، تو اللہ تعالی ﴿مازاغ البصر﴾کے
بجائے”مازاغ
قلبہ“فرماتا،
بہرحال یہ کہنا کہ یہاں بصر سے مراد بصر قلبی ہے ،تو اس کا جواب
یہ ہے کہ اس مراد کے لیے کسی قرینے کا ہونا ضروری
ہے اور وہ قرینہ یہاں معدوم ہے۔(تفسیر روح
البیان ،پارہ27،سورة النجم،آیۃ17،ج9،ص228،دارالفکر،بیروت)
شرح صحیح مسلم للنووی میں
ہے:”اختلف
الناس فی الاسراء برسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
فقیل انماکان جمیع ذلک فی المنام والحق الذی علیہ
اکثرالناس ومعظم المتاخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ
اسری بجسدہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والآثارتدل
علیہ “ترجمہ:رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معراج کے متعلق علماء
کااختلاف ہے۔ایک قول یہ ہے کہ پوری معراج خواب میں
ہوئی تھی اورحق وہ ہے جس پراکثرلوگ
اوربڑے بڑے فقہاء،محدثین اورمتکلمین ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوجسمانی معراج ہوئی
ہےاوراحادیث اس پردلالت کرتی ہیں ۔(شرح مسلم للنووی،ج01،ص91،مطبوعہ کراچی )
مجمع الزوائدمیں ہے:”عن ابن عباس انہ کان
یقول ان محمدصلی اللہ تعالی علیہ وسلم رأی ربہ
مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفؤادہ “ ترجمہ:حضرت ابن عباس
رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے کہ حضرت محمدمصطفی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے رب کودومرتبہ دیکھا۔
ایک مرتبہ سرکی آنکھ سے اورایک مرتبہ دل کی
آنکھ سے۔ (مجمع الزوائد،باب منہ
فی الاسراء ،ج01،ص79،مطبوعہ مکتبۃ
القدسی)
ابن
عساکرنے حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت کیا کہ حضور سیدالمرسلین صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:” ان اللہ اعطی
موسی الکلام واعطانی الرؤیة لوجھہ وفضلنی بالمقام المحمود
والحوض المورود“ترجمہ:بیشک
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ہم کلامی بخشی اورمجھے اپنا
دیدار عطافرمایا اورمجھ کو شفاعت کبریٰ وحوض کوثر سے
فضیلت بخشی ۔(کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر ،عن جابر
حدیث،ج14،ص447، مؤسسة الرسالة ،بیروت )
جامع
ترمذی ومعجم طبرانی میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی
عنہ سے روایت ہے:”واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر
محمد الی ربہ قال عکرمة فقلت لابن عباس نظر محمد الی ربہ قال نعم جعل
الکلام لموسیٰ والخلة لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم زاد
الترمذی وقد رأی محمد ربہ مرتین“ترجمہ: طبرانی کے
الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما
نے فرمایا :محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو
دیکھا۔ حضرت عکرمہ نے کہا:میں نے ابن عباس سے عرض کی
:کیا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو
دیکھا؟فرمایا :ہاں ،اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ
السلام کے لیے کلام رکھا اورابراہیم علیہ السلام کے لیے
دوستی اورمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے
دیدار اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ بیشک
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دوبار
دیکھا۔(جامع الترمذی ،ابواب التفسیر ،سورة
النجم،جلد5،صفحہ248،دار الغرب السلامی ،بیروت)
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ
تعالی لکھتے ہیں:”الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب
الیہ اکثر الصحابة“ترجمہ:مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ معراج اپنے
رب کوجاگتی آنکھ سےدیکھا ،جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا
یہی مذہب ہے۔(نسیم الریاض ،فصل واما رؤیة
لربہ،ج2،ص303، مرکز اھلسنت برکات رضا، گجرات ھند )
دنیاکی زندگی میں
جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کادیدارناممکن ہونے کے بارے
میں فتاوی حدیثیہ میں ہے:”والامام الربانی المترجم بشیخ الکل فی
الکل ابو القاسم القشیری رحمہ اللہ تعالیٰ یجزم
بانہ لا یجوز وقوعھا فی الدنیا لاحد غیر نبینا
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ولا علی وجہ الکرامة
،وادعی ان الامة اجتمعت علی ذلک“ترجمہ:اور امام ربانی جنہیں شیخ الکل
فی الکل ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ کہا جاتا ہے،نے اس بات پر جزم کیا کہ دنیا میں(جاگتے
ہوئے) ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے
سوا کسی ایک کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے دیدار
کا وقوع جائز نہیں،نہ ہی کرامت کے طور پراور انہوں نے اس بات پر امت
کے اجماع کا دعویٰ کیا۔(فتاوی
حدیثیہ،مطلب:فی رؤیة اللہ تعالی فی
الدنیا،صفحہ200،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)
بیداری
میں دیدارِ الہی کادعوی کرنے والے پرحکمِ کفرہونے کے بارے
میں المعتقدالمنتقدمیں ہے:”کفروامدعی
الرویة کماأن القاری فی ذیل قول القاضی وکذالک
من ادعی مجالسة اللہ تعالی والعروج الیہ ومکالمتہ“قال:وکذامن
ادعی رویتہ سبحانہ فی الدنیابعینہ“ترجمہ:اللہ تعالی کودیکھنے کادعوی کرنے
والے شخص پر علماء نے کفر کا فتوی دیا ہے جیساکہ ملاعلی
قاری نے قاضی عیاض کے اس قول (اسی طرح جواللہ تعالی
کے ساتھ ہم نشینی اورعروج کرکے اس تک پہنچنے اوراس سے بات کرنے
کامدعی ہو، یہی حکم ِ کفر ہے )کے تحت کہا،اوریوں ہی
حکمِ کفرہے اس شخص پربھی جواللہ تعالی کودنیامیں آنکھ سے
دیکھنے کادعوی کرے ۔
(المعتقدالمنتقد،صفحہ59،مطبوعہ برکاتی
پبلیشرز)
کتاب”کفریہ
کلمات کے بارے میں سوال جواب“میں ہے:”دنیامیں جاگتی
آنکھوں سے پروردگارعزوجل کادیدارصرف صرف سرکارِنامدار،مدینے کے
تاجدارصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کاخاصہ ہے،لہذااگرکوئی
شخص دنیامیں جاگتی حالت میں دیدارِ الہی
کادعوی کرے،اس پرحکمِ کفرہے،جبکہ ایک قول اس کے بارے میں
گمراہی کابھی ہے۔“(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال
جواب،صفحہ228،مطبوعہ مکتبةالمدینہ،کراچی)
حالتِ خواب میں اللہ تعالی کے
دیدارکے جائزہونے کے بارے میں المعتقدالمنتقدمیں ہے:”أمارؤیاہ سبحانہ فی المنام....جائزة
عندالجمھور،لأنھانوع مشاھدة بالقلب،ولااستحالة فیہ وواقعة
کماحکیت عن کثیرمن السلف منھم أبوحنیفة وأحمدبن
حنبل رضی اللہ تعالی عنھما،وذکرالقاضی الاجماع علی
أن رؤیتہ تعالی مناماجائزة“ترجمہ:
جمہورعلماء کے نزدیک اللہ سبحانہ کوخواب میں دیکھناجائزہے،کیونکہ
یہ دل سے حاصل ہونے والے مشاہدے کی ایک قسم ہےاوراس میں
کوئی استحالہ نہیں اورخواب میں دیدارواقع بھی ہواہے،جیساکہ
کثیرسلف سے حکایت کیاگیاہے،جن میں امام
ابوحنیفہ اورامام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالی عنہماہیں اورامام
قاضی نے اس بات پراجماع ذکرکیاہے کہ اللہ تعالی
کادیدارخواب میں جائزہے۔(المعتقدالمنتقد،صفحہ68،مطبوعہ
برکاتی پبلیشرز)
منح
الروض الازھرمیں ہے:”رؤیة اللہ سبحانہ
وتعالی فی المنام،فالأکثرون علی جوازھا....فقدنقل
أن الامام أباحنیفة قال:رأیت رب العزة فی
المنام تسعاوتسعین مرة،ثم رأہ مرة أخری تمام المائة“ترجمہ:اللہ سبحانہ وتعالی کادیدارخواب
میں ممکن ہے،اوراکثرعلماء اس کے جوازپرہیں.....منقول ہے کہ امام
ابوحنیفہ نے فرمایا:میں نے اللہ رب العزت کوخواب میں
ننانوے مرتبہ دیکھاہے پھرانہوں نے ایک مرتبہ اوردیکھا،سومکمل
کرنے کے لیے۔(منح الروض الازھر،صفحہ124،مطبوعہ دارالکتب
العلمیہ،بیروت)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟